Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
58
SuraName
تفسیر سورۂ مجادلہ
SegmentID
1574
SegmentHeader
AyatText
{8 ـ 9} النَّجْوى هي التناجي بين اثنين فأكثر، وقد تكون في الخير وتكونُ في الشرِّ، فأمر الله المؤمنين أنْ يَتَناجَوْا بالبرِّ، وهو اسمٌ جامعٌ لكلِّ خيرٍ وطاعةٍ وقيام بحقِّ الله وحقِّ عباده ، والتَّقوى، وهي هنا اسمٌ جامعٌ لترك جميع المحارم والمآثم؛ فالمؤمن يمتثل هذا الأمر الإلهيَّ؛ فلا تجده مناجياً ومتحدثاً إلاَّ بما يقرِّبه إلى الله ويباعده من سخطه، والفاجر يتهاونُ بأمر الله ويناجي بالإثم والعدوان ومعصية الرسول؛ كالمنافقين الذين هذا دأبهم وحالهم مع الرسول - صلى الله عليه وسلم -، قال تعالى: {وإذا جاؤوك حَيَّوْكَ بما لمْ يُحَيِّكَ به الله}؛ أي: يسيئون الأدب في تحيَّتهم لك، {ويقولونَ في أنفُسِهم}؛ أي: يسرُّون فيها ما ذكره عالم الغيب والشهادة عنهم، وهو قولهم: {لولا يُعَذِّبنا الله بما نقولُ}: ومعنى ذلك أنَّهم يتهاونون بذلك، ويستدلُّون بعدم تعجيل العقوبة عليهم أنَّ ما يقولونه غيرُ محذورٍ، قال تعالى في بيان أنَّه يمهِلُ ولا يهمِلُ: {حَسْبُهُم جهنَّمُ يَصْلَوْنها فبئس المصيرُ}؛ أي: تكفيهم جهنَّم التي جمعت كلَّ عذابٍ وشقاء عليهم، تحيط بهم ويعذَّبون بها؛ فبئس المصير. وهؤلاء المذكورون إما أناس من المنافقين، يظهِرون الإيمان ويخاطبون الرسول - صلى الله عليه وسلم - بهذا الخطاب الذي يوهمون أنَّهم أرادوا به خيراً، وهم كذبةٌ في ذلك، وإما أناسٌ من أهل الكتاب الذين إذا سلَّموا على رسول الله - صلى الله عليه وسلم -؛ قالوا: السام عليك يا محمد. يعنون: الموت.
AyatMeaning
[8، 9] ﴿ النَّجْوٰى﴾ دو یا دو سے زیادہ آدمیوں کا آپس میں سرگوشی کرنا ۔کبھی سرگوشی بھلائی کے معاملے میں ہوتی ہے اور کبھی برائی کے معاملے میں ہوتی ہے پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے اہل ایمان کو حکم دیا ہے کہ وہ نیکی کے معاملے میں سرگوشی کیا کریں۔(اَلْبِرُّ) نیکی اور اطاعت کے ہر کام اور حقوق اللہ اور حقوق العباد کے قیام کے لیے ایک جامع نام ہے۔ ﴿ التَّقْوٰى﴾ تمام محارم اور گناہ کے کاموں کو ترک کر دینے کے لیے جامع نام ہے پس بندۂ مومن اس حکم الٰہی کے سامنے سر تسلیم خم کر دیتا ہے، اس لیے آپ اسے صرف اسی چیز کے بارے میں سرگوشی کرتے ہوئے پائیں گے جو اللہ تعالیٰ کے قریب اور اس کی ناراضی سے دور کرتی ہے۔ (اَلْفَاجِر) اس شخص کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے حکم کو ہیچ اور حقیر سمجھتا ہے، جو گناہ، ظلم اور رسول کی نافرمانی کے لیے سرگوشی کرتا ہے، جیسے منافقین، جن کا رسول اللہ e کے ساتھ یہی حال اور وتیرہ تھا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَاِذَا جَآءُوْكَ حَیَّوْكَ بِمَا لَمْ یُحَیِّكَ بِهِ اللّٰهُ﴾ ’’اور جب وہ آپ کے پاس آتے ہیں تو آپ کو اس کلمے سے سلام کرتے ہیں جس کے ساتھ اللہ نے آپ کو سلام نہیں کیا۔‘‘ یعنی آپ کو سلام کرنے میں سوء ادبی کا مظاہرہ کرتے ہیں ﴿ وَیَقُوْلُوْنَ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ﴾ یعنی وہ اپنے دل میں ایک قول کو چھپاتے ہیں جس کا ذکر غیب و شہادت کا علم رکھنے والی ہستی نے کیا ہے اور وہ ان کا یہ قول ہے: ﴿ لَوْلَا یُعَذِّبُنَا اللّٰهُ بِمَا نَقُوْلُ﴾ ’’اللہ ہمیں اس پر جو ہم کہتے ہیں سزا کیوں نہیں دیتا۔‘‘ اور مطلب اس کا یہ ہے کہ وہ اس کو حقیر اور ہیچ سمجھتے ہیں، اور ان پر جلدی عذاب نہ آنے سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ وہ جو کچھ کہتے ہیں باطل نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا کہ وہ (مجرموں کو) مہلت دیتا ہے، مہمل نہیں چھوڑتا۔ ﴿ حَسْبُهُمْ جَهَنَّمُ١ۚ یَصْلَوْنَهَا١ۚ فَبِئْسَ الْمَصِیْرُ﴾ یعنی ان کے لیے جہنم کافی ہے، جس میں ان کے لیے ہر قسم کا عذاب اور بدبختی جمع ہے۔ جہنم ان کو گھیر لے گا اور جہنم میں ان کو عذاب دیا جائے گا۔ ﴿ فَبِئْسَ الْمَصِیْرُ﴾ ’’پس وہ بہت بری لوٹنے کی جگہ ہے۔‘‘ یہ لوگ جن کا (ان آیا ت کریمہ میں)ذکر کیا گیا ہے، یا تو منافقین میں سے کچھ ایسے لوگ تھے جو ایمان ظاہر کرتے تھے اور رسول اللہ e سے اس خطاب کے ذریعے سے مخاطب ہوتے تھے، جس سے وہ یہ ظاہر کرتے تھے کہ اس خطاب سے ان کا ارادہ بھلائی ہے حالانکہ وہ اس بارے میں جھوٹے تھے۔ یا اہل کتاب میں سے وہ لوگ تھے جو رسول اللہ e کو سلام کرتے ہوئے کہا کرتے تھے۔ (السَّامُ عَلَیْکَ یَامُحَمَّدُ)اور وہ اس سے موت مراد لیتے تھے۔
Vocabulary
AyatSummary
[8،
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List