Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
2
SuraName
تفسیر سورۂ بقرۃ
SegmentID
110
SegmentHeader
AyatText
{215} أي: يسألونك عن النفقة وهذا يعم السؤال عن المنفَق والمنفَق عليه، فأجابهم عنها فقال: {قل ما أنفقتم من خير}؛ أي: مال قليل أو كثير فأولى الناس به وأحقهم بالتقديم أعظمهم حقًّا عليك، وهم الوالدان الواجب برهما والمحرم عقوقهما، ومن أعظم برهما، النفقة عليهما، ومن أعظم العقوق ترك الإنفاق عليهما، ولهذا كانت النفقة عليهما واجبة على الولد الموسر، ومن بعد الوالدين الأقربون على اختلاف طبقاتهم، الأقرب، فالأقرب، على حسب القرب والحاجة، فالإنفاق عليهم صدقة وصلة {واليتامى}؛ وهم الصغار الذين لا كاسب لهم فهم في مظنة الحاجة، لعدم قيامهم بمصالح أنفسهم وفقد الكاسب، فوصى الله بهم العباد رحمة منه بهم ولطفاً {والمساكين}؛ وهم أهل الحاجات وأرباب الضرورات الذين أسكنتهم الحاجة، فينفَق عليهم لدفع حاجاتهم وإغنائهم {وابن السبيل}؛ أي: الغريب المنقطع به في غير بلده، فيعان على سفره بالنفقة التي توصله إلى مقصده. ولما خصص الله تعالى هؤلاء الأصناف لشدة الحاجة، عمم تعالى فقال: {وما تفعلوا من خير}؛ من صدقة على هؤلاء وغيرهم بل ومن جميع أنواع الطاعات والقربات لأنها تدخل في اسم الخير {فإن الله به عليم}؛ فيجازيكم عليه، ويحفظه لكم كلٌّ على حسب نيته وإخلاصه، وكثرة نفقته وقلتها، وشدة الحاجة إليها، وعظم وقعها ونفعها.
AyatMeaning
[215] لوگ آپ سے خرچ کرنے کے بارے میں سوال کرتے ہیں۔ یہ سوال خرچ کرنے والے اور جس پر خرچ کیا جائے، ان کے بارے میں عام ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں ان کو جواب عطا فرمایا ہے: ﴿ قُ٘لْ مَاۤ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ ﴾ ’’کہہ دیجیے، جو مال تم خرچ کرنا چاہو۔‘‘ یعنی تھوڑا یا زیادہ جو مال بھی تم خرچ کرتے ہو، اس مال کے سب سے زیادہ اور سب سے پہلے مستحق والدین ہیں جن کے ساتھ نیکی کرنا فرض اور ان کی نافرمانی حرام ہے اور والدین کے ساتھ سب سے بڑی نیکی ان پر خرچ کرنا اور ان کی سب سے بڑی نافرمانی ان پر خرچ کرنے سے گریز کرنا ہے، اس لیے صاحب کشائش بیٹے کے لیے والدین پر خرچ کرنا فرض ہے۔ والدین کے بعد رشتہ داروں پر ان کے رشتوں کے مطابق خرچ کیا جائے اور (اَ لْاَقْرَبُ فَالْاَقْرَب) ’’جو زیادہ قریبی ہے وہ زیادہ مستحق ہے‘‘ کے اصول کو مدنظر رکھا جائے اور جو زیادہ قریبی اور ضرورت مند ہے اسے دیا جائے۔ پس ان پر خرچ کرنا صدقہ اور صلہ رحمی ہے۔ ﴿وَالْ٘یَ٘تٰمٰى﴾ یتیموں سے مراد وہ چھوٹے چھوٹے بچے ہیں جن کا کوئی کمانے والا نہیں۔ ان کے بارے میں گمان یہی ہوتا ہے کہ وہ ضرورت مند ہیں کیونکہ ان کے لیے کوئی کمانے والا موجود نہیں ہے اور وہ خود اپنے مصالح کی دیکھ بھال نہیں کر سکتے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر رحم اور لطف و کرم کرتے ہوئے اپنے بندوں کو ان کے بارے میں وصیت کی ہے۔ ﴿ وَالْ٘مَسٰكِیْنِ ﴾ مساکین سے مراد حاجت مند اور ضرورت مند لوگ ہیں جنھیں ضرورتوں اور حاجتوں نے غریب و مسکین بنا دیا ہو۔ ان کی ضروریات زندگی پوری کرنے اور انھیں ضروریات سے بے نیاز کرنے کے لیے ان پر خرچ کیا جائے۔ ﴿ وَابْنِ السَّبِیْلِ ﴾ اس سے مراد وہ مسافر اور اجنبی شخص ہے جو زاد سفر ختم ہو جانے کی وجہ سے دیار غیر میں پھنس کر رہ گیا ہو۔ اس پر خرچ کر کے اس کے سفر میں اس کے ساتھ تعاون کیا جائے تاکہ وہ اپنی منزل مقصود پر پہنچ جائے۔ اللہ تعالیٰ نے ضرورت مندوں کی ان تمام اصناف کو خاص طور پر ذکر کرنے کے بعد اس حکم کو عام کر دیا اور فرمایا ﴿ وَمَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ ﴾ ’’اور جو بھلائی تم کروگے۔‘‘ یعنی مذکورہ بالا اور دیگر لوگوں پر تم جو کچھ خرچ کرتے ہو بلکہ نیکی اور تقرب الٰہی کا جو کام بھی کرتے ہو، اس میں سب شامل ہیں کیونکہ یہ تمام کام ’’خیر‘‘ یعنی بھلائی کے تحت آتے ہیں ﴿ فَاِنَّ اللّٰهَ بِهٖ عَلِیْمٌ ﴾ ’’اللہ (بھلائی کے) ان تمام کاموں کو جانتا ہے‘‘ پس وہ تمھیں ان کا بدلہ عطا کرے گا اور اس کو وہ تمھارے لیے محفوظ رکھتا ہے، ہرشخص کو اس کی نیت، اخلاص، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی قلت یا کثرت، ضرورت مندوں کی ضرورت کی شدت، اس خرچ کی وقعت اور فائدے کے مطابق جزا ملے گی۔
Vocabulary
AyatSummary
[215
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List