Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
2
SuraName
تفسیر سورۂ بقرۃ
SegmentID
93
SegmentHeader
AyatText
{188} أي: ولا تأخذوا أموالكم أي أموال غيركم، أضافه إليهم لأنه ينبغي للمسلم أن يحب لأخيه ما يحب لنفسه، ويحترم ماله كما يحترم ماله، ولأن أكله لمال غيره يجرئ غيره على أكل ماله عند القدرة، ولما كان أكلها نوعين: نوعاً بحقٍّ ونوعاً بباطل، وكان المحرم إنما هو أكلها بالباطل قيده تعالى بذلك، ويدخل بذلك أكلها على وجه الغصب والسرقة والخيانة في وديعة أو عارية أو نحو ذلك، ويدخل فيه أيضاً أخذها على وجه المعاوضة بمعاوضة محرمة، كعقود الربا والقمار كلها فإنها من أكل المال بالباطل، لأنه ليس في مقابلة عوض مباح، ويدخل في ذلك أخذها بسبب غش في البيع والشراء والإجارة ونحوها، ويدخل في ذلك استعمال الأجراء وأكل أجرتهم، وكذلك أخذهم أجرة على عمل لم يقوموا بواجبه، ويدخل في ذلك أخذ الأجرة على العبادات والقربات التي لا تصح حتى يقصد بها وجه الله تعالى، ويدخل في ذلك الأخذ من الزكوات والصدقات والأوقاف والوصايا، لمن ليس له حق منها أو فوق حقه، فكل هذا ونحوه من أكل المال بالباطل، فلا يحل ذلك بوجه من الوجوه حتى ولو حصل فيه النزاع والارتفاع إلى حاكم الشرع، وأدلى من يريد أكلها بالباطل بحجة غلبت حجة المحق، وحكم له الحاكم بذلك، فإن حكم الحاكم لا يبيح محرماً ولا يحلل حراماً، إنما يحكم على نحو مما يسمع، وإلا فحقائق الأمور باقية، فليس في حكم الحاكم للمبطل راحة ولا شبهة ولا استراحة، فمن أدلى إلى الحاكم بحجة باطلة، وحكم له بذلك فإنه لا يحل له، ويكون آكلاً لمال غيره بالباطل والإثم، وهو عالم بذلك فيكون أبلغ في عقوبته وأشد في نكاله. وعلى هذا؛ فالوكيل إذا علم أن موكله مبطل في دعواه لم يحل له أن يخاصم عن الخائن كما قال تعالى: {ولا تكن للخائنين خصيماً}.
AyatMeaning
[188] ﴿ وَلَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ بَیْنَكُمْ بِالْبَاطِلِ ﴾’’اور اپنے مال آپس میں باطل طریقے سے مت کھاؤ‘‘ کھانے سے مراد لینا ہے اور اپنے مال سے مراد دوسرے لوگوں کا مال ہے۔ دوسروں کے مال کو اپنا مال اس لیے کہا کہ مسلمان کے شایاں یہی ہے کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہی کچھ پسند کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے اور اپنے بھائی کے مال کا اسی طرح احترام کرے جس طرح وہ اپنے مال کا احترام کرتا ہے۔ دوسرے کے مال کو اپنا مال کہنے کی دوسری وجہ یہ ہے کہ یہ دوسرے کا مال کھائے گا تو دوسرا شخص بھی جب اس کو قدرت حاصل ہو گی، تو اس کا مال کھانے کی جسارت کرے گا (اس لیے کسی دوسرے کا مال کھانا ایسا ہی ہے جیسے وہ اپنا مال کھا رہا ہے۔) چونکہ مال کھانے کی دو قسمیں ہیں: (۱) حق کے ساتھ مال کھانا۔ (۲) اور باطل طریقے سے مال کھانا، اور حرام صرف باطل طریقے سے مال کھانا ہے اس لیے یہاں اس کو ’’باطل‘‘ سے مقید کیا ہے اور اس میں غصب کر کے، چوری کر کے، امانت میں خیانت کر کے اور ادھار لی ہوئی چیز کا انکار کر کے مال کھانا، سب شامل ہے، نیز اس میں وہ معاوضہ بھی شامل ہے جو حرام ہے، جیسے سودی لین دین اور ہر قسم کے جوئے سے حاصل شدہ مال، کیونکہ یہ مال کسی جائز معاوضے کے طور پر حاصل نہیں ہوا۔ باطل طریقے سے مال کھانے میں خرید و فروخت اور اجارہ میں دھوکہ اور ملاوٹ کے ذریعے سے حاصل کیا ہوا مال بھی شامل ہے۔ مزدوروں سے کام لینا اور پھر ان کی اجرت کھا جانا بھی باطل طریقے سے مال کھانا ہے۔ اسی طرح ان مزدوروں کا کسی کام کی اجرت لینا اور اس کے عوض پورا کام نہ کرنا بھی حرام کھانا اور باطل ہے۔ ان عبادات اور تقرب الٰہی کے کاموں پر اجرت لینا جو اس وقت تک صحیح نہیں ہوتیں جب تک ان میں صرف رضائے الٰہی مقصود نہ ہو، باطل طریقے ہی سے مال کھانے میں داخل ہے۔ اس حرام کھانے میں ان لوگوں کا زکٰوۃ ، صدقات، اوقاف اور وصیتوں کا مال کھانا بھی داخل ہے جو اس مال کے مستحق نہیں۔ یا وہ مستحق تو تھے مگر اپنے حق سے زیادہ مال وصول کیا۔ (مال کھانے کی) مذکورہ بالا اور ان جیسی دیگر تمام اقسام باطل طریقے سے مال کھانے کے زمرے میں داخل ہیں۔ جس کا کھانا کسی بھی پہلو سے جائز نہیں۔ حتی کہ اگر اس میں نزاع واقع ہو جائے اور جھگڑا شرعی عدالت میں چلا جائے اور وہ فریق جو باطل طریقے سے مال کھانا چاہتا ہے کوئی ایسی دلیل پیش کرتا ہے جو اصلی حق دار کی دلیل پر غالب آ جاتی ہے اور حاکم اس دلیل کی بنیاد پر اس کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہے (تو عدالتی فیصلے کے باوجود یہ مال حرام اور باطل ہی رہے گا)، اس لیے کہ کسی حاکم کا فیصلہ کسی حرام کو حلال اور حلال کو حرام نہیں کر سکتا، کیونکہ حاکم تو صرف پیش کردہ دلائل سن کر فیصلہ کرتا ہے ورنہ معاملات کے اصل حقائق تو اپنی جگہ موجود رہتے ہیں، اس لیے باطل طریقے سے مال ہڑپ کرنے والے کے لیے حاکم کے فیصلے میں کوئی خوشی اور اس مال کے باطل ہونے میں کوئی شبہ اور اس کے لیے کوئی راحت نہیں۔ بنابریں جو کوئی جھوٹے ثبوت کے ساتھ کوئی جھوٹا مقدمہ حاکم کی عدالت میں دائر کرتا ہے اور حاکم اس ثبوت کی بنیاد پر اس کے حق میں فیصلہ کر دیتا ہے تو یہ مال اس شخص کے لیے جائز نہیں اور وہ غیر کے مال کو جانتے بوجھتے باطل اور گناہ کے طریقے سے کھانے کا مرتکب ہو گا، اس لیے وہ سخت ترین سزا اور عقوبت کا مستحق ہے۔ اسی بنا پر جب وکیل کو یہ معلوم ہو جائے کہ اس کا موکل اپنے دعوے میں جھوٹا ہے تو اس کے لیے اس خائن کی وکالت کرنا جائز نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: ﴿ وَلَا تَكُ٘نْ لِّلْخَآىِٕنِیْنَ خَصِیْمًا﴾ (النساء:4؍105) ’’اور خیانت کرنے والوں کی حمایت میں کبھی جھگڑا نہ کرنا۔‘‘
Vocabulary
AyatSummary
[188
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List