Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 4
- SuraName
- تفسیر سورۂ نساء
- SegmentID
- 322
- SegmentHeader
- AyatText
- {171} ينهى تعالى أهل الكتاب عن الغلوِّ في الدِّين، وهو مجاوزة الحدِّ والقدر المشروع إلى ما ليس بمشروع، وذلك كقول النصارى في غلوُّهم بعيسى عليه السلام ورفعِهِ عن مقام النبوَّة والرِّسالة إلى مقام الرُّبوبيَّة الذي لا يليقُ بغير الله؛ فكما أن التَّقصير والتفريطَ من المنهيَّات؛ فالغلوُّ كذلك، ولهذا قال: {ولا تقولوا على اللهِ إلَّا الحقَّ}، وهذا الكلام يتضمَّن ثلاثة أشياء: أمرين منهيّ عنهما، وهما قول الكذب على الله والقول بلا علم في أسمائه وصفاته وأفعاله وشرعه ورسله. والثالث: مأمورٌ [به]، وهو قول الحقِّ في هذه الأمور. ولما كانت هذه قاعدةً عامَّةً كليَّةً، وكان السياق في شأن عيسى عليه السلام نصَّ على قول الحقِّ فيه المخالف لطريقة اليهوديَّة والنصرانيَّة، فقال: {إنَّما المسيح عيسى بن مريم رسولُ الله}؛ أي: غاية المسيح عليه السلام ومنتهى ما يصل إليه من مراتب الكمال أعلى حالة تكون للمخلوقين، وهي درجة الرسالة، التي هي أعلى الدَّرجات وأجلّ المثوبات، وأنه {كَلِمَتُهُ ألقاها إلى مريم}؛ أي: كلمة تكلَّم الله بها، فكان بها عيسى، ولم يكن تلك الكلمة، وإنما كان بها، وهذا من باب إضافة التشريف والتكريم، وكذلك قولُه: {وروحٌ منه}؛ أي: من الأرواح التي خلقها وكمَّلها بالصِّفات الفاضلة والأخلاق الكاملة، أرسل الله رُوحه جبريلَ عليه السلام، فنفَخَ في فرج مريم عليها السلام، فحملت بإذن الله بعيسى عليه السلام، فلمَّا بيَّن حقيقة عيسى عليه السلام؛ أمر أهل الكتاب بالإيمان به وبرسله، ونهاهم أن يجعلوا الله ثالث ثلاثةٍ؛ أحدهم عيسى والثاني مريم؛ فهذه مقالة النصارى قبَّحهم الله، فأمرهم أن ينتهوا، وأخبر أن ذلك خيرٌ لهم؛ لأنه الذي يتعيَّن أنه سبيل النجاة وما سواه فهو طرق الهلاك. ثم نزَّه نفسه عن الشريك والولد، فقال: {إنَّما الله إلهٌ واحدٌ}؛ أي: هو المنفردُ بالألوهيَّة الذي لا تنبغي العبادة إلاَّ له. {سبحانَه}؛ أي: تنزَّه وتقدَّس، {أن يكونَ له ولدٌ}: لأنَّ {له ما في السموات وما في الأرض}؛ فالكلُّ مملوكون له مفتقِرون إليه؛ فمحالٌ أن يكون له شريكٌ منهم أو ولدٌ. ولما أخبر أنه المالك للعالم العلويِّ والسفليِّ أخبر أنه قائمٌ بمصالحهم الدنيويَّة والأخرويَّة، وحافظها [ومجازيهم] عليها تعالى:
- AyatMeaning
- [171] اللہ تبارک و تعالیٰ اہل کتاب کو دین میں غلو کرنے سے منع کرتا ہے۔ اور غلو سے مراد ہے حد سے تجاوز کرنا اور حدود مشروع سے نکل کر غیر مشروع کی طرف جانا۔ جیسے نصاریٰ جناب عیسیٰu کے بارے میں غلو سے کام لیتے ہیں اور انھیں نبوت اور رسالت کے مقام سے اٹھا کر ربوبیت کے مقام پر بٹھا دیتے ہیں جو اللہ تعالی ٰ کے سوا کسی کے لائق نہیں ۔ پس جس طرح تقصیر اور تفریط (کمی) منہیات میں سے ہے، غلو بھی اسی طرح ممنوع ہے۔ اسی لیے فرمایا ﴿وَلَا تَقُوْلُوْا عَلَى اللّٰهِ اِلَّا الْحَقَّ﴾ ’’اور اللہ کے بارے میں حق کے سوا کچھ نہ کہو۔‘‘ یہ کلام اقدس تین امور کو متضمن ہے۔ ان میں سے پہلے دو امور ممنوع ہیں۔ اول: اللہ تبارک و تعالیٰ پر جھوٹ باندھنا۔ ثانی: اللہ تعالیٰ کے اسماء و صفات اس کے افعال، اس کی شریعت اور اس کے رسولوں کے بارے میں بلاعلم بات کرنا۔ ثالث: اور تیسری چیز وہ ہے جس کا حکم دیا گیا ہے اور وہ ہے ان تمام امور میں قول حق۔ چونکہ یہ ایک عام قاعدہ کلیہ ہے اور سیاق کلام جناب عیسیٰu کے بارے میں نص اور قول حق ہے اور یہودیت اور نصرانیت کے طریقے کے خلاف ہے اس لیے فرمایا :﴿اِنَّمَا الْ٘مَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰهِ ﴾ ’’مسیح (یعنی) مریم کے بیٹے عیسیٰ (u) اللہ کے رسول ہیں ۔‘‘ یعنی جناب مسیحu کی غایت اور مراتب کمال کی انتہاء وہ اعلیٰ ترین حالت ہے جو کسی مخلوق کے لیے ہو سکتی ہے اور وہ مرتبۂ رسالت ہے، جو بلند ترین درجہ اور جلیل ترین مقام ہے۔ ﴿وَؔكَلِمَتُهٗ١ۚ اَلْقٰىهَاۤ اِلٰى مَرْیَمَ ﴾ ’’اور اس کا کلمہ (بشارت) تھے جو اس نے مریم کی طرف بھیجا تھا۔‘‘ اور وہ ایک کلمہ ہے جس کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ نے کلام فرمایا اور اس کلمہ کے ذریعے سے حضرت عیسیٰu نے تخلیق پائی۔ خود حضرت عیسیٰu وہ کلمہ نہ تھے بلکہ وہ اس کلمہ کے ذریعے سے وجود میں آئے اور یہ شرف و تکریم کی اضافت ہے۔ اسی طرح فرمایا: ﴿وَرُوْحٌ مِّؔنْهُ ﴾ ’’اور اس کی طرف سے ایک روح تھے۔‘‘ یعنی ان ارواح میں سے ایک روح ہیں جس کو اللہ تعالیٰ نے تخلیق فرمایا اور صفات فاضلہ اور اخلاق کاملہ کے ساتھ اس کی تکمیل کی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے وہ روح جبریلu کو دے کر جناب مریم علیہا السلام کی طرف بھیجا اور انھوں نے جناب مریم علیہا السلام کی فرج میں روح کو پھونک دیا، پس اللہ کے حکم سے ان کو حمل ٹھہر گیا جس سے حضرت عیسیٰ کی ولادت ہوئی۔ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰu کی حقیقت واضح کر دی تو اس نے اہل کتاب کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لانے کا حکم دیا اور ان کو تین خدا بنانے سے منع کیا، یعنی اللہ تعالیٰ، حضرت عیسیٰ اور حضرت مریم علیہا السلام۔ ان کا برا ہو یہ نصاریٰ کا قول باطل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو حکم دیا ہے کہ وہ اس تثلیث سے باز آ جائیں اور انھیں آگاہ فرمایا کہ یہ ان کے لیے بہتر ہے کیونکہ یہ امر متعین ہے کہ یہی نجات کی راہ ہے اور اس کے سوا ہر راستہ ہلاکت کی طرف لے جاتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے آپ کو شریک اور اولاد سے منزہ قرار دیا ہے۔ فرمایا: ﴿اِنَّمَا اللّٰهُ اِلٰ٘هٌ وَّاحِدٌ ﴾ ’’اللہ ہی معبود واحد ہے۔‘‘ یعنی وہ الوہیت میں منفرد (یکتا) ہے جس کے سوا عبادت کا کوئی مستحق نہیں ﴿سُبْحٰؔنَهٗۤ ﴾ وہ اس سے منزہ اور پاک ہے ﴿اَنْ یَّكُوْنَ لَهٗ وَلَدٌ ﴾ ’’کہ اس کا کوئی بیٹا ہو‘‘ کیونکہ ﴿لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’اسی کے لیے ہے جو آسمانوں میں اور جو زمین میں ہے‘‘ پس تمام اس کے مملوک اور اس کے محتاج ہیں ۔ اس لیے یہ محال ہے کہ ان میں سے اس کا کوئی شریک یا اس کا کوئی بیٹا ہو۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ تمام عالم علوی اور سفلی کا مالک ہے تو وہ یہ بھی بتلاتا ہے کہ وہی تمام دنیوی اور اخروی مصالح کا بھی انتظام فرماتا ہے، ان مصالح کی حفاظت کرتاہے اور ان کی جزا دیتا ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [171
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF