Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
8
SuraName
تفسیر سورۂ انفال
SegmentID
520
SegmentHeader
AyatText
{67} هذه معاتبة من الله لرسوله وللمؤمنين يوم بدر إذ أسروا المشركين وأبقوهم لأجل الفداء، وكان رأي أمير المؤمنين عمر بن الخطاب في هذه الحال قتلَهم واستئصالهم، فقال تعالى: {ما كان لنبيٍّ أن يكونَ له أسرى حتَّى يُثْخِنَ في الأرض}؛ أي: ما ينبغي ولا يليق به إذا قاتل الكفار الذين يريدون أن يطفئوا نور الله، ويسعَوْن لإخماد دينه وأن لا يبقى على وجه الأرض مَن يعبدُ الله أن يتسرَّع إلى أسرهم وإبقائهم لأجل الفداء الذي يحصُلُ منهم، وهو عَرَضٌ قليلٌ بالنسبة إلى المصلحة المقتضية لإبادتهم وإبطال شرِّهم؛ فما دام لهم شرٌّ وصولةٌ؛ فالأوفق أن لا يؤسروا؛ فإذا أُثخنوا، وبَطَلَ شرُّهم، واضمحلَّ أمرُهم؛ فحينئذٍ لا بأس بأخذ الأسرى منهم وإبقائهم. يقول تعالى: {تريدون}: بأخذكم الفداء وإبقائهم {عَرَضَ الحياة الدُّنيا}؛ أي: لا لمصلحة تعودُ إلى دينكم. {والله يريدُ الآخرة}: بإعزاز دينه ونصر أوليائه وجعل كلمتهم عاليةً فوق غيرهم، فيأمركم بما يوصل إلى ذلك. {والله عزيزٌ حكيمٌ}؛ أي: كامل العزة، لو شاء أن ينتصر من الكفار من دون قتال؛ لفعلَ، ولكنه حكيمٌ يبتلي بعضكم ببعض.
AyatMeaning
[67] یہ غزوہ بدر کے موقع پر اللہ تبارک و تعالیٰ کی طرف سے اپنے رسولe اور اہل ایمان پر عتاب ہے جب انھوں نے مشرکین کو جنگی قیدی بنایا اور ان سے معاوضہ لینے کے لیے اپنے پاس رکھا۔ امیر المومنین حضرت عمر بن خطابt کی رائے یہ تھی کہ ان سے مالی معاوضہ لینے کی بجائے، ان کو قتل کر کے ان کی جڑ کاٹ دی جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ﴿ مَا كَانَ لِنَبِیٍّ اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗۤ اَسْرٰى حَتّٰى یُثْ٘خِنَ فِی الْاَرْضِ﴾ ’’نبی کے شایاں نہیں کہ اس کے قبضے میں قیدی رہیں یہاں تک کہ (کافروں کو قتل کرکے) زمین میں کثرت سے خون نہ بہادے۔‘‘ یعنی نبی کے لیے یہ بات ہرگز مناسب نہیں کہ جب وہ کفار کے ساتھ جنگ کرے جو اللہ تعالیٰ کی روشنی کو بجھانا اور اس کے دین کو مٹانا چاہتے ہیں اور وہ یہ بھی خواہش رکھتے ہیں کہ روئے زمین پر کوئی ایسا شخص باقی نہ رہے جو اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا ہو .... تو محض فدیہ کی خاطر (کفار کو قتل کرنے کی بجائے) قیدی بنانا شروع کر دے۔ یہ فدیہ اس مصلحت کی نسبت سے بہت حقیر ہے جو ان کے قلع قمع اور ان کے شر کے ابطال کا تقاضا کرتی ہے جب تک ان میں شر اور حملہ کرنے کی قوت موجود ہے اس وقت تک بہتر یہی ہے کہ ان کو (قتل کرنے کی بجائے) جنگی قیدی نہ بنایا جائے۔ جب خونریزی کے بعد کفار کا قلع قمع اور مشرکین کے شر کا سدباب ہو جائے اور ان کا معاملہ کمزور پڑ جائے تب ان کو (میدان جنگ میں ) قیدی بنانے اور ان کی جان بخشی کرنے میں کوئی حرج نہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ تُرِیْدُوْنَ ﴾ ’’تم چاہتے ہو‘‘ یعنی تم ان کی جان بخشی کر کے اور اس کے عوض فدیہ لے کر ﴿ عَرَضَ الدُّنْیَا ﴾ ’’دنیاوی مال و متاع لینا‘‘یعنی تم کسی ایسی مصلحت کی خاطر ان کی جان بخشی نہیں کر رہے جو دین کی طرف راجع ہو۔ ﴿ وَاللّٰهُ یُرِیْدُ الْاٰخِرَةَ ﴾ ’’اور اللہ آخرت (کی بھلائی) چاہتا ہے۔‘‘ مگر اللہ تعالیٰ دین کو عزت سے نواز کر، اپنے اولیاء کی مدد کر کے اور دیگر قوموں پر انھیں غلبہ بخش کر تمھارے لیے آخرت کی بھلائی چاہتا ہے پس وہ تمھیں انھی امور کا حکم دیتا ہے جو اس منزل مراد پر پہنچاتے ہیں ۔ ﴿وَاللّٰهُ عَزِیْزٌ حَكِیْمٌ ﴾ ’’اور اللہ غالب حکمت والا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کامل غلبے کا مالک ہے اگر وہ کسی لڑائی کے بغیر کفار پر فتح دینا چاہے تو وہ ایسا کر سکتا ہے۔ مگر وہ حکمت والا ہے وہ تمھیں ایک دوسرے کے ذریعے سے آزماتا ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[67]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List