Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
2
SuraName
تفسیر سورۂ بقرۃ
SegmentID
35
SegmentHeader
AyatText
{84 ـ 85} وهذا الفعل المذكور في هذه الآية فعل للذين كانوا في زمن الوحي بالمدينة، وذلك أن الأوس والخزرج ـ وهم الأنصار ـ كانوا قبل مبعث النبي - صلى الله عليه وسلم - مشركين، وكانوا يقتتلون على عادة الجاهلية، فنزلت عليهم الفرق الثلاث من فرق اليهود: بنو قريظة، وبنو النضير، وبنو قينقاع، فكل فرقة منهم حالفت فرقة من أهل المدينة، فكانوا إذا اقتتلوا أعان اليهودي حليفه على مقاتليه الذين يُعِينونهم الفرقة الأخرى من اليهود، فيقتل اليهوديُ اليهوديَ، ويخرجه من دياره إذا حصل جلاء ونهب، ثم إذا وضعت الحرب أوزارها، وكان قد حصل أسارى بين الطائفتين فدى بعضهم بعضاً، والأمور الثلاثة كلها قد فرضت عليهم: ففرض عليهم أن لا يسفك بعضهم دم بعض، ولا يخرج بعضهم بعضاً، وإذا وجدوا أسيراً منهم وجب عليهم فداؤه، فعملوا بالأخير وتركوا الأولين، فأنكر الله عليهم ذلك فقال: {أفتؤمنون ببعض الكتاب}؛ وهو فداء الأسير {وتكفرون ببعض}؛ وهو القتل والإخراج، وفيها دليل على أن الإيمان يقتضي فعل الأوامر واجتناب النواهي، وأن المأمورات من الإيمان. قال تعالى: {فما جزاء من يفعل ذلك منكم إلا خزي في الحياة الدنيا}؛ وقد وقع ذلك فأخزاهم الله، وسلط رسوله عليهم فقتل من قتل، وسبى من سبى منهم، وأجلى من أجلى، {ويوم القيامة يردون إلى أشد العذاب}؛ أي: أعظمه، {وما الله بغافل عما تعملون}؛ ثم أخبر تعالى عن السبب الذي أوجب لهم الكفر ببعض الكتاب والإيمان ببعضه، فقال:
AyatMeaning
[85-84] آیت کریمہ میں مذکور فعل ان لوگوں کا تھا جو نزول وحی کے زمانے میں مدینہ میں موجود تھے اور یہ اس طرح کہ اوس اور خزرج، جو انصار کے نام سے مشہور ہیں، رسول اللہeکی بعثت سے قبل مشرک تھے اور جاہلیت کی عادت کے مطابق باہم دست و گریباں رہتے تھے، اسی میں یہود کے تین قبیلوں، بنو قریظہ، بنو نضیر اور بنو قینقاع نے مدینہ میں آکر وہاں رہنا شروع کر دیا۔ ان میں سے ہر قبیلے نے مدینہ کے کسی قبیلے کے ساتھ (دفاعی) معاہدہ کر لیا۔ جب کبھی اوس اور خزرج کی آپس میں لڑائی ہوتی تو یہودی قبیلہ اس کے مخالفین کے خلاف مدد کرتا جن کی مدد دوسرا یہودی قبیلہ کر رہا ہوتا۔ یوں یہودی ایک دوسرے کو قتل کرتے تھے۔ بسااوقات یہ بھی ہوتا تھا کہ وہ ایک دوسرے کو جلاوطن کر دیتے اور ایک دوسرے کا مال لوٹ لیتے پھر جب جنگ ختم ہو جاتی تو جنگ کے فریقین نے ایک دوسرے کے جو افراد جنگی قیدی بنائے ہوتے، وہ ان کو فدیہ دے کر آزاد کرواتے۔ یہ تینوں امور، جن کی یہ خلاف ورزی کر رہے تھے، ان پر فرض کیے گئے تھے۔ (۱) ایک دوسرے کا خون نہ بہائیں۔ (۲) ایک دوسرے کو گھروں سے نہ نکالیں۔ (۳) جب وہ اپنے میں سے کسی کو قیدی پائیں تو اس کا فدیہ دے کر اسے چھڑانا ان کے لیے ضروری ہے۔ پس ان لوگوں نے آخری بات پر تو عمل کیا اور پہلی دو باتوں کو نظر انداز کر دیا۔ چنانچہ ان کے اس رویئے پر اللہ تعالیٰ نے نکیر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿اَفَتُؤْمِنُوْنَؔ۠ بِبَعْضِ الْكِتٰبِ﴾ ’’کیا تم کتاب کے ایک حصے پر ایمان لاتے ہو‘‘ اس سے مراد ہے قیدیوں کی رہائی کے لیے فدیہ دینا ﴿ وَ تَكْ٘فُ٘رُوْنَ بِبَعْضٍ﴾ ’’اور دوسرے حصے کے ساتھ کفر کرتے ہو‘‘ اس سے مراد ہے ایک دوسرے کو قتل کرنا اور ایک دوسرے کو گھروں سے نکالنا۔ آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ ایمان اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے اوامر پر عمل کیا جائے اور اس کی نواہی سے اجتناب کیا جائے، نیز یہ کہ تمام مامورات ایمان میں شمار ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ فَمَا جَزَآءُ مَنْ یَّفْعَلُ ذٰلِكَ مِنْكُمْ اِلَّا خِزْیٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا﴾ ’’تم میں سے جو بھی ایسا کرے گا، اس کو اس کی سزا دنیا میں رسوائی کے سوا کوئی اور نہیں ملے گی۔‘‘ اور اس رسوائی کا انھیں سامنا کرنا پڑا۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں رسوا کیا اور ان پر اپنے رسول کو غلبہ عطا کیا۔ ان میں سے کسی کو قتل کر دیا گیا اور کسی کو غلام بنا لیا گیا اور کسی کو جلاوطن کر دیا گیا ﴿ وَیَوْمَ الْقِیٰمَةِ یُرَدُّوْنَ اِلٰۤى اَشَدِّ الْعَذَابِ﴾ ’’اورقیامت کے روز سخت عذاب کی طرف لوٹائے جائیں گے‘‘ یعنی قیامت کے روز کا عذاب دنیا کے عذاب سے بھی بڑھ کر ہو گا ﴿ وَمَا اللّٰهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ﴾ ’’اور اللہ تعالیٰ تمھارے اعمال سے بے خبر نہیں۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ کیا سبب تھا جو اس بات کا موجب بنا کہ وہ کتاب اللہ کے کچھ حصے پر ایمان لائیں اور کچھ حصے کا انکار کر دیں۔
Vocabulary
AyatSummary
[85-
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List