Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
7
SuraName
تفسیر سورۂ اعراف
SegmentID
468
SegmentHeader
AyatText
{58} ثم ذكر تفاوت الأراضي التي ينزل عليها المطر، فقال: {والبلدُ الطيِّب}؛ أي: طيب التربة والمادة، إذا نزل عليه المطر؛ {يخرج نباتُهُ}: الذي هو مستعدٌّ له {بإذن ربِّه}؛ أي: بإرادة الله ومشيئته، فليست الأسباب مستقلَّةً بوجود الأشياء حتى يأذن الله بذلك. {والذي خَبُثَ}: من الأراضي {لا يخرُجُ إلَّا نَكِداً}؛ أي: إلا نباتاً خاسًّا لا نفع فيه ولا بركة. {كذلك نصرِّف الآيات لقوم يشكرونَ}؛ أي: ننوِّعها، ونبيِّنها، ونضرب فيها الأمثال، ونسوقها لقوم يشكرون الله بالاعتراف بنعمه والإقرار بها وصرفها في مرضاة الله؛ فهم الذين ينتفعون بما فصل الله في كتابه من الأحكام والمطالب الإلهية؛ لأنَّهم يرونها من أكبر النعم الواصلة إليهم من ربهم، فيتلقونها مفتقرين إليها فرحين بها، فيتدبَّرونها ويتأمَّلونها، فيبين لهم من معانيها بحسب استعدادهم. وهذا مثالٌ للقلوب حين ينزل عليها الوحي الذي هو مادةُ الحياة كما أن الغيث مادة الحيا؛ فإن القلوب الطيبة حين يجيئها الوحي تقبله وتعلمه وتنبُتُ بحسب طيب أصلها وحسن عنصرها، وأما القلوب الخبيثة التي لا خير فيها؛ فإذا جاءها الوحي؛ لم يجد محلاًّ قابلاً، بل يجدها غافلة معرضة أو معارضة، فيكون كالمطر الذي يمرُّ على السباخ والرمال والصخور فلا يؤثِّر فيها شيئاً، وهذا كقوله تعالى: {أنزل من السماءِ ماءً فسالتْ أوديةٌ بِقَدَرِها فاحتملَ السيلُ زبداً رابياً ... } الآيات.
AyatMeaning
[58] پھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان مختلف قطعات زمین میں تفاوت کا ذکر فرمایا ہے جن پر بارش برستی ہے۔ ﴿وَالْبَلَدُ الطَّیِّبُ ﴾ ’’اور جو شہر پاکیزہ ہے‘‘ یعنی جس کی مٹی اور اصل پاکیزہ ہے، جب اس پر بارش اترتی ہے ﴿ یَخْرُجُ نَبَاتُهٗ ﴾ ’’اس کا سبزہ نکلتا ہے‘‘ جو اس کے لیے تیار ہوتی ہے ﴿ بِـاِذْنِ رَبِّهٖ ﴾ ’’اس کے رب کے حکم سے‘‘ یہ نباتات اللہ تعالیٰ کی مشیت اور ارادے سے ظاہر ہوتی ہیں اور جب تک اللہ تعالیٰ کا حکم نہ ہو تو اشیا کے وجود میں اسباب کوئی مستقل حیثیت نہیں رکھتے۔ ﴿ وَالَّذِیْ خَبُثَ لَا یَخْرُجُ اِلَّا نَؔكِدًا ﴾ ’’اور جو خراب زمین ہے اس میں سے خراب اور خسیس نباتات ہی نکلتی ہیں ‘‘ جس میں کوئی فائدہ اور کوئی برکت نہیں ہوتی۔ ﴿ كَذٰلِكَ نُ٘صَرِّفُ الْاٰیٰتِ لِقَوْمٍ یَّشْكُرُوْنَ ﴾ ’’اسی طرح ہم آیتوں کو شکرگزار لوگوں کے لیے پھیر پھیر کربیان کرتے ہیں ۔‘‘ یعنی ہم آیات کی مختلف انواع اور مثالیں ان لوگوں کے سامنے بیان کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا اعتراف اور اقرار کر کے اس کے شکر گزار ہوتے ہیں اور ان نعمتوں میں اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق تصرف کرتے ہیں ۔ پس یہی لوگ ہیں جو ان احکام اور مطالب الہٰیہ سے مستفید ہوتے ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں تفصیل بیان کی ہے کیونکہ وہ ان احکام الہیہ کو اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی نعمت خیال کرتے ہیں جو ان کے رب کی طرف سے ان کے پاس پہنچی ہے اور وہ اپنے آپ کو اس نعمت کا محتاج سمجھتے ہوئے اسے خوشی خوشی قبول کرتے ہیں اور ان احکام میں غور و فکر کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کی استعداد کے مطابق ان کے سامنے ان احکام کے معانی بیان کر دیتا ہے۔ یہ دلوں کے لیے ایک مثال ہے جب ان پر وحی الٰہی کا نزول ہوتا ہے یہ مادۂ حیات ہے اور بادل بارش کا مادہ ہے۔ قلوب طاہرہ کے پاس جب وحی آتی ہے تو اسے قبول کرتے ہیں اور اسے سیکھتے ہیں اور اپنی فطرت کی پاکیزگی اور اپنے عنصر کی اچھائی کے مطابق نشوونما پاتے ہیں ۔ قلوب خبیثہ، جن میں کوئی بھلائی نہیں ہوتی جب ان کے پاس وحی آتی ہے تو وہ قابل قبول مقام و محل نہیں پاتی بلکہ وہ انھیں غافل اور روگرداں یا مخالفت کرنے والے پاتی ہے۔ پس اس کی مثال اس بارش کی مانند ہے جو شور زدہ زمین، ریت کے ٹیلوں اور چٹانوں پر برستی ہے تو ان پر کوئی اثر نہیں ہوتا۔ جیسے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآءِ مَآءً فَسَالَتْ اَوْدِیَةٌۢ بِقَدَرِهَا فَاحْتَمَلَ السَّیْلُ زَبَدًا رَّابِیًا …﴾ (الرعد: 13؍17)الخ ’’اللہ نے آسمان سے پانی برسایا پھر اپنے اپنے اندازے کے مطابق ندی نالے بہہ نکلے اور پانی نے پھولا ہوا جھاگ اٹھایا۔ ‘‘
Vocabulary
AyatSummary
[58]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List