Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
83
SuraName
تفسیر سورۂ مطففین
SegmentID
1702
SegmentHeader
AyatText
{1 ـ 6} {ويلٌ}: كلمة عذابٍ وعقابٍ ، {للمطفِّفين}: وفسر الله المطفِّفين بأنهم {الذين إذا اكتالوا على الناس}؛ أي: أخذوا منهم وفاءً لهم عمَّا قِبَلَهم ، يستوفونه كاملاً من غير نقصٍ، {وإذا كالوهم أو وَزَنوهم}؛ أي: إذا أعطوا الناس حقَّهم الذي لهم عليهم بكيل أو وزن، {يُخْسِرونَ}؛ أي: ينقصِونَهم ذلك إمَّا بمكيال وميزان ناقصين، أو بعدم ملء المِكْيال والميزان، أو بغير ذلك؛ فهذا سرقةٌ لأموال الناس وعدمُ إنصاف لهم منهم. وإذا كان هذا وعيداً على الذين يَبْخَسونَ الناس بالمكيال والميزان؛ فالذي يأخذ أموالهم قهراً وسرقةً أولى بهذا الوعيد من المطفِّفين. ودلَّت الآية الكريمة على أنَّ الإنسان كما يأخذ من الناس الذي له يجب [عليه] أن يعطِيَهم كلَّ ما لهم من الأموال والمعاملات، بل يدخُلُ في عموم هذا الحجج والمقالات؛ فإنَّه كما أنَّ المتناظرين قد جرت العادة أنَّ كل واحدٍ منهما يحرص على ماله من الحجج؛ فيجب عليه أيضاً أن يبيِّن ما لخصمه من الحجَّة التي لا يعلمها، وأن ينظر في أدلَّة خصمه كما ينظر في أدلَّته هو، وفي هذا الموضع يُعْرَفُ إنصاف الإنسان من تعصُّبه واعتسافه وتواضُعُه من كِبْره وعقلُهُ من سَفَهِهِ، نسأل الله التوفيق لكلِّ خير. ثم توعَّد تعالى المطفِّفين، وتعجَّب من حالهم وإقامتهم على ما هم عليه، فقال: {ألا يظنُّ أولئك أنَّهم مبعوثونَ ليومٍ عظيمٍ. يومَ يقومُ الناسُ لربِّ العالمينَ}: فالذي جرَّأهم على التَّطفيف عدمُ إيمانهم باليوم الآخر؛ وإلاَّ؛ فلو آمنوا به وعرفوا أنهم سيقومون بين يدي الله فيحاسبهم على القليل والكثير؛ لأقلعوا عن ذلك وتابوا منه.
AyatMeaning
[6-1] ﴿وَیْلٌ﴾ ’’ہلاکت ہے۔‘‘ یہ عذاب اور عقاب کا کلمہ ہے ﴿لِّلْمُطَفِّفِیْنَ﴾ ’’ناپ تول میں کمی کرنے والوں کے لیے۔‘‘ اور اللہ تعالیٰ نے اَلْمُطَفِّفِینَ کی تفسیر بیان فرمائی کہ ﴿الَّذِیْنَ اِذَا اكْتَالُوْا عَلَى النَّاسِ ﴾یہ وہ لوگ ہیں جب لوگوں سے لیتے ہیں، تو ان سے کسی کمی کے بغیر پورا لیتے ہیں ﴿ وَاِذَا كَالُوْهُمْ اَوْ وَّزَنُوْهُمْ ﴾ اور جب لوگوں کو ان کا حق عطا کرتے ہیں، جو کسی ناپ تول کی صورت میں ان کے ذمہ ہوتا ہے۔ ﴿ یُخْسِرُوْنَ﴾ تو اس میں کمی کرتے ہیں یا تو ناپ کے ناقص پیمانے اور تولنے کی ناقص ترازو کے ذریعے سے یا ناپ تول کے پیمانے کو پوری طرح نہ بھرتے ہوئے کمی کرتے ہیں، یا اس کے علاوہ دیگر طریقوں سے کمی کرتے ہیں۔ یہ لوگوں کے اموال کی چوری اور ان کے ساتھ بے انصافی ہے۔جب ان لوگوں کے لیے یہ وعید ہے جو ناپ تول کے ذریعے سے لوگوں کے اموال میں کمی کرتے ہیں تو وہ لوگ اس وعید کے، ناپ تول میں کمی کرنے والوں سے زیادہ مستحق ہیں، جو جبراً لوگوں سے مال چھینتے ہیں یا چوری کرتے ہیں۔ یہ آیت کریمہ دلالت کرتی ہے کہ انسان جس طرح لوگوں سے اپنا حق وصول کرتا ہے اسی طرح اس پر فرض ہے کہ وہ اموال و معاملات میں لوگوں کے حقوق ادا کرے، بلکہ اس کے عموم میں دلائل و مقالات بھی شامل ہیں، کیونکہ جیسے آپس میں مناظرہ کرنے والوں کی عادت ہے کہ ان میں سے ہر ایک اپنی دلیل بیان کرنے کا حریص ہوتا ہے، اس پر واجب ہے کہ وہ اس دلیل کو بھی بیان کرے جو اس کے مخالف کے علم میں نہیں ہوتی، نیز وہ اپنے مخالف کے دلائل پر بھی اسی طرح غور کرے جس طرح وہ اپنے دلائل پر غور کرتا ہے۔ اس مقام پر انسان کے انصاف اور اس کے تعصب و ظلم، اس کی تواضع اور تکبر، اس کی عقل اور سفاہت کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔ہم اللہ تعالیٰ سے ہر قسم کی بھلائی کی توفیق کا سوال کرتے ہیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کو وعید سنائی اور ان کے حال اور ان کے اپنے اس طرز عمل پر قائم رہنے پر تعجب کرتے ہوئے فرمایا: ﴿اَلَا یَظُ٘نُّ اُولٰٓىِٕكَ اَنَّهُمْ مَّبْعُوْثُ٘وْنَۙ۰۰ لِیَوْمٍ عَظِیْمٍۙ۰۰یَّوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ﴾ ’’کیا انھیں اپنے مرنے کے بعد عظیم دن کے لیے جی اُٹھنے کا خیال نہیں؟ جس دن سب لوگ رب العالمین کے سامنے کھرے ہوں گے۔‘‘ پس جس چیز نے ان کے اندر کم ناپنے تولنے کی جرأت پیدا کی ہے، وہ ہے آخرت پر ان کا عدم ایمان، ورنہ اگر وہ آخرت پر ایمان رکھتے ہوتے اور انھیں اس حقیقت کی معرفت حاصل ہوتی کہ وہ عنقریب اللہ تعالیٰ کے حضور کھڑے ہوں گے اور وہ ان کے اعمال پر، کم ہوں یا زیادہ، ان کا محاسبہ کرے گا ، تو وہ اس کام سے رک جاتے اور اس سے توبہ کر لیتے۔
Vocabulary
AyatSummary
[6-1
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List