Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
8
SuraName
تفسیر سورۂ انفال
SegmentID
519
SegmentHeader
AyatText
{66} ثُمَّ إن هذا الحكم خففه الله على العباد، فقال: {الآن خفَّف الله عنكم وعلم أن فيكم ضعفاً}: فلذلك اقتضت رحمته وحكمته التخفيف. {فإن يكن منكم مائةٌ صابرةٌ يغلبوا مائتين وإن يكن منكم ألفٌ يغلبوا ألفين بإذن الله والله مع الصابرين}: بعونه وتأييده. وهذه الآيات صورتها صورة الإخبار عن المؤمنين بأنهم إذا بلغوا هذا المقدار المعيَّن يغلبون ذلك المقدار المعيَّن، في مقابلته من الكفار، وأن الله يمتنُّ عليهم بما جعل فيهم من الشجاعة الإيمانية، ولكنَّ معناها وحقيقتها الأمر، وأنَّ الله أمر المؤمنين في أول الأمر أن الواحد لا يجوز له أن يفرَّ من العشرة والعشرة من المائة والمائة من الألف، ثم إنَّ الله خفَّف ذلك، فصار لا يجوز فرار المسلمين من مثليهم من الكفار؛ فإن زادوا على مثليهم؛ جاز لهم الفرار. ولكن يرِدُ على هذا أمران: أحدهما: أنها بصورة الخبر، والأصل في الخبر أن يكون على بابه، وأنَّ المقصود بذلك الامتنان والإخبار بالواقع. والثاني: تقييدُ ذلك العدد أن يكونوا صابرين؛ بأن يكونوا متدرِّبين على الصبر، ومفهوم هذا أنَّهم إذا لم يكونوا صابرين؛ فإنه يجوز لهم الفرار، ولو أقل من مثليهم، إذا غَلَبَ على ظنِّهم الضرر؛ كما تقتضيه الحكمة الإلهية. ويجاب عن الأول بأنَّ قوله: {الآن خفَّف الله عنكم ... } إلى آخرها: دليلٌ على أن هذا الأمر لازمٌ وأمر محتَّم، ثم إن الله خفَّفه إلى ذلك العدد؛ فهذا ظاهرٌ في أنه أمر، وإن كان في صيغة الخبر، وقد يقال: إن في إتيانه بلفظ الخبر نكتةٌ بديعة لا توجد فيه إذا كان بلفظ الأمر، وهي تقوية قلوب المؤمنين، والبشارة بأنهم سيغلبون الكافرين. ويجاب عن الثاني: أن المقصود بتقييد ذلك بالصابرين أنه حثٌّ على الصبر، وأنه ينبغي منكم أن تفعلوا الأسباب الموجبة لذلك؛ فإذا فعلوها؛ صارت الأسباب الإيمانيَّة والأسباب الماديَّة مبشِّرة بحصول ما أخبر الله به من النصر لهذا العدد القليل.
AyatMeaning
[66] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لیے اس حکم میں تخفیف کر دی، چنانچہ فرمایا: ﴿ اَ٘لْ٘ـٰٔنَ خَفَّفَ اللّٰهُ عَنْكُمْ وَعَلِمَ اَنَّ فِیْكُمْ ضَعْفًا﴾ ’’اب بوجھ ہلکا کر دیا اللہ نے تم پر سے اور جان لیا کہ تم میں کمزوری ہے۔‘‘اسی لیے اللہ کی رحمت اور اس کی حکمت اس بات کی متقاضی ہوئی کہ اس حکم میں تخفیف کر دی جائے، چنانچہ اب اگر تم میں سے سو آدمی ثابت قدم رہنے والے ہوں تو وہ دو سو پر اور اگر ہزار ہوں تو وہ دو ہزار پر غالب ہوں گے۔ ﴿وَاللّٰهُ مَعَ الصّٰؔبِرِیْنَ ﴾ ’’اور اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اپنی مدد اور تائید کے ذریعے سے صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ ان آیات کریمہ کا اسلوب اگرچہ اہل ایمان کے بارے میں خبر کا ہے کہ جب وہ اس معینہ تعداد تک پہنچتے ہیں تو وہ مقابلے میں کفار کی مذکورہ تعداد پر غالب آجاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان پر اپنے اس احسان کا ذکر فرمایا کہ اس نے ان کو شجاعت ایمانی سے نوازا ہے۔ مگر اس کا معنی اور حقیقی منشا امر ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے اہل ایمان کو پہلے حکم دیا کہ ایک مومن کو (میدان جنگ میں ) دس کافروں کے مقابلے سے فرار نہیں ہونا چاہیے، اسی طرح دس مومنوں کو سو کافروں اور سو مومنوں کو ہزار کافروں کے مقابلے سے منہ نہیں موڑنا چاہیے۔ پھر اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے تخفیف فرما دی اور حکم دیا کہ وہ اپنے سے دوگنا کفار کے مقابلے سے فرار نہ ہوں ۔ اگر کفار کی تعداد دوگنا سے زیادہ ہو تو اس صورت میں کفار کے مقابلے سے بھاگنا جائز ہے۔ مگر دو امور اس کی تردید کرتے ہیں ۔ (۱) یہ حکم خبر کے اسلوب میں ہے اور خبر کا اصول یہ ہے کہ یہ اپنے باب کے مطابق استعمال ہوتی ہے اور اس سے مقصود اللہ تعالیٰ کے احسان کا ذکر اور امر واقع کی خبر دینا ہے۔ (۲) اس عدد مذکور کو صبر کی قید کے ساتھ مقید کیا گیا ہے یعنی انھوں نے صبر کو مشق کے ذریعے سے اپنی عادت بنا لیا ہو۔ اس کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ اگر وہ صابر نہ ہوں تو ان کے لیے فرار جائز ہے خواہ کافر ان سے کم ہی کیوں نہ ہوں ۔ یہ اس صورت میں ہے جب نقصان پہنچنے کا اندیشہ غالب ہو، جیسا کہ حکمت الہیہ کا تقاضا ہے۔ پہلے نکتے کا جواب یہ ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشاد ﴿ اَ٘لْ٘ـٰٔنَ خَفَّفَ اللّٰهُ عَنْكُمْ ﴾ سے لے کر ﴿ مَعَ الصّٰؔبِرِیْنَ ﴾ تک... اس بات کی دلیل ہے کہ یہ امر لازم اور حتمی ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے اس تعداد میں تخفیف فرما دی۔ پس اس سے ثابت ہوتا ہے کہ آیت کریمہ کا پیرایہ اگرچہ خبر کا ہے مگر اس سے مراد امر ہے۔ اس بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ حکم کو خبر کے پیرائے میں بیان کرنے میں ایک انوکھا نکتہ پنہاں ہے، جو امر کے اسلوب میں ہرگز نہ پایا جاتا.... اور وہ یہ کہ یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے اہل ایمان کے دلوں کے لیے تقویت اور بشارت ہے کہ وہ عنقریب کافروں پر غالب آئیں گے۔ دوسرے نکتے کا جواب یہ دیا جاتا ہے کہ اہل ایمان کو صبر کی صفت سے مقید کرنا درحقیقت ان کو صبر کی ترغیب دینا ہے یعنی تمھارے لیے مناسب یہ ہے کہ تم وہ تمام اسباب اختیار کرو جو صبر کے موجب ہیں ۔ جب وہ صبر کا التزام کرتے ہیں تو تمام اسباب ایمانی اور اسباب مادی اس امر کے حصول کی خوشخبری دیتے ہیں جس کی اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے... یعنی اہل ایمان کی قلیل تعداد کو فتح و نصرت سے نوازنا۔
Vocabulary
AyatSummary
[66]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List