Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 16
- SuraName
- تفسیر سورۂ نحل
- SegmentID
- 782
- SegmentHeader
- AyatText
- {90} فالعدل الذي أمر الله به يشملُ العدلَ في حقِّه وفي حقِّ عباده؛ فالعدلُ في ذلك أداءُ الحقوق كاملةً موفورةً؛ بأن يؤدِّيَ العبد ما أوجب الله عليه من الحقوق الماليَّة والبدنيَّة والمركَّبة منهما في حقِّه وحقِّ عباده، ويعامل الخلق بالعدل التامِّ، فيؤدِّي كلُّ والٍ ما عليه تحت ولايتِهِ، سواء في ذلك ولاية الإمامة الكبرى وولاية القضاء ونواب الخليفة ونواب القاضي. والعدل: هو ما فَرَضَه الله عليهم في كتابه وعلى لسان رسوله وأمرهم بسلوكه، ومن العدل في المعاملات أن تعامِلَهم في عقود البيع والشراء وسائر المعاوضات بإيفاء جميع ما عليك؛ فلا تبخسُ لهم حقًّا، ولا تغشُّهم ولا تخدعُهم وتظلِمُهم؛ فالعدل واجبٌ، والإحسان فضيلةٌ مستحبٌّ، وذلك كنفع الناس بالمال والبدن والعلم وغير ذلك من أنواع النفع، حتى يدخلَ فيه الإحسان إلى الحيوان البهيم المأكول وغيره، وخصَّ الله إيتاء ذي القُربى وإن كان داخلاً في العموم؛ لتأكُّد حقِّهم وتعيُّن صلتهم وبرِّهم والحرص على ذلك، ويدخل في ذلك جميع الأقارب؛ قريبهم وبعيدهم، لكن كلُّ مَن كان أقربَ كان أحقَّ بالبرِّ. وقوله: {وينهى عن الفحشاءِ}: وهو كلُّ ذنبٍ عظيم استفحشته الشرائعُ والفِطَر؛ كالشركِ بالله والقتل بغير حقٍّ والزِّنا والسرقة والعُجب والكِبْر واحتقار الخلق وغير ذلك من الفواحش، ويدخل في المنكر كلُّ ذنبٍ ومعصيةٍ متعلِّق بحقِّ الله تعالى، وبالبغي كلُّ عدوان على الخلق في الدِّماء والأموال والأعراض. فصارت هذه الآية جامعةً لجميع المأمورات والمنهيَّات، لم يبقَ شيءٌ إلاَّ دخل فيها. فهذه قاعدةٌ ترجع إليها سائر الجزئيَّات؛ فكلُّ مسألة مشتملة على عدل أو إحسان أو إيتاء ذي القربى؛ فهي مما أمر الله به، وكلُّ مسألةٍ مشتملة على فحشاء أو منكَر أو بغي؛ فهي مما نهى الله عنه، وبها يُعْلَمُ حُسنُ ما أمر الله به وقُبح ما نهى عنه، وبها يُعتبر ما عند الناس من الأقوال، وتردُّ إليها سائر الأحوال؛ فتبارَكَ مَن جعل في كلامِهِ الهدى والشفاء والنور والفرقان بين جميع الأشياء، ولهذا قال: {يعظِكُم}؛ به، أي: بما بيَّنه لكم في كتابه بأمركم بما فيه غاية صلاحكم ونهيكم عما فيه مضرَّتكم. {لعلَّكم تذكَّرون}: ما يعظِكُم به فتفهمونه وتعقِلونه؛ فإنَّكم إذا تذكَّرتموه وعقلتموه؛ عملتم بمقتضاه، فسعدتُم سعادةً لا شقاوة معها.
- AyatMeaning
- [90] اس آیت کریمہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے جس عدل کا حکم دیا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے حقوق کے بارے میں عدل اور بندوں کے حقوق کے بارے میں عدل کو شامل ہے۔ عدل یہ ہے کہ تمام حقوق کو پوری طرح ادا کیا جائے۔ بندہ مالی، بدنی اور ان دونوں پر مبنی حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرے جو اللہ تعالیٰ نے اس پر واجب کیے ہیں ۔ مخلوق کے ساتھ کامل انصاف پر مبنی معاملہ کیا جائے۔ پس ہر ولی اپنی ولایت کے تحت آنے والے ہر معاملے میں عدل و انصاف سے کام لے، خواہ یہ ولایت امامت کبریٰ (خلافت و امارت) یا ولایت قضا یا خلیفہ کی نیابت یا قاضی کی نیابت ہو، اس معاملے میں سب برابر ہیں ۔ عدل وہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب اور اپنے رسول (e) کے توسط سے اہل ایمان پر فرض کیا ہے اور عدل کے راستے پر گامزن رہنے کا حکم دیا ہے۔ معاملات میں عدل یہ ہے کہ خرید و فروخت اور تمام معاوضات میں آپ لوگوں کے ساتھ اس طرح معاملہ کریں کہ آپ کے ذمہ جو کچھ ہے اسے پوری طرح ادا کریں ۔ آپ ان کے حق میں کمی کریں نہ دھوکہ دیں نہ ان کے ساتھ فریب کاری کریں اور نہ ان پر ظلم کریں ۔ عدل کرنا فرض ہے، احسان سے پیش آنا فضیلت اور مستحب ہے، مثلاً:لوگوں کو مال، بدن، علم اور دیگر مختلف قسم کی منفعتوں کے ذریعے سے فائدہ پہنچانا حتیٰ کہ اس جانور کے ساتھ احسان کرنا بھی اس میں داخل ہے جس کا گوشت کھایا جاتا ہے یا نہیں کھایا جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے قرابت داروں کو عطا کرنے کا خاص طور پر ذکر کیا ہے… اگرچہ وہ (احسان کرنے کے) عمومی حکم میں داخل ہیں … کیونکہ ان کا حق موکد، ان کے ساتھ صلہ رحمی اور نیکی متعین ہے اور صلہ رحمی کی ترغیب دی گئی ہے۔ اس حکم میں ، قریب اور دور کے تمام رشتہ دار داخل ہیں مگر جو رشتہ میں زیادہ قریب ہے وہ صلہ رحمی اور حسن سلوک کا زیادہ مستحق ہے۔ ﴿ وَیَنْ٘هٰى عَنِ الْفَحْشَآءِ ﴾ ’’اور وہ فحشاء سے منع کرتا ہے‘‘ (الفحشاء) ہر اس بڑے گناہ کو کہتے ہیں جس کو شریعت اور فطرت سلیم برا سمجھتی ہو، مثلاً:شرک، قتل ناحق، زنا، چوری، خودپسندی، تکبر اور اللہ کی مخلوق کے ساتھ حقارت سے پیش آنا وغیرہ۔ (المنکر) میں ہر وہ گناہ اور معصیت داخل ہے جس کا تعلق حقوق اللہ کے ساتھ ہو۔ (البغی) سے مراد ہے لوگوں کے جان، مال اور ناموس پر ظلم و زیادتی کا ارتکاب کرنا… اس طرح یہ آیت کریمہ تمام مامورات و منہیات کی جامع ہے کوئی چیز ایسی نہیں جو اس میں داخل نہ ہو۔ یہ ایک اصول ہے جس کی طرف تمام جزئیات لوٹتی ہیں۔ پس ہر مسئلہ جو عدل، احسان یا قرابت داروں کو عطا کرنے پر مشتمل ہے تو وہ ان چیزوں میں سے ہے جن کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے اور وہ مسئلہ جو فواحش، منکرات یا ظلم اور زیادتی پر مشتمل ہے تو وہ ان چیزوں میں سے ہے جن سے اللہ تعالیٰ نے روکا ہے اور اسی سے اللہ تعالیٰ کے اوامر و نواہی کے حسن و قبح کی معرفت حاصل ہوتی ہے، اسی کے ذریعے سے لوگوں کے اقوال کو جانچا جاتا ہے اور اسی کی طرف تمام احوال لوٹتے ہیں ۔ نہایت ہی بابرکت ہے وہ ذات جس نے اپنے کلام کو ہدایت، شفا، روشنی اور تمام اشیاء کو پرکھنے کے لیے فرقان بنایا۔ اسی لیے فرمایا: ﴿یَعِظُكُمْ ﴾ ’’وہ تمھیں نصیحت کرتا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ ان امور کے ذریعے سے تمھیں نصیحت کرتا ہے جن کو اس نے تمھارے لیے اپنی کتاب میں واضح فرمایا۔ وہ تمھیں اس چیز کا حکم دیتا ہے جس میں تمھاری بھلائی ہے اور اس چیز سے روکتا ہے جو تمھارے لیے ضرر رساں ہے۔ ﴿ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّـرُوْنَ ﴾ ’’تاکہ تم نصیحت پکڑو‘‘ جس چیز کی تمھیں نصیحت کی گئی ہے۔ پس تم اس کو سمجھو کیونکہ جب تم اس سے نصیحت حاصل کر کے اس کو سمجھ لو گے تب تم اس کے تقاضے کے مطابق عمل کرو گے اور تم ایسی سعادت سے فیض یاب ہو گے جس کے اندر شقاوت کا شائبہ نہیں ہوتا۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [90]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF