Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
2
SuraName
تفسیر سورۂ بقرۃ
SegmentID
107
SegmentHeader
AyatText
{212} يخبر تعالى أن الذين كفروا بالله وبآياته ورسله، ولم ينقادوا لشرعه أنهم زينت لهم الحياة الدنيا، فزينت في أعينهم وقلوبهم، فرضوا بها، واطمأنوا بها، فصارت أهواؤهم وإراداتهم وأعمالهم كلها لها، فأقبلوا عليها، وأكبوا على تحصيلها، وعظموها، وعظموا من شاركهم في صنيعهم، واحتقروا المؤمنين، واستهزؤوا بهم، وقالوا: أهؤلاء منَّ الله عليهم من بيننا، وهذا من ضعف عقولهم ونظرهم القاصر، فإن الدنيا دار ابتلاء وامتحان، وسيحصل الشقاء فيها لأهل الإيمان والكفران، بل المؤمن في الدنيا وإن ناله مكروه فإنه يصبر ويحتسب، فيخفف الله عنه بإيمانه وصبره ما لا يكون لغيره، وإنما الشأن كلُّ الشأن والتفضيل الحقيقي في الدار الباقية، فلهذا قال تعالى: {والذين اتقوا فوقهم يوم القيامة}؛ فيكون المتقون في أعلى الدرجات متمتعين بأنواع النعيم والسرور والبهجة والحبور، والكفار تحتهم في أسفل الدركات، معذبين بأنواع العذاب والإهانة والشقاء السرمدي الذي لا منتهى له، ففي هذه الآية تسلية للمؤمنين، ونعي على الكافرين، ولما كانت الأرزاق الدنيوية والأخروية لا تحصل إلا بتقدير الله، ولن تنال إلا بمشيئة الله قال تعالى: {والله يرزق من يشاء بغير حساب}؛ فالرزق الدنيوي يحصل للمؤمن والكافر، وأما رزق القلوب من العلم والإيمان ومحبة الله وخشيته ورجائه ونحو ذلك فلا يعطيها إلا من يحبه.
AyatMeaning
[212] اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو لوگ اللہ تعالیٰ ، اس کی آیات اور اس کے رسولوں کا انکار کرتے ہیں اور اس کی شریعت کے مطابق زندگی بسر نہیں کرتے اللہ تعالیٰ ان کے سامنے دنیاوی زندگی کو مزین اور آراستہ کر دیتا ہے۔ دنیا کی یہ زندگی ان کے دلوں میں اور ان کی آنکھوں کے سامنے خوشنما بنا دی جاتی ہے، پس وہ اس دنیا میں مگن اور اس پر مطمئن ہو جاتے ہیں تو ان کی خواہشات، ان کے ارادے اور ان کا عمل سب دنیا کے لیے ہو جاتے ہیں۔ وہ دنیا کی طرف بھاگتے ہیں، اسی کے حصول میں ہمہ تن مشغول رہتے ہیں، وہ اس دنیا اور اپنے جیسے دنیا داروں کی تعظیم کرتے ہیں اور اہل ایمان سے نہایت حقارت سے پیش آتے ہیں اور ان کا تمسخر اڑاتے ہیں اور کہتے ہیں ’’کیا یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ تعالیٰ نے احسان فرمایا؟‘‘ یہ ان کی کم عقلی اور کم نظری ہے کیونکہ یہ دنیا آزمائش اور امتحان کا گھر ہے اس دنیا میں اہل ایمان اور اہل کفر ان سب کو آزمائش کی یہ سختیاں برداشت کرنی پڑتی ہیں، بلکہ اس دنیا کے اندر مومن کو اگر کوئی تکلیف پہنچتی ہے اور وہ اس پر صبر کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے ایمان اور صبر کی بنا پر اس کی تکلیف میں تخفیف کر دیتا ہے کسی اور کے لیے یہ تخفیف نہیں ہوتی، اس لیے تمام معاملہ اور تمام تر فضیلت وہ ہے جو آخرت میں عطا ہو۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿ وَالَّذِیْنَ اتَّقَوْا فَوْقَهُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ ﴾ ’’اور پرہیز گار ان سے بلند ہوں گے قیامت کے دن‘‘ پس اہل تقویٰ قیامت کے روز بلند ترین درجات پر فائز ہوں گے اور اللہ تعالیٰ کی انواع و اقسام کی نعمتوں، مسرتوں، تروتازگی اور خوبصورتی سے لطف اندوز ہوں گے اور کفار ان کے نیچے جہنم کی اتھاہ گہرائیوں میں مختلف قسم کے عذاب، ابدی اہانت اور بدبختی میں مبتلا رہیں گے جس کی کوئی انتہا نہ ہو گی۔ پس اس آیت کریمہ میں اہل ایمان کے لیے تسلی اور کفار کے لیے ان کے برے انجام کی اطلاع ہے۔ چونکہ دنیاوی اور اخروی رزق صرف اللہ تعالیٰ کی تقدیر اور اس کی مشیت ہی سے حاصل ہوتے ہیں اس لیے فرمایا: ﴿ وَاللّٰهُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآءُ بِغَیْرِ حِسَابٍ﴾ ’’اور اللہ رزق دیتا ہے جسے چاہتا ہے، بغیر حساب کے‘‘ پس دنیاوی رزق تو مومن اور کافر سب کو عطا ہوتا ہے۔ رہا علم و ایمان، محبت الٰہی ، اللہ کا ڈر اور اس پر امید تو یہ دلوں کا رزق ہے جو اللہ تعالیٰ صرف اسے عطا کرتا ہے جس سے وہ محبت کرتا ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[212
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List