Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 18
- SuraName
- تفسیر سورۂ کہف
- SegmentID
- 863
- SegmentHeader
- AyatText
- {44} {هنالك الوَلايةُ لله الحقِّ هو خيرٌ ثواباً وخيرٌ عقباً}؛ أي: في تلك الحال التي أجرى الله فيها العقوبة على من طغى وآثر الحياة الدُّنيا، والكرامة لمن آمن وعمل صالحاً وشكر الله ودعا غيره لذلك؛ تبيَّن وتوضَّح أن الولاية الحق لله وحده ؛ فمن كان مؤمناً به تقيًّا؛ كان له وليًّا، فأكرمه بأنواع الكرامات، ودَفَعَ عنه الشرور والمَثُلات ـ ومن لم يؤمنْ بربِّه ويتولاَّه؛ خَسِرَ دينه ودُنياه ـ فثوابُهُ الدنيويُّ والأخرويُّ خيرُ ثواب يُرجى ويؤمَّل. ففي هذه القصة العظيمة اعتبارٌ بحال الذي أنعم الله عليه نعماً دنيويَّة، فألهتْه عن آخرته، وأطغتْه، وعصى الله فيها، أنَّ مآلها الانقطاع والاضمحلال، وأنَّه وإنْ تمتَّع بها قليلاً؛ فإنَّه يحرمها طويلاً، وأنَّ العبد ينبغي له إذا أعجبه شيءٌ من مالِهِ أو ولدِهِ أن يضيفَ النعمة إلى موليها ومُسْديها، وأن يقولَ: ما شاء اللهُ، لا قوَّة إلاَّ بالله؛ ليكون شاكراً [لله] متسبِّباً لبقاء نعمته عليه؛ لقوله: {ولولا إذْ دخلتَ جنَّتَك قلتَ ما شاء اللهُ لا قوَّةَ إلاَّ بالله}. وفيها: الإرشاد إلى التسلِّي عن لذَّات الدُّنيا وشهواتها بما عند الله من الخير؛ لقوله: {إنْ تَرَنِ أنا أقلَّ منك مالاً وولَداً فعسى ربِّي أن يُؤْتِيَني خيراً من جنَّتك}. وفيها: أنَّ المال والولد لا ينفعانِ إنْ لم يُعينا على طاعة الله؛ كما قال تعالى: {وما أموالكم ولا أولادُكم بالتي تُقَرِّبُكم عندنا زُلفى إلاَّ مَنْ آمنَ وعملَ صالحاً}. وفيه: الدُّعاء بِتَلَفِ مال مَنْ كان مالُهُ سببَ طغيانِهِ وكفره وخسرانِهِ، خصوصاً إنْ فضَّل نفسه بسببهِ على المؤمنين، وفَخَرَ عليهم. وفيها: أنَّ ولاية الله وعدمها إنما تتَّضح نتيجتها إذا انجلى الغبار وحقَّ الجزاء، ووجد العاملونَ أجرهم؛ فـ {هنالِكَ الوَلاية لله الحقِّ هو خيرٌ ثواباً وخيرٌ عُقْباً}؛ أي: عاقبةً ومآلاً.
- AyatMeaning
- [44] ﴿ هُنَالِكَ الْوَلَایَةُ لِلّٰهِ الْحَقِّ١ؕ هُوَ خَیْرٌ ثَوَابًا وَّخَیْرٌ عُقْبًا ﴾ ’’وہاں سب اختیار اللہ برحق کا ہے، اسی کا انعام بہتر ہے اور اسی کا دیا ہوا بدلہ اچھا ہے‘‘ یعنی اس حال میں جس میں اللہ تعالیٰ اس شخص کو سزا دینے کا حکم جاری کرتا ہے جس نے سرکشی اختیار کی اور دنیاوی زندگی کو ترجیح دی۔ اور عزت وتکریم اس شخص کے لیے جس نے ایمان لا کر نیک عمل كيے، اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتا رہا اور دوسروں کو اس کی طرف دعوت دیتا رہا۔ اس بنا پر واضح ہو گیا کہ حقیقی ولایت کا مالک صرف اکیلا اللہ تعالیٰ ہے۔ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ پر ایمان لا کر تقویٰ اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کا ولی اور دوست ہے، وہ اسے مختلف اقسام کی کرامات کے ذریعے سے تکریم بخشتا ہے اور اس کو شر اورتمام آفتوں سے بچاتا ہے۔ جو اپنے رب پر ایمان نہیں رکھتا اور نہ اسے اپنا والی اور سرپرست بناتا ہے، وہ دین و دنیا میں خسارہ اٹھاتا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کا عطا کردہ دنیاوی اور اخروی ثواب بہترین ثواب ہے جس پر امیدوں کو مرتکز ہونا چاہیے۔ اس عظیم قصے میں اس شخص کے حال میں جس کو اللہ تعالیٰ نے دنیاوی نعمتیں عنایت کیں مگر ان نعمتوں نے اسے آخرت سے غافل کر کے سرکش بنا دیا اور وہ ان میں مگن ہو کر اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرنے لگا، لوگوں کے لیے عبرت ہے کہ ان نعمتوں کا انجام زوال اور اضمحلال ہے اگر بندہ ان نعمتوں سے تھوڑا فائدہ اٹھاتا ہے تو طویل عرصے تک محرومی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور بندۂ مومن کے لیے مناسب یہی ہے کہ جب اسے اپنے مال اور اولاد میں سے کچھ اچھا لگے تو وہ اس نعمت کو نعمت عطا کرنے والے کی طرف منسوب کرے اور یہ کہے: ﴿ مَا شَآءَ اللّٰهُ١ۙ لَا قُوَّةَ اِلَّا بِاللّٰهِ ﴾ تاکہ وہ شکر گزار بنے اور اللہ تعالیٰ کی نعمت کی بقا کے لیے سبب بننے والا بنے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿ وَلَوْلَاۤ اِذْ دَخَلْتَ جَنَّتَكَ قُلْتَ مَا شَآءَ اللّٰهُ١ۙ لَا قُ٘وَّ٘ةَ اِلَّا بِاللّٰهِ ﴾ ’’کیوں نہ، جب تو داخل ہوا اپنے باغ میں ، کہا تو نے، جو چاہے اللہ سو وہ ہو۔ طاقت نہیں مگر جو دے اللہ۔‘‘ ان آیات کریمہ میں لذات دنیا اور اس کی شہوات کے بدلے میں ان بہتر چیزوں کے ذریعے تسلی کی طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے پاس ہیں ۔ فرمایا: ﴿اِنْ تَرَنِ اَنَا اَقَلَّ مِنْكَ مَالًا وَّوَلَدًاۚ۰۰فَعَسٰؔى رَبِّیْۤ اَنْ یُّؤْتِیَنِ خَیْرًا مِّنْ جَنَّتِكَ ﴾ ان آیات کریمہ سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ مال اور اولاد اگر اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مددگار نہ بنیں تو وہ کوئی فائدہ نہیں دیتے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے: ﴿ وَمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَلَاۤ اَوْلَادُؔكُمْ بِالَّتِیْ تُقَرِّبُكُمْ عِنْدَنَا زُلْ٘فٰۤى اِلَّا مَنْ اٰمَنَ وَعَمِلَ صَالِحًا ﴾ (سبا: 34؍37) ’’تمھارا مال اور تمھاری اولاد نہیں، جو تمھیں ہم سے قریب کرتی ہو مگر وہی قریب ہوتا ہے جو ایمان لائے اور نیک کام کرے۔‘‘ اس سے یہ بھی مستفاد ہوتا ہے کہ جس شخص کا مال اس کی سرکشی، کفر اور اس کے لیے اخروی خسارے کا سبب ہو اس مال کے تلف ہونے کی دعا کرنا جائز ہے۔ خاص طور پر جبکہ وہ اس مال کی بنا پر اپنے آپ کو اہل ایمان سے افضل سمجھتا ہو اور ان پر فخر کا اظہار کرتا ہو۔ ان آیات کریمہ سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ولایت اور عدم ولایت، اس وقت ظاہر ہو گی جب غبار چھٹ جائے گا، جزا و سزا ثابت ہو گی اور عمل کرنے والے اپنا اجر پا لیں گے: ﴿ هُنَالِكَ الْوَلَایَةُ لِلّٰهِ الْحَقِّ١ؕ هُوَ خَیْرٌ ثَوَابًا وَّخَیْرٌ عُقْبًا ﴾ ’’اس وقت معلوم ہو گا کہ کار سازی تو اللہ برحق کے اختیار میں ہے، اسی کا انعام بہتر ہے اور اسی کا دیا ہوا بدلہ اچھا ہے۔‘‘
- Vocabulary
- AyatSummary
- [44]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF