Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 2
- SuraName
- تفسیر سورۂ بقرۃ
- SegmentID
- 151
- SegmentHeader
- AyatText
- {275} لما ذكر الله حالة المنفقين وما لهم من الله من الخيرات وما يكفر عنهم من الذنوب والخطيئات ذكر الظالمين أهل الربا والمعاملات الخبيثة، وأخبر أنهم يجازون بحسب أعمالهم، فكما كانوا في الدنيا في طلب المكاسب الخبيثة كالمجانين عوقبوا في البرزخ والقيامة أنهم لا يقومون من قبورهم إلى يوم بعثهم ونشورهم {إلا كما يقوم الذي يتخبطه الشيطان من المس}؛ أي: من الجنون والصرع وذلك عقوبة وخزي وفضيحة لهم وجزاء لهم على مراباتهم ومجاهرتهم بقولهم: {إنما البيع مثل الربا}؛ فجمعوا ـ بجراءتهم ـ بين ما أحل الله وبين ما حرم الله واستباحوا بذلك الربا. ثم عرض تعالى التوبة على المرابين وغيرهم فقال: {فمن جاءه موعظة من ربه}؛ بيان مقرون به الوعد والوعيد {فانتهى}؛ عما كان يتعاطاه من الربا {فله ما سلف}؛ مما تجرأ عليه وتاب منه {وأمره إلى الله}؛ فيما يستقبل من زمانه فإن استمر على توبته، فالله لا يضيع أجر المحسنين. {ومن عاد}؛ بعد بيان الله وتذكيره وتوعده لأكل الربا {فأولئك أصحاب النار هم فيها خالدون}؛ في هذا أن الربا موجب لدخول النار والخلود فيها، وذلك لشناعته ما لم يمنع من الخلود مانع الإيمان، وهذا من جملة الأحكام التي تتوقف على وجود شروطها وانتفاء موانعها؛ وليس فيها حجة للخوارج كغيرها من آيات الوعيد، فالواجب أن تصدق جميع نصوص الكتاب والسنة فيؤمن العبد بما تواترت به النصوص من خروج من في قلبه أدنى مثقالِ حبة خردل من الإيمان من النار، ومن استحقاق هذه الموبقات لدخول النار إن لم يتب منها.
- AyatMeaning
- [275] ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے سود خوروں کا انجام بد بیان فرمایا ہے۔ وہ قیامت کے دن قبروں سے اٹھیں گے ﴿ كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّ٘یْطٰ٘نُ مِنَ الْ٘مَسِّ ﴾ تو ان کی حالت یہ ہوگی گویا انھیں شیطان نے پاگل بنا دیا ہے۔ یہ لوگ قبروں سے اٹھیں گے تو حیران پریشان ہوں گے۔ انھیں سخت سزا ملنے کا یقین ہوگا۔ ﴿ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْ٘بَیْعُ مِثْ٘لُ الرِّبٰؔوا ﴾ انھوں نے کہا تھا: ’’تجارت بھی تو سود ہی کی طرح ہے۔‘‘ یہ بات کوئی ایسا جاہل ہی کہہ سکتا ہے جو جہالت کے انتہائی درجے تک پہنچا ہوا ہو یا دین کا انتہائی دشمن کہہ سکتا ہے۔ جس طرح ان کی عقلیں اوندھی ہوگئی تھیں تو اس کابدلہ بھی یہ ملے گا کہ ان کی حالت پاگلوں کے مشابہ ہوگی۔ آیت مبارکہ کے اس حصے کی تشریح اس طرح بھی کی جاسکتی ہے کہ چونکہ سود کی کمائی کے حصول میں ان کی عقلیں سلب ہوگئیں، اس لیے وہ احمق بن گئے اور ان کی حرکات پاگلوں کے مشابہ ہو گئیں۔ جو بے سروپا ہوتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے اور عظیم حکمت کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: ﴿وَاَحَلَّ اللّٰهُ الْ٘بَیْعَ ﴾ ’’اور اللہ نے تجارت کو حلال کیا‘‘ کیونکہ اس میں سب کا فائدہ ہے، سب کو اس کی ضرورت ہے اور اسے حرام قرار دینے میں نقصان ہے۔ اور حصول رزق سے تعلق رکھنے والے کاموں میں یہ ایک عظیم اصل ہے۔ اس سے صرف وہی تصرفات مستثنیٰ ہوں گے جن سے صاف طورپر منع کردیا گیا ہے۔ ﴿ وَحَرَّمَ الرِّبٰؔوا ﴾ ’’اور سود کو حرام کیا۔‘‘ کیونکہ یہ ظلم پرمبنی ہے اور اس کاانجام برا ہے۔ سود کی دو قسمیں ہیں: (۱) ربا نسیۂ مثلاً سودی چیز کا اس کی علت میں شریک چیز کے عوض ادھار تبادلہ۔ اور اس کی صورت یہ بھی ہے کہ واجب الادا رقم کو رأس المال کا نام دے کر بیع سلم کر لی جائے۔ (۲) ربا الفضل: کسی ایسی چیز کو جس میں سود ہوسکتا ہے، اس کی ہم جنس چیز کے عوض اضافے کے ساتھ بیچنا، دونوں کی حرمت پر قرآن و حدیث کے دلائل موجود ہیں۔ اور ربانسیۂ کی حرمت پر اجماع بھی ہے۔ جس نے ربا الفضل کو جائز قرار دیا ہے اس کا قول شاذ ہے جو بکثرت نصوص کے خلاف ہے بلکہ سود تباہ کن کبیرہ گناہوں میں شامل ہے۔ ﴿ فَ٘مَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ ﴾ ’’جس شخص کے پاس اللہ کی نصیحت آئی۔‘‘ یعنی اللہ نے کسی کو توفیق دی کہ اسے نصیحت کرے، جو اس کے لیے رحمت کا باعث ہے اور اس کی وجہ سے اس پر حجت قائم ہوگئی۔ ﴿ فَانْ٘تَ٘هٰى ﴾ پس اس کے ڈرانے سے وہ سود لینے سے باز آگیا۔ اس گناہ سے رک گیا تو ﴿ فَلَهٗ مَا سَلَفَ ﴾ ’’اس کے لیے ہے جو گزرا۔‘‘ یعنی یہ نصیحت کی بات پہنچنے سے پہلے اس نے جو غلط لین دین کیا وہ معاف ہوجائے گا۔ یہ نصیحت قبول کرنے کی جزا ہے۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ جو باز نہیں آئے گا، اسے پہلے اور پچھلے دونوں گناہوں کی سزا ملے گی۔ ﴿ وَاَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِ ﴾ ’’اور اس کا معاملہ اللہ کی طرف ہے۔‘‘ یعنی اسے سزا دینا اور مستقبل میں اس کے عمل دیکھنا اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ ﴿ وَمَنْ عَادَ ﴾ ’’اور جس نے پھر بھی کیا‘‘ دوبارہ سود لیا، نصیحت سے فائدہ نہیں اٹھایا بلکہ سود خوری پر اصرار کیا ﴿ فَاُولٰٓىِٕكَ اَصْحٰؔبُ النَّارِ١ۚ هُمْ فِیْهَا خٰؔلِدُوْنَ ﴾ ’’تو وہ جہنمی ہیں۔ ایسے لوگ ہمیشہ اس میں رہیں گے۔‘‘ شرک کے علاوہ جن گناہوں کے بارے میں قرآن و حدیث میں دوزخ میں ہمیشہ رہنے کی سزا مذکور ہے۔ ان کے بارے میں علماء کے مختلف اقوال ہیں۔ زیادہ بہتر قول یہ ہے کہ جن اعمال کا نتیجہ اللہ نے دائمی جہنم مقرر کیاہے یہ اس کا سبب ہیں۔ لیکن سبب کے ساتھ اگر کوئی مانع نہ ہو تو نتیجہ ضرور ظاہر ہوا کرتا ہے۔ قرآن و حدیث اور اجماع سے ثابت ہے کہ توحید اور ایمان جہنم میں ہمیشہ رہنے سے مانع ہیں۔ یعنی یہ عمل ایسا ہے کہ اگر بندہ توحید کا حامل نہ ہوتا تو یہی عمل اسے جہنم میں ہمیشہ رکھنے کا باعث بن سکتا تھا۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [275
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF