Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 24
- SuraName
- تفسیر سورۂ نور
- SegmentID
- 1038
- SegmentHeader
- AyatText
- {33} {وليستعفِفِ الذين لا يَجِدون نكاحاً حتى يُغنيهم الله من فضلِهِ}: هذا حكم العاجز عن النِّكاح، أمره الله أن يستعففَ؛ أنْ يكفَّ عن المحرَّم ويفعلَ الأسبابَ التي تكفُّه عنه، من صرف دواعي قلبه بالأفكارِ التي تخطُرُ بإيقاعِهِ فيه، ويفعل أيضاً كما قال النبيُّ - صلى الله عليه وسلم -: «يا معشر الشباب! من استطاعَ منكم الباءةَ؛ فليتزوَّجْ، ومنْ لم يستَطِعْ؛ فعليه بالصَّوم، فإنَّه له وجاء». وقوله: {الذين لا يَجِدون نكاحاً}؛ أي: لا يقدرون نكاحاً: إما لفقرهم، أو فقر أوليائهم وأسيادهم، أو امتناعهم من تزويجهم، وليس لهم قدرةٌ على إجبارهم على ذلك. وهذا التقدير أحسنُ من تقدير مَنْ قَدَّر لا يجدونَ مهر نكاح، وجعلوا المضاف إليه نائباً منابَ المضاف؛ فإنَّ في ذلك محذورين: أحدهما: الحذفُ في الكلام، والأصل عدم الحذف. والثاني: كون المعنى قاصراً على مَنْ له حالان: حالةُ غنى بمالِهِ، وحالةُ عُدْم، فيخرُجُ العبيد والإماءُ ومَنْ إنكاحُهُ على وليِّهِ كما ذكرنا، {حتى يُغْنِيَهُمُ اللهُ من فضلِهِ}: وعدٌ للمستعفف أنَّ الله سَيُغْنِيه وييسِّرُ له أمره، وأمرٌ له بانتظار الفرج؛ لئلا يشقَّ عليه ما هو فيه. وقوله: {والذين يبتغونَ الكتاب مما مَلَكَتْ أيمانكُم فكاتِبوهم إن علمتُم فيهم خيراً}؛ أي: من ابتغى وطلب منكم الكتابةَ وأن يَشْتَرِي نفسَه من عبيدٍ وإماءٍ؛ فأجيبوه إلى ما طلب، وكاتبوه، {إنْ علمتُم فيهم}؛ أي: في الطالبين للكتابة {خيراً}؛ أي: قدرة على التكسُّب وصلاحاً في دينه؛ لأنَّ في الكتابة تحصيلَ المصلحتين: مصلحة العِتْق والحريَّة، ومصلحة العوض الذي يبذُلُه في فداء نفسه، وربما جدَّ واجتهد وأدرك لسيِّده في مدَّة الكتابة من المال ما لا يحصُلُ في رقِّه، فلا يكون ضررٌ على السيِّد في كتابتِهِ، مع حصول عظيم المنفعة للعبد؛ فلذلك أمر الله بالكتابة على هذا الوجه أمرَ إيجابٍ؛ كما هو الظاهر، أو أمر استحبابٍ على القول الآخر، وأمر بمعاوَنَتِهِم على كتابَتِهِم؛ لكونهم محتاجين لذلك؛ بسبب أنَّهم لا مال لهم، فقال: {وآتوهم من مال الله الذي آتاكم}؛ يدخل في ذلك أمر سيده الذي كاتبه أن يعطيه من كتابته أو يسقط عنه منها وأمر الناس بمعونتهم، ولهذا جعل الله للمكاتبين قسطاً من الزكاة ورغب في إعطائه بقوله: {من مال الله الذي آتاكم}؛ أي: فكما أن المال مال الله، وإنَّما الذي بأيديكم عطيَّةٌ من الله لكم ومحضُ مِنَّة؛ فأحسنوا لعباد الله كما أحسن الله إليكم. ومفهومُ الآية الكريمة أنَّ العبد إذا لم يطلبِ الكتابة؛ لا يؤمَرُ سيِّدُه أن يبتدئ بكتابته، وأنَّه إذا لم يعلم منه خيراً؛ بأن عَلِمَ منه عكَسَه: إمَّا أنَّه يعلم أنه لا كَسْبَ له، فيكون بسبب ذلك كَلًّا على الناس ضائعاً، وإمَّا أن يخافَ إذا عُتِق وصار في حريَّةِ نفسِهِ أن يتمكَّن من الفسادِ؛ فهذا لا يؤمر بكتابتِهِ، بل ينهى عن ذلك؛ لما فيه من المحذور المذكور. ثم قال تعالى: {ولا تكرِهوا فتياتكم}؛ أي: إماءكم {على البِغاءِ}؛ أي: أن تكون زانيةً؛ {إنْ أردنَ تحصُّناً}: لأنه لا يُتَصَوَّر إكراهُها إلاَّ بهذه الحال، وأما إذا لم تُرِدْ تحصُّناً؛ فإنها تكونُ بغيًّا يجبُ على سيِّدها منعُها من ذلك، وإنما هذا نهيٌ لما كانوا يستعمِلونه في الجاهليَّة من كون السيِّد يُجْبِرُ أمَتَه على البغاءِ؛ ليأخذ منها أجرة ذلك، ولهذا قال: {لِتَبْتَغوا عَرَضَ الحياةِ الدُّنيا}: فلا يَليقُ بكم أن تكونَ إماؤكم خيراً منكم وأعفَّ عن الزِّنا وأنتم تفعلونَ بهنَّ ذلك لأجل عَرَضِ الحياة؛ متاع قليل يَعْرِضُ ثم يزولُ؛ فكسبُكم النزاهةَ والنظافةَ والمروءةَ بقطع النظر عن ثوابِ الآخرة وعقابِها أفضلُ من كسبِكُم العَرَضَ القليل الذي يُكْسِبُكُمُ الرذالةَ والخسَّة. ثم دعا مَنْ جرى منه الإكراه إلى التوبة، فقال: {وَمَن يُكْرِهْهُنَّ فإنَّ الله من بعدِ إكراهِهِنَّ غفورٌ رحيمٌ}: فْليتُبْ إلى الله، ولْيقلعْ عما صدر منه مما يُغْضِبُه؛ فإذا فَعَلَ ذلك؛ غَفَرَ الله ذنوبَه ورَحِمَه؛ كما رَحِمَ نفسه بفكاكها من العذاب، وكما رَحِمَ أمَتَهُ بعدم إكراهِها على ما يضرُّها.
- AyatMeaning
- [33] ﴿ وَلْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ نِكَاحًا حَتّٰى یُغْنِیَهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ٘ ﴾ ’’اور ان لوگوں کو پاک دامن رہنا چاہیے جو نکاح کی طاقت نہیں رکھتے، یہاں تک کہ اللہ ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے۔‘‘ یہ اس شخص کے لیے حکم ہے جو نکاح کرنے سے عاجز ہے۔ اللہ نے اس کو حکم دیا ہے کہ وہ پاک بازی کو اپنا شیوہ بنائے، حرام کاری میں پڑنے سے بچے اور ایسے اسباب اختیار کرے جو اسے حرام کاری سے بچائیں یعنی قلب کو ایسے خیالات سے بچائے رکھے جو حرام کاری میں پڑنے کی دعوت دیتے ہوں ، نیز وہ حرام کاری سے محفوظ رہنے کے لیے رسول اللہ e کے اس ارشاد پر عمل کرے۔ آپe نے فرمایا: ’’اے نوجوانو! تم میں سے جو کوئی نکاح کی طاقت رکھتا ہے وہ نکاح کرے اور جو کوئی نکاح کی طاقت نہیں رکھتا تو اسے چاہیے کہ وہ روزے رکھے کیونکہ روزہ شہوت کو ختم کرتا ہے۔‘‘( صحیح البخاري، النکاح، باب قول النبیﷺ من استطاع منکم…، ح: 5065 و صحیح مسلم، النکاح، باب استحباب النکاح لمن تاقت…، ح:1400) ﴿ الَّذِیْنَ لَا یَجِدُوْنَ نِكَاحًا ﴾ یعنی اپنی محتاجی یا اپنے مالکوں کی محتاجی یا مالکوں کے نکاح نہ کرنے کی وجہ سے اگر وہ نکاح کرنے کی قدرت نہیں رکھتے اور وہ اپنے نکاح کے لیے اپنے مالکوں کو مجبور بھی نہیں کر سکتے۔ یہ معنی مقدر اس معنی سے بہتر ہے جو بعض لوگوں نے مراد لیا ہے کہ ’’جو لوگ نکاح کا مہر ادا کرنے کی طاقت نہیں رکھتے۔‘‘ انھوں نے مضاف الیہ کو مضاف کا قائم مقام بنایا۔ مگر یہ معنی مراد لینے میں دو رکاوٹیں ہیں ۔ (۱) کلام میں حذف ماننا پڑے گا، جبکہ اصل عدم حذف ہے۔ (۲) معنی کا اس شخص میں منحصر ہونا جس کی دو حالتیں ہوں ، اپنے مال کی وجہ سے غنا کی حالت اور ناداری کی حالت۔اس صورت میں غلام اور لونڈیاں اس سے نکل جاتی ہیں اور اسی طرح وہ بھی جن کا نکاح کرانا سرپرست کے ذمے ہے، جیسا کہ ہم نے ذکر کیا۔ ﴿ حَتّٰى یُغْنِیَهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ٘ ﴾ اللہ تبارک و تعالیٰ نے پاک دامن شخص کے لیے غنا کا وعدہ کیا ہے، نیز یہ کہ وہ اس کے معاملے کو آسان کر دے گا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو حکم دیا ہے کہ کشادگی کا انتظار کرے تاکہ موجود حالات اس پر گراں نہ گزریں ۔ ﴿ وَالَّذِیْنَ یَبْتَغُوْنَ الْكِتٰبَ مِمَّا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوْهُمْ ﴾ یعنی تمھارے غلام اور لونڈیوں میں سے جو کوئی تم سے مکاتبت کا طلب گار ہو اور اپنے آپ کو خریدنا چاہے تو اس کی بات مانتے ہوئے اس سے مکاتبت کر لو﴿ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْهِمْ ﴾ ’’اگر جانو تم ان میں ۔‘‘ یعنی مکاتبت کے طلب گار غلاموں میں ﴿خَیْرًا﴾ ’’بھلائی۔‘‘ یعنی کمانے کی طاقت اور دین میں بھلائی کیونکہ مکاتبت میں دو مصلحتوں کا حصول مقصود ہے۔ آزادی کی مصلحت اور اس معاوضے کی مصلحت، جو وہ اپنے نفس کی آزادی کے لیے خرچ کرتا ہے۔ بسااوقات وہ جدوجہد کر کے مکاتبت کی مدت کے اندر اپنے آقا کو اتنا مال مہیا کر دیتا ہے جو وہ غلامی میں رہتے ہوئے نہیں کر سکتا۔ اس لیے غلام کے لیے ایک بڑی منفعت کے حصول کے ساتھ ساتھ، اس مکاتبت میں آقا کو بھی نقصان نہیں پہنچتا۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے اس پہلو سے مکاتبت کا حکم دیا ہے، جو وجوب کا حکم ہے جیسا کہ ظاہر ہے۔ یا دوسرے قول کے مطابق یہ حکم استحباب کے طور پر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی مکاتبت پر ان کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے کیونکہ وہ اس کے محتاج ہیں اوراس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی مال نہیں ، چنانچہ فرمایا:﴿وَّاٰتُوْهُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰهِ الَّذِیْۤ اٰتٰىكُمْ﴾ ’’اور تم ان کو اس مال میں سے دو جو اللہ نے تمھیں دیا ہے۔‘‘ اس میں مکاتب کے آقا کا معاملہ بھی شامل ہے جس نے اس کے ساتھ مکاتبت کی ہے کہ وہ اس کی مکاتبت میں اس کو کچھ عطا کرے یا مکاتبت کی مقررہ رقم میں سے کچھ حصہ ساقط کر دے اور اللہ تعالیٰ نے دوسرے لوگوں کو بھی مکاتب کی مدد کرنے کا حکم دیا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے مکاتبین کے لیے زکاۃ میں حصہ رکھ دیا ہے اور زکاۃ میں سے مکاتبین کو عطا کرنے کی ترغیب دی ہے۔ فرمایا: ﴿ مِّنْ مَّالِ اللّٰهِ الَّذِیْۤ اٰتٰىكُمْ ﴾ یعنی جس طرح، یہ مال درحقیقت اللہ کا مال ہے، اس مال کا تمھارے ہاتھوں میں ہونا تم پر اللہ تعالیٰ کی عنایت اور اس کا محض عطیہ ہے، اسی طرح تم بھی اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ احسان کرو جس طرح اللہ تعالیٰ نے تم پر احسان کیا ہے۔ آیت کریمہ کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اگر غلام مکاتبت کا مطالبہ نہ کرے تو اس کے آقا کو حکم نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اس کے ساتھ مکاتبت کی ابتدا کرے، جبکہ اس میں اسے کوئی بھلائی نظر نہ آئے یا اسے معاملہ برعکس نظر آئے، یعنی وہ جانتا ہو کہ وہ کما نہیں سکتا اور اس طرح وہ لوگوں پر بوجھ بن کر ضائع ہو جائے گا۔ یا اسے یہ خوف ہو کہ جب بھی اس کو آزاد کر دیا گیا اور اسے آزادی حاصل ہو گئی تو اسے فساد برپا کرنے کی قدرت حاصل ہو جائے گی تو ایسے غلام کے بارے میں اس کے آقا کو مکاتبت کا حکم نہیں دیا جا سکتا بلکہ اس کے برعکس اس کو مکاتبت سے روکا جائے گا کیونکہ اس میں متذکرہ بالا خطرہ موجود ہے جس سے بچنا چاہیے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَا تُكْرِهُوْا فَتَیٰتِكُمْ ﴾ ’’اور نہ مجبور کرو تم اپنی لونڈیوں کو‘‘ ﴿ عَلَى الْبِغَآءِ ﴾ ’’زنا کار بننے پر‘‘ ﴿ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا ﴾ ’’اگر وہ پاک دامن رہنا چاہیں ۔‘‘ اس لیے کہ اس حالت کے سوا کسی حالت میں اسے مجبور کرنے کا تصور نہیں کیا جاسکتا اور اگر وہ پاک دامن رہنا نہ چاہے تو اس صورت میں وہ بدکار ہے اور اس کے آقا پر واجب ہے کہ وہ اس کو اس بدکاری سے روک دے۔ اللہ تعالیٰ نے لونڈیوں کو بدکاری پر مجبور کرنے سے اس لیے روکا ہے کہ جاہلیت میں لونڈیوں کو بدکاری کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔ آقا اجرت کی خاطر اپنی لونڈی کو بدکاری پر مجبور کرتا تھا، اس لیے فرمایا:﴿ لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا﴾ ’’تاکہ تم تلاش کرو دنیا کی زندگی کا سامان۔‘‘ پس تمھارے لیے یہ مناسب نہیں کہ تمھاری لونڈیاں تم سے بہتر اور پاک باز ہوں اور تم صرف دنیا کے مال ومتاع کی خاطر ان کے ساتھ یہ سلوک کرو۔ دنیا کا مال بہت قلیل ہے وہ سامنے آتا ہے، پھر ختم ہو جاتا ہے۔ تمھاری کمائی تمھاری پاکیزگی، نظافت اور مروت ہے… آخرت کے ثواب وعقاب سے قطع نظر… یہ اس تھوڑے سے سامانِ دنیا کمانے سے کہیں بہتر ہے جو تمھارے رذالت اور خساست کے کمانے سے حاصل ہوتا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں کو توبہ کی طرف بلایا جن سے اپنی لونڈیوں پر جبر کرنے کا یہ گناہ سرزد ہوا، چنانچہ فرمایا:﴿ وَمَنْ یُّؔكْرِهْهُّنَّ فَاِنَّ اللّٰهَ مِنْۢ بَعْدِ اِكْرَاهِهِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ ﴾ ’’اور جو ان کو مجبور کرے گا تو اللہ ان کے مجبورکرنے کے بعد غفور رحیم ہے۔‘‘ یعنی اسے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرنی چاہیے اور ان تمام گناہوں کو چھوڑ دینا چاہیے جو اللہ تعالیٰ کی ناراضی کا باعث بنتے ہیں ۔ جب وہ ان تمام گناہوں سے توبہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہوں کو بخش دے گا اور اس پر اسی طرح رحم فرمائے گا جس طرح تائب نے اپنے نفس کو عذاب سے بچا کر اپنے آپ پر رحم کیا اور جس طرح اس نے اپنی لونڈی کو ایسے فعل پر، جو اس کے لیے ضرر رساں تھا، مجبور نہ کر کے اس پر رحم کیا۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [33]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF