Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 4
- SuraName
- تفسیر سورۂ نساء
- SegmentID
- 284
- SegmentHeader
- AyatText
- {93} تقدَّم أن الله أخبر أنه لا يصدر قتل المؤمن من المؤمن، وأن القتل من الكفر العملي، وذكر هنا وعيد القاتل عمداً وعيداً ترجُفُ له القلوبُ وتنصدِع له الأفئدة وتنزعج منه أولو العقول، فلم يرد في أنواع الكبائر أعظمُ من هذا الوعيد، بل ولا مثلُه، ألا وهو الإخبارُ بأنَّ جزاءَه جهنَّم؛ أي: فهذا الذنب العظيم قد انتهض وحدَه أن يجازي صاحبَهُ بجهنَّم بما فيها من العذاب العظيم والخزي المهين وسخط الجبار وفوات الفوز والفلاح وحصول الخيبة والخسار؛ فعياذاً بالله من كلِّ سبب يبعد عن رحمته. وهذا الوعيد له حكم أمثاله من نصوص الوعيد على بعض الكبائر والمعاصي بالخلود في النار أو حرمان الجنة. وقد اختلف الأئمة رحمهم الله في تأويلها، مع اتفاقهم على بطلان قول الخوارج والمعتزلة الذين يخلِّدونهم في النار ولو كانوا موحِّدين، والصواب في تأويلها ما قاله الإمام المحقِّق شمس الدين ابن القيم رحمه الله في «المدارج» ؛ فإنه قال بعد ما ذكر تأويلات الأئمة في ذلك وانتقدها، فقال: وقالت فرقةٌ: إن هذه النصوص وأمثالها مما ذُكِرَ فيه المقتضي للعقوبة، ولا يلزم من وجود مقتضى الحكم وجودُه؛ فإن الحكم إنما يتمُّ بوجود مقتضيه وانتفاء موانعه، وغاية هذه النصوص الإعلام بأن كذا سببٌ للعقوبة ومقتضٍ لها، وقد قام الدليل على ذِكْرِ الموانع؛ فبعضُها بالإجماع وبعضُها بالنص؛ فالتوبة مانعٌ بالإجماع، والتوحيد مانعٌ بالنصوص المتواترة التي لا مدفع لها، والحسناتُ العظيمة الماحية مانعةٌ، والمصائب الكبارُ المكفِّرة مانعة، وإقامة الحدود في الدُّنيا مانع بالنصِّ، ولا سبيل إلى تعطيل هذه النصوص، فلا بدَّ من إعمال النصوص من الجانبين، ومن هنا قامت الموازنةُ بين الحسنات والسيئات اعتباراً لمقتضى العقاب ومانعه وإعمالاً لأرجحها. قالوا: وعلى هذا بناء مصالح الدارين ومفاسِدِهما، وعلى هذا بناء الأحكام الشرعية والأحكام القدريَّة، وهو مقتضى الحكمة السارية في الوجود، وبه ارتباط الأسباب ومسبَّباتها خَلْقاً وأمراً، وقد جعل الله سبحانه لكل ضدٍّ ضدًّا يدافِعُه ويقاومه ويكون الحكم للأغلب منهما؛ فالقوة مقتضيةٌ للصحة، والعافية وفساد الأخلاط وبغيها مانعٌ من عمل الطبيعة، وفعل القوة والحكم للغالب منهما، وكذلك قوى الأدوية والأمراض، والعبد يكون فيه مقتضٍ للصحَّة ومقتضٍ للعطب، وأحدُهما يمنع كمال تأثير الآخر ويقاوِمُه؛ فإذا ترجَّح عليه وقهره؛ كان التأثير له، ومن هنا يُعلم انقسام الخلق إلى من يدخل الجنة ولا يدخل النار وعكسه، ومن يدخل النار ثم يخرُجُ منها ويكون مكثه فيها بحسب ما فيه من مقتضى المكث في سرعة الخروج وبطئه، ومن له بصيرةٌ منورةٌ يرى بها كلَّ ما أخبر الله به في كتابه من أمر المعاد وتفاصيلِهِ، حتى كأنه يشاهدُهُ رأي العين، ويعلم أنَّ هذا مقتضى إلهيته سبحانه وربوبيَّته وعزَّته وحكمته، وأنه يستحيل عليه خلاف ذلك، ونسبة ذلك إليه نسبة ما لا يليق به إليه، فيكون نسبة ذلك إلى بصيرته كنسبة الشمس والنجوم إلى بصره، وهذا يقين الإيمان، وهو الذي يحرق السيِّئات كما تحرق النار الحطب، وصاحب هذا المقام من الإيمان يستحيل إصرارُهُ على السيِّئات وإن وقعت منه وكثرت؛ فإنَّ ما معه من نور الإيمان يأمره بتجديد التوبة كلَّ وقت بالرجوع إلى الله في عدد أنفاسه، وهذا من أحبِّ الخلق إلى الله. انتهى كلامه قدَّس الله رُوحه وجزاه عن الإسلام والمسلمين خيراً.
- AyatMeaning
- [93] گزشتہ صفحات میں گزر چکا ہے کہ مومن سے مومن کا قتل صادر نہیں ہو سکتا نیز یہ کہ قتل کفر عملی ہے۔ یہاں اللہ تعالیٰ نے جان بوجھ کر قتل کرنے والے کے لیے وعید کا ذکر فرمایا ہے جس سے دل کانپ جاتے ہیں، کلیجے پھٹ جاتے ہیں اور عقلمند لوگ گھبرا جاتے ہیں۔ کبیرہ گناہوں میں سے کسی اور گناہ کے لیے اس سے بڑی بلکہ اس جیسی وعید بھی وارد نہیں ہوئی۔ آگاہ رہو کہ یہ اس امر کی خبر دینا ہے کہ مومن کے قتل کے مرتکب کے لیے جہنم ہے۔ یعنی یہ گناہ عظیم اکیلا ہی کافی ہے کہ اپنے مرتکب کو جہنم، عذاب عظیم، رسوائی، اللہ جبار کی ناراضی، فوز و فلاح سے محرومی و ناکامی اور خسارے جیسی سزا کا مستحق بنائے۔ ہم ہر اس سبب سے اللہ تعالیٰ کی پناہ مانگتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے دور کرے۔ اس وعید کا حکم، کبیرہ گناہوں کے بارے میں وارد اس جیسی دیگر نصوص وعید کی مانند ہے جن میں جہنم میں خلود اور جنت سے محرومی کا ذکر کیا گیا ہے۔ ائمہ کرام، خوارج اور معتزلہ کے اس قول کے بطلان پر متفق ہونے کے باوجود، کہ موحد گناہ گار ہمیشہ جہنم میں رہیں گے اس آیت کریمہ کی تاویل میں اختلاف رکھتے ہیں۔ اس آیت کریمہ کی تاویل و تفسیر میں حق و صواب وہ ہے جو امام محقق شمس الدین ابن القیم a نے اپنی مشہور کتاب ’’مدارج السالکین‘‘ میں ذکر فرمایا ہے۔ انھوں نے ائمہ کی تاویلات ذکر کرنے کے بعد نقد کرتے ہوئے فرمایا: ’’کچھ دیگر لوگوں کی رائے ہے کہ یہ نصوص اور اس قسم کی دیگر نصوص، جن میں سزا کی اقتضا کا ذکر آتا ہے مقتضائے حکم کے وجود سے اس کا وجود لازم نہیں آتا کیونکہ حکم اپنے مقتضی کے وجود اور انتفائے مانع سے پورا ہوتا ہے اور ان نصوص کی غرض و غایت محض اس امر کی اطلاع دینا ہے کہ اس قسم کے جرائم عقوبت کا سبب ہیں اور اس کا تقاضا کرتے ہیں اور موانع کے ذکر پر دلیل قائم ہو چکی ہے کچھ تو اجماع کی بنا پر اور کچھ نصوص کی بنا پر چنانچہ توبہ بالاجماع عقوبت اور سزا کومانع ہے اور نصوص متواترہ دلالت کرتی ہیں کہ توحید بھی مانع عقوبت ہے اسی طرح برائیوں کو مٹانے والی نیکیاں بھی مانع عقاب ہیں۔ بڑے بڑے مصائب جو گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں مانع عقاب ہیں۔ دنیا میں ان جرائم پر حد قائم ہونا بھی مانع عقوبت ہے ان امور پر نصوص دلالت کرتی ہیں اور ان نصوص کو معطل کرنے کی کوئی وجہ نہیں لہٰذا جانبین کی طرف سے نصوص کے عمل کو تسلیم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں۔ یہ ہے وہ مقام جہاں اقتضائے عقاب اور اس کے مانع کے لیے، نیکیوں اور برائیوں کے درمیان موازنہ کیا جاتا ہے تاکہ دونوں میں سے جو راجح ہو، اس کے مطابق عمل کیا جائے (اقتضائے عذاب راجح ہو تو عذاب کا اور مانع راجح ہو تو عدم عذاب کا فیصلہ ہو گا) وہ کہتے ہیں کہ اسی اصول پر دنیا و آخرت کے مصالح اور مفاسد کی بنا ہے اور یہی اصول احکام شرعیہ اور احکام قدریہ کی بنیاد ہیں اور یہی اس حکمت کا تقاضا ہے جو وجود کائنات میں جاری و ساری ہے۔ خلق و امر کے لحاظ سے اسی اصول کے ذریعے سے اسباب اور مسببات ایک دوسرے سے مرتب ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہر شے کی ضد پیدا کی ہے تاکہ یہ ضد اس شے کو دفع کرے اور ضدین میں سے اغلب کے مطابق حکم لگایا جائے گا۔ قوت صحت و عافیت کا تقاضا کرتی ہے اور اخلاط فاسدہ کا غلبہ، عمل طبعی اور فعل قوت کو مانع ہے، ان دونوں میں سے اغلب کے مطابق حکم لگایا جائے گا۔ یہی اصول ادویہ اور امراض کے قویٰ میں عمل کرتا ہے انسان کے اندر ایسی چیزیں بھی ہیں جو اس کی صحت کی متقاضی ہیں اور کچھ ایسی چیزیں بھی ہیں جو اس کی ہلاکت کا تقاضا کرتی ہیں۔ (ان کے درمیان کشمکش رہتی ہے) اور ایک چیز دوسری چیز کے کمال تاثیر کو روکتی اور اس کا مقابلہ کرتی ہے پس اگر وہ اس پر غالب آ جاتی ہے تو اس کی تاثیر اس میں کارفرما ہوتی ہے۔ یہاں پہنچ کر انسانوں کی تقسیم کا علم ہوتا ہے۔ کوئی سیدھا جنت میں جائے گا کسی کو جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔ کچھ لوگوں کو جہنم میں داخل کر کے پھر نکال لیا جائے گا اور وہ لوگ جہنم میں بس اسی قدر ٹھہریں گے جس قدر ان کے اعمال ان کے ٹھہرنے کا تقاضا کریں گے۔ جس شخص کی چشم بصیرت روشن ہے اس اصول کے مطابق اسے معاد کے متعلق وہ تمام امور جن کی قرآن خبر دیتا ہے یوں نظر آتے ہیں گویا کہ وہ انھیں اپنی ظاہری آنکھوں سے دیکھ رہا ہے۔ اسے معلوم ہو جاتا ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کی الوہیت، ربوبیت اور عزت و حکمت کا تقاضا ہے اور اس کی خلاف ورزی اللہ تعالیٰ سے محال ہے۔ اس کی خلاف ورزی کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرنا ایک ایسے امر کی نسبت ہے جو اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق نہیں۔ ان امور کو وہ اپنی چشم بصیرت سے یوں دیکھتا ہے جیسے وہ اپنی آنکھ سے سورج اور ستاروں کو دیکھتا ہے اور یہ ایمان کا یقین ہے اور یہ وہ یقین ہے جو برائیوں کو اس طرح جلا دیتا ہے جیسے خشک ایندھن کو آگ جلا دیتی ہے۔ وہ شخص جو ایمان کے اس مقام پر فائز ہو جاتا ہے اس کے لیے برائیوں پر مصر رہنا محال ہے۔ برائیاں اگرچہ اس سے بکثرت واقع ہو جاتی ہیں مگر اس کا نور ایمان اسے ہر وقت تجدید توبہ کا حکم دیتا رہتا ہے اور ہر سانس کے ساتھ وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کرتا ہے ایسا شخص اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب ہے۔‘‘ ۔ ۔ ۔ ابن القیم قدس اللہ روحہ کا کلام ختم ہوا، اللہ تعالیٰ انھیں اسلام اور مسلمانوں کی طرف سے جزائے خیر عطا کرے۔ (اس موضوع پر مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ کیجیے مدارج السالکین 1؍396۔ مترجم)
- Vocabulary
- AyatSummary
- [93]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType