Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
2
SuraName
تفسیر سورۂ بقرۃ
SegmentID
2
SegmentHeader
AyatText
{2} وقوله: {ذلك الكتاب}؛ أي: هذا الكتاب العظيم، الذي هو الكتاب على الحقيقة، المشتمل على ما لم تشتمل عليه كتب المتقدمين والمتأخرين من العلم العظيم والحقِّ المبين؛ {لا ريب فيه} فلا ريب فيه ولا شكَّ بوجه من الوجوه، ونفي الرَّيب عنه يستلزم ضده إذ ضد الريب والشك اليقين، فهذا الكتاب مشتمل على علم اليقين المزيل للشك والريب. وهذه قاعدة مفيدة أن النفي المقصود به المدح لا بد أن يكون متضمناً لضده وهو الكمال؛ لأن النفي عدم، والعدم المحض لا مدح فيه، فلما اشتمل على اليقين وكانت الهداية لا تحصل إلا باليقين؛ قال: {هدىً للمتقين}، والهدى ما تحصل به الهداية من الضلالة والشُّبَه، وما به الهداية إلى سلوك الطرق النافعة. وقال: {هدى} وحذف المعمولَ، فلم يقل: هدى للمصلحة الفلانية ولا للشيء الفلاني؛ لإرادة العموم وأنه هدى لجميع مصالح الدارين، فهو مرشدٌ للعباد في المسائل الأصولية والفروعية، ومبين للحق من الباطل والصحيح من الضعيف، ومبين لهم كيف يسلكون الطرق النافعة لهم في دنياهم وأخراهم. وقال في موضع آخر: {هدى للناس} فعمَّم، وفي هذا الموضع وغيره: {هدى للمتقين} لأنه في نفسه هدى لجميع الناس ، فالأشقياء لم يرفعوا به رأساً ولم يقبلوا هدى الله، فقامت عليهم به الحجة، ولم ينتفعوا به لشقائهم. وأما المتقون الذين أتوا بالسبب الأكبر لحصول الهداية وهو التقوى التي حقيقتها: اتخاذ ما يقي سخط الله وعذابه بامتثال أوامره، واجتناب النواهي، فاهتدوا به، وانتفعوا غاية الانتفاع، قال تعالى: {يا أيها الذين آمنوا إن تتقوا الله يجعل لكم فرقاناً} فالمتقون هم المنتفعون بالآيات القرآنية والآيات الكونية. ولأن الهداية نوعان: هداية البيان، وهداية التوفيق، فالمتقون حصلت لهم الهدايتان وغيرهم لم تحصل لهم هداية التوفيق، وهداية البيان بدون توفيق للعمل بها ليست هداية حقيقية تامة.
AyatMeaning
[2] ﴿ ذٰلِكَ الْكِتٰبُ ﴾ یعنی یہ کتاب عظیم ہی درحقیقت کتاب کہلانے کی مستحق ہے جو بہت بڑے علم اور واضح حق جیسے امور پر مشتمل ہے جو پہلے انبیاء کی کتابوں میں نہیں ہیں۔ ﴿ لَا رَیْبَ فِیْهِ﴾یہ ایک ایسی کتاب ہے کہ کسی بھی پہلو سے اس میں کوئی شک نہیں۔ اس کتابِ عظیم کے بارے میں شک و شبہ کی نفی اس کی ضد کو مستلزم ہے، جبکہ شک و شبہ کی ضد یقین ہے۔ پس یہ کتاب ایسے علم یقینی پر مشتمل ہے جو شکوک و شبہات کو زائل کرنے والا ہے یہ ایک نہایت مفید قاعدہ ہے کہ نفی سے مقصود مدح ہے۔ تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ یہ اس کی ضد کومتضمن ہو اور وہ ہے کمال۔ کیونکہ نفی عدم محض ہوتی ہے اور عدم محض میں کوئی مدح نہیں ہے۔ جب یہ کتابِ عظیم یقین پر مشتمل ہے اور ہدایت صرف یقین ہی کے ذریعے سے حاصل ہوتی ہے تو فرمایا : ﴿ھُدًی لِّلْمُتِّقِیْنَ﴾ ’’متقیوں کے لیے ہدایت ہے۔‘‘ (اَلْہُدٰی) وہ چیز ہے جس کے ذریعے سے گمراہی اور شبہات کی تاریکی میں راہ نمائی حاصل ہو اور جو فائدہ مند راستوں پر گامزن ہونے میں راہ نمائی کرے۔ اور اللہ تعالیٰ نے لفظ ﴿ھُدًی﴾ استعمال کیا ہے اور اس میں معمول کو حذف کر دیا گیا ہے اور یہ نہیں کہا کہ فلاں مصلحت اور فلاں چیز کی طرف راہ نمائی (ہدایت) ہے۔ کیونکہ اس سے عموم مراد ہے اور اس کے معنی یہ ہیں کہ یہ کتاب دنیا و آخرت کے تمام مصالح کی طرف راہ نمائی ہے۔ لہٰذا یہ تمام اصولی اور فروعی مسائل میں بندوں کی راہنما ہے، باطل میں سے حق کو اور ضعیف میں سے صحیح کو واضح کرتی ہے، نیز بندوں کے سامنے بیان کرتی ہے کہ دنیا و آخرت کے لیے فائدہ مند راستوں پر انھیں کیسے چلنا چاہیے۔ ایک دوسرے مقام پر ﴿ھُدًی لِّلنَّاسِ﴾ (البقرہ: 2؍185) ’’تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے‘‘ فرما کر اس کو عام کر دیا۔ اس مقام پر اوربعض دیگر مقامات پر فرمایا: ﴿ھُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ﴾ کیونکہ یہ فی نفسہ تمام لوگوں کے لیے ہدایت ہے، لیکن چونکہ بدبخت لوگ اس کی طرف توجہ نہیں کرتے اور اللہ تعالیٰ کی راہ نمائی قبول نہیں کرتے، اس لیے اس کے ذریعے سے ان پر حجت قائم ہو گئی ہے کہ انھوں نے اپنی بدبختی کے سبب سے اس ہدایت سے فائدہ نہیں اٹھایا۔ رہے متقی لوگ تو انھوں نے حصول ہدایت کے لیے سب سے بڑا سبب پیش کیا ہے اور وہ ہے تقویٰ اور تقویٰ کے معنی ہیں اللہ تعالیٰ کے اوامر کی اطاعت اور اس کی منہیات سے اجتناب کرتے ہوئے ایسے امور کو اختیار کرنا جو بندے کو اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور اس کے عذاب سے بچاتے ہیں۔ پس اہل تقویٰ نے اس کتاب کے ذریعے سے راہ پائی اور اس سے بے انتہا فائدہ اٹھایا۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰهَ یَجْعَلْ لَّـكُمْ فُ٘رْقَانًا ﴾ (الانفال 8؍29) ’’اے ایمان والو! اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمھارے لیے ایک کسوٹی بہم پہنچا دے گا۔‘‘ پس اصحاب تقویٰ ہی آیات قرآنیہ (احکام الٰہیہ) اور آیات کونیہ (قدرت کی نشانیوں) سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ اس لیے کہ ہدایت کی دو قسمیں ہیں: (۱) ہدایت بیان (۲) ہدایت توفیق۔ متقی لوگ ہدایت کی دونوں اقسام سے بہرہ مند ہوتے ہیں ان کے علاوہ دیگر لوگ ہدایت توفیق سےمحروم رہتے ہیں اور ہدایت بیان، توفیق عمل کی ہدایت کے بغیر، حقیقی اور کامل ہدایت نہیں۔
Vocabulary
AyatSummary
[2]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List