Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 65
- SuraName
- تفسیر سورۂ طلاق
- SegmentID
- 1608
- SegmentHeader
- AyatText
- {2} وقوله: {فإذا بَلَغْنَ أجَلَهُنَّ}؛ أي: [إذا] قاربن انقضاء العدَّة؛ لأنهنَّ لو خرجنَ من العدَّة؛ لم يكن الزوج مخيَّراً بين الإمساك والفراق، {فأمسكوهنَّ بمعروفٍ}؛ أي: على وجه المعاشرة الحسنة والصحبة الجميلة، لا على وجه الضِّرار وإرادة الشرِّ والحبس؛ فإنَّ إمساكها على هذا الوجه لا يجوز، {أو فارِقوهنَّ بمعروفٍ}؛ أي: فراقاً لا محذور فيه، من غير تشاتُم ولا تخاصُم ولا قهرٍ لها على أخذ شيءٍ من مالها، {وأشهدوا}: على طلاقها ورجعتها، {ذَوَيْ عدلٍ منكم}؛ أي: رجلين مسلميْنِ عَدْلَيْنِ؛ لأنَّ في الإشهاد المذكور سدًّا لباب المخاصمة وكتمان كلٍّ منهما ما يلزم بيانه، {وأقيموا}: أيُّها الشهداء {الشهادةَ لله}؛ أي: ائتوا بها على وجهها من غير زيادةٍ ولا نقصٍ، واقصدوا بإقامتها وجهَ الله تعالى ، ولا تُراعوا بها قريباً لقرابته ولا صاحباً لمحبَّته. {ذلكم}: الذي ذكَرنا لكم من الأحكام والحدود، {يوعَظُ به مَن كان يؤمنُ باللهِ واليوم الآخر}: فإنَّ الإيمان بالله واليوم الآخر يوجِبُ لصاحبه أن يتَّعِظَ بمواعظ الله وأن يقدِّم لآخرته من الأعمال الصالحة ما يتمكَّن منها ؛ بخلاف من ترحَّل الإيمان من قلبه؛ فإنَّه لا يبالي بما أقدم عليه من الشرِّ، ولا يعظِّم مواعظ الله؛ لعدم الموجب لذلك. ولما كان الطلاق قد يوقع في الضيق والكرب والغمِّ؛ أمر تعالى بتقواه، ووعد مَنْ اتَّقاه في الطلاق وغيره بأن يجعل له فرجاً ومخرجاً. فإذا أراد العبد الطلاق، ففعله على الوجه الشرعيِّ، بأن أوقعه طلقةً واحدةً في غير حيضٍ ولا طهرٍ أصابها فيه ؛ فإنه لا يضيق عليه الأمر، بل جعل الله له فرجاً وسعةً يتمكَّن بها من الرجوع إلى النّكاح إذا ندم على الطلاق. والآية وإن كانت في سياق الطلاق والرجعة؛ فإنَّ العبرة بعموم اللفظ فكل من اتقى الله [تعالى] ولازم مرضاته في جميع أحواله؛ فإنَّ الله يثيبه في الدُّنيا والآخرة، ومن جملة ثوابه أن يجعل له فرجاً ومخرجاً من كلِّ شدَّة ومشقَّة، وكما أنَّ من اتَّقى الله؛ جعل له فرجاً ومخرجاً؛ فمن لم يتَّق الله؛ يقع في الآصار والأغلال التي لا يقدر على التخلُّص منها والخروج من تَبِعَتها، واعتبرْ ذلك في الطلاق ؛ فإنَّ العبد إذا لم يَتَّق الله فيه، بل أوقعه على الوجه المحرَّم؛ كالثلاث ونحوها؛ فإنَّه لا بدَّ أن يندم ندامةً لا يتمكَّن من استدراكها والخروج منها.
- AyatMeaning
- [2] ﴿ فَاِذَا بَلَ٘غْنَ اَجَلَهُنَّ﴾ یعنی جب طلاق یافتہ عورتیں عدت پوری کرنے کے قریب پہنچ جائیں کیونکہ اگر انھوں نے عدت پوری کر لی تو شوہر کے پاس مطلقہ کو روک رکھنے یا جدا کر دینے کا اختیار نہیں رہتا۔ ﴿ فَاَمْسِكُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ﴾ یعنی ضرر پہنچانے کے لیے یا برائی اور محض محبوس رکھنے کے ارادے سے نہیں بلکہ حسن معاشرت اور صحبت جمیلہ کے طور پر ان کو روک لو، کیونکہ برائی اور محبوس رکھنے کے ارادے سے مطلقہ کو روکے رکھنا جائز نہیں۔ ﴿ اَوْ فَارِقُوْهُنَّ بِمَعْرُوْفٍ﴾ یعنی اس طرح سے جدا کرنا کہ اس میں کوئی محذور امر نہ ہو، باہم گالی گلوچ اور لڑائی جھگڑے کے بغیر اور نہ مطلقہ کے مال میں سے کچھ لینے ہی کے لیے اس پر کوئی سختی ہو۔ ﴿ وَّاَشْهِدُوْا﴾ اور اس کی طلاق اور رجوع پر گواہ بنا لو ﴿ ذَوَیْ عَدْلٍ مِّؔنْكُمْ﴾ اپنے (مسلمانوں) میں سے دو عادل مردوں کو، کیونکہ مذکورہ گواہی میں مخاصمت کا اور ان دونوں کی طرف سے ایسے امور کے کتمان کا سدباب ہے جن کو بیان کرنا لازم ہے ﴿ وَاَ٘قِیْمُوا﴾ اے گواہو! ٹھیک ٹھیک ادا کرو۔ ﴿ الشَّهَادَةَ لِلّٰهِ ﴾’’گواہی اللہ کے لیے۔‘‘ یعنی کسی کمی بیشی کے بغیر گواہی کو اسی طرح ادا کرو جس طرح کہ وہ حقیقت میں ہے اور گواہی دینے میں صرف اللہ تعالیٰ کی رضا کو مدنظر رکھو اور گواہی میں کسی رشتہ دار کی، اس کی رشتہ داری اور کسی دوست کی، اس کی محبت کی وجہ سے رعایت نہ رکھو۔﴿ ذٰلِكُمْ﴾ ’’یہ‘‘ جو تمھارے سامنے احکام اور حدود بیان کی ہیں ﴿ یُوْعَظُ بِهٖ مَنْ كَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ﴾ ’’ان باتوں سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتا ہے۔‘‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ایمان، صاحب ایمان پر واجب ٹھہراتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے مواعظ سے نصیحت حاصل کرے اور جتنے بھی نیک اعمال ممکن ہیں ،اپنی آخرت کے لیے آگے بھیجے۔ اس شخص کے برعکس جس کے دل سے ایمان کوچ کر گیا، پس اسے کوئی پروا نہیں ہوتی کہ اس نے کیا برائی آگے بھیجی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے مواعظ کی تعظیم نہیں کرتا کیونکہ اس کا موجب معدوم ہے۔ چونکہ طلاق کبھی کبھی تنگی، کرب اور غم میں مبتلا کر دیتی ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے تقویٰ کا حکم دیا ہے اور اس شخص کے ساتھ، جو طلاق وغیرہ میں تقویٰ پر مبنی رویہ اختیار کرتا ہے، وعدہ کیا ہے کہ وہ اس کے لیے کشادگی اور (رنج و غم سے) نجات کی راہ نکالے گا۔پس جو کوئی طلاق کا ارادہ کرے تو وہ شرعی طریقے سے طلاق دے اور وہ یہ ہے کہ ایک ہی طلاق دے اور وہ حیض میں ہونہ ایسے طہر میں جس میں اس نے مطلقہ کے ساتھ مجامعت کی ہو، تو اس کے لیے معاملہ تنگی کا حامل نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ اس کے لیے فراخی اور وسعت پیدا کرتا ہے، جب اسے طلاق پر ندامت ہوتی ہے تو نکاح کے لیے مطلقہ کی طرف رجوع کرنا ممکن ہوتا ہے۔ آیت کریمہ اگرچہ طلاق اور رجوع کے سیاق میں ہے مگر اعتبار عمومِ لفظ کا ہے ،پس ہر وہ شخص جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اور اپنے احوال میں اس کی رضا کا التزام کرتا ہے، تو اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں اسے ثواب سے بہرہ مند کرتا ہے۔ منجملہ اس کا ثواب یہ ہے کہ وہ ہر قسم کی سختی اور مشقت میں سے اس کے لیے فراخی اور نجات کا راستہ پیدا کرتا ہے، جیسا کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے فراخی اور نجات کی راہ نکالتا ہے اور جو کوئی اس سے نہیں ڈرتا وہ بوجھ تلے اور بیڑیوں میں جکڑا ہوا پڑا رہتا ہے جن سے گلو خلاصی اور ان کے ضرر سے نکلنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ طلاق کے معاملے میں اس پر غور کیجیے کیونکہ جب بندہ طلاق کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا، بلکہ حرام کردہ طریقے سے طلاق دیتا ہے، مثلاً: یک بارگی تینوں طلاقیں دے دیناوغیرہ تو اسے ایسی پشیمانی ہو گی کہ جس کا تدارک کرنا اور اس سے نجات حاصل کرنا اس کے لیے ممکن نہ ہو گا۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [2]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF