Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 4
- SuraName
- تفسیر سورۂ نساء
- SegmentID
- 283
- SegmentHeader
- AyatText
- {92} هذه الصيغة من صيغ الامتناع، أي: يمتنع ويستحيل أن يصدر من مؤمن قتلُ مؤمنٍ؛ أي: متعمداً. وفي هذا الإخبار بشدَّة تحريمه وأنه منافٍ للإيمان أشدَّ منافاة، وإنَّما يصْدر ذلك إمَّا من كافر أو من فاسق قد نَقَصَ إيمانه نقصاً عظيماً ويُخشَى عليه ما هو أكبر من ذلك؛ فإنَّ الإيمان الصحيح يمنعُ المؤمن من قتل أخيه الذي قد عَقَدَ الله بينَه وبينَه الأخوَّة الإيمانيَّة التي من مقتضاها محبَّته وموالاته وإزالة ما يعرض لأخيه من الأذى، وأيُّ أذىً أشد من القتل؟! وهذا يصدقه قوله - صلى الله عليه وسلم -: «لا ترجِعوا بعدي كفَّاراً يضرِبُ بعضُكم رقابَ بعض» ، فعُلِمَ أنَّ القتل من الكفر العمليِّ، وأكبر الكبائر بعد الشرك بالله. ولما كان قوله: {وما كان لمؤمنٍ أن يقتُلَ مؤمناً}: لفظاً عامًّا لجميع الأحوال، وأنه لا يصدُرُ منه قتلُ أخيه بوجهٍ من الوجوه؛ استثنى تعالى قتلَ الخطأ، فقال: {إلَّا خطأً}؛ فإنَّ المخطئ الذي لا يقصد القتل غير آثم ولا متجرئ على محارم الله، ولكنه لما كان قد فعل فعلاً شنيعاً وصورتُهُ كافيةٌ في قبحه وإن لم يقصِدْه؛ أمر تعالى بالكفَّارة والدِّية، فقال: {ومَن قَتَلَ مؤمناً خطأً}: سواء كان القاتلُ ذكراً أو أنثى حُرًّا أو عبداً صغيراً أو كبيراً عاقلاً أو مجنوناً مسلماً أو كافراً؛ كما يفيده لفظ {مَنْ} الدالة على العموم، وهذا من أسرار الإتيان بـ «مَن» في هذا الموضع؛ فإنَّ سياق الكلام يقتضي أنه يقول: فإن قتله، ولكن هذا لفظٌ لا يشمل ما تشمله «مَنْ»، وسواء كان المقتول ذكراً أو أنثى صغيراً أو كبيراً؛ كما يفيده التنكير في سياق الشرط؛ فإنَّ على القاتل {تحريرُ رقبةٍ مؤمنةٍ}: كفارةً لذلك، تكون في مالِه، ويشمل ذلك الصغير والكبير والذكر والأنثى والصحيح والمعيب في قول بعض العلماء، ولكن الحكمة تقتضي أن لا يُجزئ عتق المعيب في الكفارة؛ لأن المقصود بالعتق نفعُ العتيق ومُلْكُه منافع نفسه؛ فإذا كان يضيع بعتقه، وبقاؤه في الرقِّ أنفع له؛ فإنه لا يجزئ عتقه، مع أن في قوله: {تحرير رقبة}؛ ما يدلُّ على ذلك؛ فإن التحرير تخليصُ مَنِ استحقت منافعُهُ لغيرِهِ أن تكون له؛ فإذا لم يكن فيه منافع؛ لم يُتَصَوَّر وجود التحرير، فتأمَّل ذلك؛ فإنه واضح. وأما الدِّية؛ فإنها تجب على عاقلة القاتل في الخطأ وشبه العمد. {مسلَّمةٌ إلى أهله}: جبراً لقلوبهم. والمراد بـ {أهله} هنا هم ورثتُهُ؛ فإن الورثة يرثون ما ترك الميت، فالدِّية داخلةٌ فيما ترك، وللدِّيةِ تفاصيل كثيرة مذكورة في كتب الفقه. وقوله: {إلَّا أن يَصَّدَّقوا}؛ أي: يتصدَّق ورثة القتيل بالعفو عن الدِّية؛ فإنها تسقُط، وفي ذلك حثٌّ لهم على العفو؛ لأنَّ الله سمّاها صدقةً، والصدقة مطلوبة في كلِّ وقت. {فإن كان} المقتول {من قوم عدوٍّ لكم}؛ أي: من كفارٍ حَرْبيِّينَ، {وهو مؤمنٌ فتحريرُ رقبةٍ مؤمنةٍ}؛ أي: وليس عليكم لأهله دِيَةٌ؛ لعدم احترامهم في دمائهم وأموالهم. {وإن كان}: المقتول {من قوم بينكم وبينهم ميثاقٌ فَدِيَةٌ مسلَّمةٌ إلى أهله وتحريرُ رقبة مؤمنة}، وذلك لاحترام أهله بما لهم من العهد والميثاق. {فَمَن لم يجد}: الرقبةَ ولا ثمنها؛ بأن كان معسراً بذلك، ليس عنده ما يَفْضُلُ عن مؤنته وحوائجه الأصلية شيء يفي بالرَّقبة. {فصيام شهرين متتابعين}؛ أي: لا يفطر بينهما من غير عذرٍ؛ فإن أفطر لعذرٍ؛ فإن العذر لا يقطع التتابع؛ كالمرض والحيض ونحوهما، وإن كان لغير عذرٍ؛ انقطع التتابُع، ووجب عليه استئناف الصوم، {توبةً من الله}؛ أي: هذه الكفارات التي أوجبها الله على القاتل توبةً من الله على عباده ورحمةً بهم وتكفيراً لما عساه أن يحصُلَ منهم من تقصير وعدم احتراز كما هو الواقع كثيراً للقاتل خطأ. {وكان الله عليماً حكيماً}؛ أي: كامل العلم كامل الحكمة، لا يخفى عليه مثقال ذرَّة في الأرض ولا في السماء، ولا أصغر من ذلك ولا أكبر، في أي وقت كان وأي محلٍّ كان، ولا يخرج عن حكمتِهِ من المخلوقات والشرائع شيءٌ، بل كل ما خلقه وشرعه فهو متضمِّن لغاية الحكمة. ومن علمه وحكمته أن أوجب على القاتل كفارةً مناسبةً لما صدر منه؛ فإنَّه تسبَّب لإعدام نفس محترمة، وأخرجها من الوجود إلى العدم، فناسب أن يَعْتِقَ رقبةً ويخرِجَها من رِقِّ العبوديَّة للخلق إلى الحريَّة التامَّة؛ فإنْ لم يجد هذه الرقبة؛ صام شهرين متتابعين، فأخرج نفسه من رقِّ الشهوات واللَّذَّات الحسيَّة القاطعة للعبد عن سعادتِهِ الأبديَّة إلى التعبُّد لله تعالى بتركها تقرباً إلى الله، ومدَّها تعالى بهذه المدة الكثيرة الشاقَّة في عددها ووجوب التتابُع فيها، ولم يشرع الإطعام في هذه المواضع لعدم المناسبة؛ بخلاف الظِّهار؛ كما سيأتي إن شاء الله تعالى. ومن حكمته أن أوجب في القتل الدِّية، ولو كان خطأ؛ لتكون رادعةً وكافَّةً عن كثير من القتل باستعمال الأسباب العاصمة عن ذلك. ومن حكمته أن أُوجِبت على العاقلة في قتل الخطأ بإجماع العلماء؛ لكون القاتل لم يُذْنِبْ، فيشق عليه أن يحمل هذه الدية الباهظة، فناسب أن يقوم بذلك مَن بينه وبينهم المعاونةُ والمناصرةُ والمساعدةُ على تحصيل المصالح وكفِّ المفاسد، ولعلَّ ذلك من أسباب منعهم لمن يعقِلون عنه من القتل حذار تحميلهم، ويخف عليهم بسبب توزيعه عليهم بقدر أحوالهم وطاقتهم، وخُفِّفَت أيضاً بتأجيلها عليهم ثلاث سنين. ومن حكمته وعلمه أن جبر أهل القتيل عن مصيبتهم بالدِّية التي أوجبها على أولياء القاتل.
- AyatMeaning
- [92] آیت کریمہ کا یہ اسلوب ، امتناع یعنی ناممکن ہونے کے اظہار کے اسالیب میں سے ہے یعنی یہ ممتنع اور محال ہے کہ ایک مومن سے دوسرے مومن کا جان بوجھ کر قتل صادر ہو۔ اس آیت کریمہ میں قتل مومن کی تحریم کو نہایت شدت سے بیان کیا گیا ہے اور بتایا گیا ہے کہ مومن کا قتل ایمان کے سخت منافی ہے۔ مومن کا قتل یا تو کافر سے صادر ہوتا ہے یا ایسے فاسق و فاجر سے صادر ہوتا ہے جس کے ایمان میں بہت زیادہ کمی ہو۔ ایسے فاسق و فاجر سے اس سے بھی بڑے اقدام کا ڈر ہے۔ اس لیے کہ ایمان صحیح مومن کو اپنے مومن بھائی کے قتل سے باز رکھتا ہے جس کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے اخوت ایمانی کا رشتہ جوڑا ہے جس کا تقاضا محبت و موالات اور اپنے بھائی سے اذیتوں کو دور کرنا ہے اور قتل سے بڑھ کر کون سی اذیت ہے؟ یہ چیز رسول اللہeکے اس ارشاد کی مصداق ہے :’لَا تَرْجِعُوا بَعْدِی کُفَّارًا یَّضْرِبُ بَعْضُکُمْ رِقَابَ بَعْضٍ‘ ’’میرے بعد کفر کی طرف نہ لوٹ جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو‘‘(صحیح البخاری، الدیات، باب ﴿ومن أحیا ……﴾، حديث:6868) پس معلوم ہوا کہ قتل مومن عملی کفر ہے اور شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے۔ چونکہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ وَمَا كَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا ﴾ ’’اور کسی مومن کو شایاں نہیں کے مومن کو مار ڈالے۔‘‘ تمام احوال کے لیے عام ہے اور مومن کسی بھی اعتبار سے اپنے مومن بھائی کے قتل کا ارتکاب نہیں کر سکتا، اس لیے اللہ تعالیٰ قتل خطا کو مستثنی کرتے ہوئے فرماتا ہے ﴿ اِلَّا خَطَــًٔؔا ﴾ ’’مگر غلطی سے‘‘ اس لیے کہ قتل خطا کا مرتکب شخص قتل اور گناہ کا قصد نہیں رکھتا، نہ وہ اللہ تعالیٰ کے محارم کا ارتکاب کرتا ہے۔ مگر چونکہ اس نے ایک بہت ہی قبیح فعل کا ارتکاب کیا ہے اور اس کی ظاہری شکل اس کی قباحت کے لیے کافی ہے، اگرچہ اس کا مقصد اس کو قتل کرنا ہرگز نہیں تھا اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسے کفارہ اور دیت ادا کرنے کا حکم دیا ہے۔ فرمایا ﴿ وَمَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَــًٔؔا ﴾ ’’جو شخص کسی مسلمان کو بلا قصد مار ڈالے‘‘ قاتل خواہ مرد ہو یا عورت، آزاد ہو یا غلام، چھوٹا ہو یا بڑا، عاقل ہو یا پاگل اور مسلمان ہو یا کافر جیسا کہ لفظ (مَنْ) عموم کا فائدہ دے رہا ہے۔ یہاں لفظ (مَنْ) کو لانے کا یہی سرنہاں ہے کیونکہ سیاق کلام تو تقاضا کرتا ہے کہ یہاں لفظ (فَاِنْ قَتَلَہٗ) استعمال ہوتا مگر یہ لفظ وہ معنی ادا نہیں کرتا جو (مَنْ) ادا کرتا ہے۔ اسی طرح مقتول خواہ مرد ہو یا عورت، چھوٹا ہو یا بڑا (آیت کریمہ تمام صورتوں کو شامل ہے) جیسا کہ سیاق شرط میں نکرہ عموم کا فائدہ دے رہا ہے۔ ﴿ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ ﴾ قاتل پر کفارہ کے طور پر مومن غلام کا آزاد کرنا واجب ہے۔ یہ غلام قاتل کے مال سے آزاد کیا جائے گا۔ بعض علماء کے نزدیک یہ آیت کریمہ چھوٹے بڑے، مرد عورت، بے عیب اور عیب دار، ہر قسم کے غلام کو شامل ہے۔ مگر حکمت اس امر کا تقاضا کرتی ہے کہ عیب زدہ غلام کو کفارہ میں آزاد نہ کیا جائے، اس لیے کہ آزادی عطا کرنے کا مقصد آزاد کیے جانے والے کو نفع پہنچانا ہے اور اس کو ملکیت میں رکھنا خود اپنے آپ کو نفع پہنچانا ہے۔ پس جب آزادی عطا کرنے سے یہ نفع ضائع ہو جاتا ہے اور غلامی میں اسے باقی رکھنا اس کے لیے زیادہ نفع مند ہے تو اس کو آزاد کرنا کافی نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کے ارشاد (تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ) کا معنی اس پر دلالت کرتا ہے۔ کیونکہ یہاں آزادی عطا کرنے سے مراد کسی ایسے شخص کے منافع کا استحقاق خود اس کے لیے خالص کرنا ہے جس کے منافع کا استحقاق کسی دوسرے کے پاس ہو۔ پس اگر اس میں (عیب زدہ ہونے کی وجہ سے) کوئی منفعت نہیں تو آزادی کے وجود کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ اس میں غور کیجیے یہ بالکل واضح ہے۔ رہی دیت، تو یہ قاتل کی برادری اور اس کے رشتہ داروں پر واجب ہے۔ دیت قتل خطا اور قتل شبہ عمد میں واجب ہوتی ہے ﴿ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖۤ ﴾ ’’مقتول کے وارثوں کو ادا کرے۔‘‘ یعنی مقتول کے وارثوں کی دل جوئی کی خاطر ان کے حوالے کرے۔ یہاں (اَھْلِہٖ) سے مراد مقتول کے ورثاء ہیں کیونکہ یہی لوگ میت کے ترکہ کے وارث ہوتے ہیں۔ نیز دیت بھی ترکہ میں داخل ہے۔ اور دیت بہت سی تفاصیل ہیں جو کتب فقہ میں مذکور ہیں۔ ﴿ اِلَّاۤ اَنْ یَّصَّدَّقُ٘وْا﴾ ’’ہاں اگر وہ معاف کردیں۔‘‘ یعنی مقتول کے ورثاء قاتل کو معاف کر کے دیت اس کو بخش دیں۔ تب یہ دیت بھی ساقط ہو جائے گی۔ اس بارے میں اللہ تعالیٰ نے معاف کر دینے کی ترغیب دی ہے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس معافی کو صدقہ کے نام سے موسوم کیا ہے اور صدقہ ہر وقت مطلوب ہے۔ ﴿فَاِنْ كَانَ﴾ ’’پس اگر وہ ہو‘‘ یعنی مقتول ﴿ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّـكُمْ﴾ ’’ایسی قوم سے جو تمھاری دشمن ہے‘‘ یعنی اگر مقتول حربی کفار میں سے ہو ﴿ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ﴾ ’’اور وہ مومن ہو تو صرف ایک مومن غلام کی گردن آزاد کرنی لازمی ہے‘‘ یعنی تب اس صورت میں تم پر مقتول کے (کافر) ورثاء کو دیت ادا کرنا واجب نہیں۔ کیونکہ ان کی جان اور مال کا احترام واجب نہیں۔ ﴿ وَاِنْ كَانَ مِنْ قَوْمٍۭ بَیْنَكُمْ وَبَیْنَهُمْ مِّؔیْثَاقٌ فَدِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ اِلٰۤى اَهْلِهٖ وَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ﴾ ’’اور اگر وہ (مقتول) اس قوم سے ہو کہ تم میں اور ان میں عہدوپیمان ہو تو خون بہا لازمی ہے جو اس کے کنبے والے کو پہنچایا جائے اور ایک مسلمان غلام کا آزاد کرنا بھی ضروری ہے‘‘ یہ ان کے ساتھ عہد و میثاق کی بنا پر مقتول کے ورثاء کے احترام کی وجہ سے ہے۔ ﴿ فَ٘مَنْ لَّمْ یَجِدْ﴾ ’’اور جس کو یہ میسر نہ ہو۔‘‘ یعنی جس کے پاس تنگ دستی کی وجہ سے آزاد کرنے کے لیے غلام یا اس کی قیمت نہیں ہے اور بنیادی ضروریات و حوائج کے اخراجات کے بعد اتنی رقم نہیں بچتی جس سے غلام کو آزاد کیا جا سکے ﴿ فَصِیَامُ شَ٘هْرَیْنِ مُتَـتَابِعَیْنِ﴾ ’’تب دو مہینے مسلسل روزے رکھے‘‘ اور ان کے دوران بغیر کسی عذر کے روزہ نہ چھوڑے۔ اگر کسی عذر کی بنا پر روزہ چھوٹ جائے مثلاًمرض اور حیض وغیرہ تو اس سے تسلسل نہیں ٹوٹتا اگر اس نے بغیر کسی عذر کے روزہ چھوڑ دیا ہے تو اس سے تسلسل منقطع ہو جائے گا اور اسے نئے سرے سے روزے شروع کرنے پڑیں گے۔ ﴿ تَوْبَةً مِّنَ اللّٰهِ﴾ ’’یہ (کفارہ) اللہ کی طرف سے (قبول) توبہ کے ليے ہے۔‘‘ یعنی یہ کفارات جو اللہ تعالیٰ نے قاتل پر واجب کیے ہیں یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے قبولیت توبہ، ان پر رحمت اور ان کے گناہوں کی تکفیر ہے جو ممکن ہے کسی کوتاہی اور عدم احتیاط کی وجہ سے ان سے سرزد ہوئے ہوں جیسا کہ قتل خطا کے مرتکب سے اکثر واقع ہوتے ہیں ﴿ وَؔكَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا﴾ ’’اور اللہ سب کچھ جانتا اور بڑی حکمت والا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کامل علم اور کامل حکمت والا ہے۔ زمین و آسمان میں، کسی جگہ اور کسی وقت چھوٹی یا بڑی ذرہ بھر چیز اس سے پوشیدہ نہیں۔ تمام مخلوقات اور تمام شرائع اس کی حکمت سے خالی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو کچھ تخلیق، اور جو کچھ مشروع کیا ہے وہ حکمت پر مبنی ہے۔ یہ اس کا علم و حکمت ہے کہ اس نے قاتل پر کفارہ واجب کیا جو اس سے صادر ہونے والے گناہ سے مناسبت رکھتا ہے۔ کیونکہ وہ ایک قابل احترام جان کو معدوم کرنے کا سبب بنا اور اسے وجود سے نکال کر عدم میں لے گیا۔ اس جرم سے یہ چیز مناسبت رکھتی ہے کہ وہ غلام آزاد کرے، اس کو مخلوق کی غلامی سے نکال کر مکمل آزادی عطا کرے۔ اگر وہ غلام آزاد کرنے کی طاقت نہ رکھتا ہو تو دو مہینوں کے مسلسل روزے رکھے۔ یوں وہ اپنے آپ کو شہوات، اور ان لذات حسیہ کی غلامی سے آزاد کر کے جو بندے کو ابدی سعادت سے محروم کرتی ہیں، اللہ تعالیٰ کے تقرب کے حصول کے لیے اللہ تعالیٰ کی بندگی کی طرف لائے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے روزے رکھنے کے لیے شاق گزرنے والی طویل مدت مقرر کی ہے اور اس میں روزوں کے تسلسل کو واجب قرار دیا ہے اور ان تمام مقامات پر عدم مناسبت کی بنا پر، روزے رکھنے کی بجائے مسکینوں کو کھانا کھلانا مشروع قرار نہیں دیا۔ اس کے برعکس ظہار میں روزوں کی بجائے مسکینوں کو کھانا کھلانا مشروع ہے۔ اس کا ذکر ان شاء اللہ آئے گا۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی حکمت ہے کہ قتل خواہ خطا ہی سے کیوں نہ ہو، اس نے اس میں دیت واجب ٹھہرائی ہے تاکہ دیت اور دیگر اسباب کے ذریعے سے قتل کے جرائم کا سدباب ہو سکے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت ہے کہ اس نے قتل خطا میں دیت قاتل کے پدری (باپ کی طرف سے) رشتہ داروں (یعنی عاقلہ) پر فرض کی ہے۔ اس پر فقہاء کا اجماع ہے۔ کیونکہ گناہ کی نیت سے قاتل نے قتل کا ارتکاب نہیں کیا تھا کہ اس دیت کا سارا بوجھ اس پر ڈال دیا جائے جو اس کے لیے سخت مشقت کا باعث ہو۔ اس لیے یہ امر مناسبت رکھتا ہے کہ حصول مصالح اور سدمفاسد کی خاطر اس کے اور اس کے رشتہ داروں کے درمیان تعاون، اور ایک دوسرے کی مدد کرنے کا جذبہ ہو۔ شاید یہ چیز اس شخص کو قتل سے روکنے کا سبب بن جائے جس کی طرف سے وہ دیت ادا کرتے ہیں تاکہ انھیں دیت کا بوجھ نہ اٹھانا پڑے۔ نیز ان کی طاقت اور ان کے احوال کے مطابق ان پر دیت کو تقسیم کرنے سے دیت کے بوجھ میں تخفیف ہو جائے گی۔ نیز دیت کی ادائیگی کی مدت تین سال مقرر کر کے اس میں مزید تخفیف پیدا کر دی ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی حکمت اور اس کا علم ہے کہ اس نے اس دیت کے ذریعے سے جو اس نے قاتل کے اولیاء پر واجب کی ہے، مقتول کے ورثاء کی مصیبت میں ان کے نقصان کی تلافی کی ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [92]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF