Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
6
SuraName
تفسیر سورۂ انعام
SegmentID
439
SegmentHeader
AyatText
{149} ومنها: أن الحجة لله، البالغة، التي لم تبقِ لأحدٍ عذراً، التي اتَّفقت عليها الأنبياء والمرسلون والكتب الإلهية والآثار النبوية والعقول الصحيحة والفطر المستقيمة والأخلاق القويمة، فعلم بذلك أن كلَّ ما خالف هذه الآية القاطعة باطلٌ؛ لأن نقيض الحقِّ لا يكون إلاَّ باطلاً. ومنها: أن الله تعالى أعطى كلَّ مخلوق قدرةً وإرادةً يتمكَّن بها من فعل ما كُلِّفَ به؛ فلا أوجب الله على أحدٍ ما لا يقدر على فعله، ولا حرَّم على أحدٍ ما لا يتمكَّن على تركه؛ فالاحتجاج بعد هذا بالقضاء والقدر ظلمٌ محضٌ وعنادٌ صرفٌ. ومنها: أن الله تعالى لم يجبر العباد على أفعالهم، بل جعل أفعالهم تبعاً لاختيارهم؛ فإن شاؤوا فعلوا وإن شاؤوا كَفُّوا، وهذا أمر مشاهدٌ لا ينكره إلا مَن كابر وأنكر المحسوسات؛ فإنَّ كلَّ أحد يفرق بين الحركة الاختياريَّة والحركة القسريَّة، وإن كان الجميع داخلاً في مشيئة الله ومندرجاً تحت إرادته. ومنها: أن المحتجِّين على المعاصي بالقضاء والقدر يتناقضون في ذلك؛ فإنهم لا يمكنهم أن يطردوا ذلك؛ بل لو أساء إليهم مسيء بضرب أو أخذ مال أو نحو ذلك، واحتج بالقضاء والقدر لما قبلوا منه هذا الاحتجاج ولغضبوا من ذلك أشد الغضب. فيا عجباً كيف يحتجون به على معاصي الله ومساخطه ولا يرضون من أحد أن يحتج به في مقابلة مساخطهم. ومنها: أن احتجاجهم بالقضاء والقدر ليس مقصوداً، ويعلمون أنَّه ليس بحجةٍ، وإنما المقصود منه دفع الحقِّ ويرون أن الحقَّ بمنزلة الصائل؛ فهم يدفعونه بكلِّ ما يخطر ببالهم من الكلام، [ولو كانوا يعتقدونه خطأً].
AyatMeaning
[149] (۳) حجت بالغہ اللہ تعالیٰ کے پاس ہے، جو کسی کے لیے کوئی عذر نہیں رہنے دیتی، جس پر تمام انبیا و مرسلین، تمام کتب الہیہ، تمام آثار نبویہ، عقل صحیح، فطرت سلیم اور اخلاق مستقیم متفق ہیں ۔ پس معلوم ہوا کہ جو کوئی اس آیت قاطعہ کی مخالفت کرتا ہے وہ باطل ہے کیونکہ حق کی مخالفت کرنے والا باطل کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ (۴) اللہ تبارک و تعالیٰ نے ہر انسان کو قدرت اور ارادہ عطا کیا ہے جس کے ذریعے سے وہ ان تمام افعال کے ارتکاب پر قادر ہے جن کا اسے مکلف کیا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے کسی انسان پر کوئی ایسی چیز واجب نہیں کی جس کے فعل پر وہ قدرت نہیں رکھتا اور نہ کسی ایسی چیز کو اس پر حرام ٹھہرایا ہے جس کو ترک کرنے کی وہ طاقت نہیں رکھتا۔ پس اس کے بعد قضاء و قدر کو دلیل بنانا محض ظلم اور مجرد عناد ہے۔ (۵) اللہ تعالیٰ نے بندوں کے افعال میں جبر نہیں کیا بلکہ ان کے افعال کو ان کے اختیار کے تابع بنایا ہے۔ پس اگر وہ چاہیں تو کسی فعل کا ارتکاب کریں اور اگر چاہیں تو اس فعل کے ارتکاب سے باز رہ سکتے ہیں ۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کا انکار صرف وہی کر سکتا ہے جو حق کے ساتھ عناد رکھتا ہے اور محسوسات کا انکار کرتا ہے۔ کیونکہ ہر شخص حرکت اختیاری اور حرکت جبری میں امتیاز کر سکتا ہے اگرچہ تمام حرکات اللہ تعالیٰ کی مشیت اور اس کے ارادہ کے تحت آتی ہیں ۔ (۶) اپنے گناہوں پر قضاء و قدر کو دلیل بنانے والے تناقض (تضاد) کا شکار ہیں ۔ کیونکہ ان کے لیے اس کو درست ثابت کرنا ممکن نہیں ۔ بلکہ اگر کوئی مارپیٹ یا مال وغیرہ چھین کر ان کے ساتھ برا سلوک کر کے تقدیر کا بہانہ پیش کرتا ہے تو وہ اس شخص کی دلیل کو کبھی قبول نہیں کریں گے اور اس شخص پر سخت ناراض ہوں گے۔ نہایت عجیب بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور اس کی ناراضی کے کاموں پر تو قضا و قدر کا عذر پیش کرتے ہیں اور اگر کوئی ان کے ساتھ برا سلوک کر کے ان کو یہی دلیل پیش کرتا ہے تو اسے قبول نہیں کرتے۔ (۷) قضا و قدر سے استدلال کرنا ان کا مقصد نہیں ہے۔ کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ قضا و قدر کا عذر دلیل نہیں ۔ ان کا مقصد تو صرف حق کو ٹھکرانا اور اس کو روکنا ہے کیونکہ وہ حق کو یوں سمجھتے ہیں جیسے کوئی حملہ آور ہو، چنانچہ وہ ہر صحیح یا غلط خیال کے ذریعے سے، جو ان کے دل میں آتا ہے، حق کو روکنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
Vocabulary
AyatSummary
[149
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List