Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
16
SuraName
تفسیر سورۂ نحل
SegmentID
747
SegmentHeader
AyatText
{8} {والخيلَ والبغالَ والحميرَ}: سخَّرناها لكم؛ {لتَرْكَبوها وزينةً}؛ أي: تارة تستعملونها للضرورة في الركوب، وتارة لأجل الجمال والزينة، ولم يذكر الأكل؛ لأنَّ البغال والحمير محرَّم أكلها، والخيل لا تستعمل في الغالب للأكل، بل يُنهى عن ذبحها لأجل الأكل خوفاً من انقطاعها، وإلاَّ؛ فقد ثبت في «الصحيحين» أنَّ النبيَّ - صلى الله عليه وسلم - أذن في لحوم الخيل. {ويخلق ما لا تعلمونَ}: مما يكون بعد نزول القرآن من الأشياء التي يركبها الخلقُ في البَرِّ والبحرِ والجوِّ ويستعملونها في منافعهم ومصالحهم؛ فإنَّه لم يذكُرْها بأعيانها؛ لأنَّ الله تعالى لم يذكر في كتابه إلا ما يعرفُهُ العباد أو يعرفون نظيرَه، وأمَّا ما ليس له نظيرٌ؛ فإنَّه لو ذُكِرَ؛ لم يعرِفوه ولم يفهموا المراد منه، فيَذْكُرُ أصلاً جامعاً يدخُلُ فيه ما يعلمون وما لا يعلمون؛ كما ذكر نعيم الجنة، وسمَّى منه ما نعلم ونشاهد نظيره؛ كالنخل والأعناب، والرمَّان وأجمل ما لا نعرف له نظيراً في قوله: {فيهما من كلِّ فاكهةٍ زوجانِ}؛ فكذلك هنا ذكر ما نعرفه من المراكب؛ كالخيل والبغال والحمير والإبل والسفن، وأجمل الباقي في قوله: {ويَخْلُقُ ما لا تعلمون}.
AyatMeaning
[8] ﴿ وَّالْخَیْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِیْرَ﴾ ’’اور گھوڑے، خچر اور گدھے‘‘ یعنی ہم نے ان تمام چوپایوں کو تمھارے قابو میں دے دیا ﴿ لِـتَرْؔكَبُوْهَا وَزِیْنَةً﴾ ’’تاکہ تم ان پر سوار ہو اور زینت کے لیے‘‘ یعنی کبھی تو تم انھیں سواری کی ضرورت کے لیے استعمال کرتے ہو اور کبھی خوبصورتی اور زینت کی خاطر تم انھیں پالتے ہو۔ یہاں ان کو کھانے کا ذکر نہیں کیا کیونکہ خچر اور گدھے کا گوشت حرام ہے۔ گھوڑوں کو بھی غالب طور پر کھانے کے لیے استعمال نہیں کیا جاتا بلکہ اس کے برعکس اس کو کھانے کی غرض سے ذبح کرنے سے منع کیا گیا ہے، اس ڈر سے کہ کہیں ان کی نسل منقطع نہ ہو جائے۔ ورنہ صحیحین میں حدیث سے ثابت ہے کہ رسول اللہe نے گھوڑے کا گوشت کھانے کی اجازت دی ہے۔ ﴿ وَیَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَؔ﴾ ’’اور پیدا کرتا ہے جو تم نہیں جانتے‘‘ نزول قرآن کے بعد بہت سی ایسی چیزیں وجود میں آئیں جن پر انسان بحروبر اور فضا میں سواری کرتے ہیں اور جنھیں وہ اپنے فوائد اور مصالح کے لیے اپنے کام میں لاتے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کے اعیان کے ساتھ ان کا ذکر نہیں کیا کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں صرف ایسی ہی چیزوں کا ذکر فرماتا ہے جن کو اس کے بندے جانتے ہوں یا جن کی نظیر کو وہ جانتے ہوں اور جس کی نظیر ان کے زمانے میں دنیا میں موجود نہ ہو اور اللہ تعالیٰ اس کا تذکرہ کرتا تو لوگ اس چیز کو نہ پہچان سکتے اور یہ نہ سمجھ سکتے کہ اس سے کیا مراد ہے؟ لہٰذا اللہ تعالیٰ صرف جامع اصول ذکر فرماتا ہے جس میں وہ تمام چیزیں داخل ہیں جنھیں لوگ جانتے ہیں اور جنھیں لوگ نہیں جانتے۔ جیسے اللہ تبارک و تعالیٰ نے جنت کی نعمتوں کے بارے میں ان چیزوں کا نام لیا ہے جن کو ہم جانتے ہیں اور جن کی نظیر کا مشاہدہ کرتے ہیں ، مثلاً:کھجور، انگور اور انار وغیرہ اور جس کی کوئی نظیر ہم نہیں جانتے، اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس کا ذکر مجمل طور پر اپنے اس ارشاد میں کیا ہے۔ ﴿ فِیْهِمَا مِنْ كُ٘لِّ فَاكِهَةٍ زَوْجٰؔنِ﴾ (الرحمن:55؍52) ’’ان میں سب میوے دودو قسم کے ہوں گے۔‘‘ اسی طرح یہاں بھی صرف انھی سواریوں کا ذکر کیا گیا ہے جن سے ہم متعارف ہیں ، مثلاً:گھوڑے، خچر، گدھے، اونٹ اور بحری جہاز وغیرہ اور باقی کو اس نے اس قول ﴿ وَیَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُوْنَؔ﴾ میں مجمل رکھا۔
Vocabulary
AyatSummary
[8]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List