Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 33
- SuraName
- تفسیر سورۂ اَحزاب
- SegmentID
- 1206
- SegmentHeader
- AyatText
- {4} يعاتِبُ تعالى عبادَه عن التكلُّم بما لا حقيقةَ له من الأقوال، ولم يجعلْه الله تعالى كما قالوا؛ فإنَّ ذلك القول منكم كذبٌ وزورٌ يترتَّب عليه منكراتٌ من الشرع، وهذه قاعدةٌ عامةٌ في التكلُّم في كلِّ شيء والإخبار بوقوع ووجود ما لَمْ يَجْعَلْه الله تعالى، ولكن خصَّ هذه الأشياء المذكورة لوقوعها وشدة الحاجة إلى بيانها، فقال: {ما جَعَلَ الله لرجل مِن قَلْبَيْنِ في جَوْفِهِ}: هذا لا يوجد؛ فإيَّاكم أن تقولوا عن أحدٍ: إنَّ له قلبينِ في جوفه، فتكونوا كاذبين على الخلقة الإلهية، {وما جعل أزواجَكم اللاَّئي تظاهِرون منهنَّ}: بأن يقولَ أحدكم لزوجتِهِ أنتِ عليَّ كظهر أمي أو كأمي؛ فما جعلهنَّ الله {أمَّهاتِكم}: أمُّك مَنْ وَلَدَتْكَ وصارتْ أعظم النساءِ عليك حرمةً وتحريماً، وزوجتُك أحلُّ النساء لك؛ فكيف تشبِّه أحد المتناقضين بالآخر؟! هذا أمرٌ لا يجوز؛ كما قال تعالى: {الذين يُظاهِرون منكم مِن نسائِهِم ما هنَّ أمَّهاتِهم إنْ أمهاتُهم إلا اللاَّئي وَلَدْنَهُمْ وإنَّهم ليقولون مُنكراً من القول وزوراً}. {وما جَعَلَ أدْعِياءَكم أبناءَكم}: والأدعياء: الولد الذي كان الرجل يدَّعيه وهو ليس له، أو يُدعى إليه بسبب تبنِّيه إيَّاه؛ كما كان الأمر في الجاهلية وأول الإسلام، فأراد الله تعالى أن يُبْطِلَه ويزيلَه، فقدَّم بين يدي ذلك بيانَ قُبحه، وأنَّه باطلٌ وكذبٌ، وكل باطلٍ وكذبٍ لا يوجد في شرع الله ولا يتَّصف به عبادُ الله، يقول تعالى: فالله لم يجعل الأدعياءَ الذين تَدَّعونَهم أو يُدعونَ إليكم أبناءكم؛ فإنَّ أبناءكم في الحقيقة مَنْ وَلَدْتُموهم وكانوا منكم، وأمَّا هؤلاء الأدعياء من غيركم؛ فلا جعل الله هذا كهذا، {ذلكم}: القول الذي تقولون في الدَّعِيِّ: إنَّه ابنُ فلان الذي ادَّعاه، أو والده فلان، {قولُكم بأفواهِكم}؛ أي: قولٌ لا حقيقةَ له ولا معنى له، {واللهُ يقولُ الحقَّ}؛ أي: اليقين والصدق؛ فلذلك أمركم باتِّباعه على قوله وشرعِهِ؛ فقولُه حقٌّ، وشرعُهُ حقٌّ، والأقوال والأفعال الباطلة لا تُنسب إليه بوجه من الوجوه، وليست من هدايته؛ لأنه لا يَهْدي إلاَّ إلى السبيل المستقيمة والطرق الصادقة، وإنْ كان ذلك واقعاً بمشيئتِهِ؛ فمشيئته عامَّةٌ لكلِّ ما وجد من خيرٍ وشرٍّ.
- AyatMeaning
- [4] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے بندوں پر عتاب کرتے ہوئے فرمایا کہ وہ ایسے امور میں گفتگو نہ کریں جن کی کوئی حقیقت نہیں اور جن کو اللہ تعالیٰ نے مقرر نہیں فرمایا جیسا کہ وہ کہتے ہیں۔ یہ ان کی اپنی بات ہے جو جھوٹ اور باطل ہے، جس پر شرعی برائیاں مرتب ہوتی ہیں۔ یہ ہر معاملے میں گفتگو کرنے اور کسی چیز کے وقوع و وجود کے بارے میں، جسے اللہ تعالیٰ نے نہ کیا ہو، خبر دینے میں ایک عام قاعدہ ہے، مگر مذکورہ چیزوں کو ان کے کثرت و قوع اور ان کو بیان کرنے کی حاجت کی بنا پر مخصوص کیا ہے ، چنانچہ فرمایا: ﴿مَا جَعَلَ اللّٰهُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِهٖ﴾ ’’اللہ نے کسی آدمی کے پہلو میں دو دل نہیں بنائے‘‘ یہ صورت کبھی نہیں پائی جاتی۔ پس کسی کے بارے میں یہ کہنے سے بچو کہ اس کے پہلو میں دو دل ہیں ورنہ تم تخلیق الٰہی کے بارے میں جھوٹ کے مرتکب بنو گے۔ ﴿وَمَا جَعَلَ اَزْوَاجَكُمُ الّٰٓـِٔيْ تُ٘ظٰهِرُوْنَ ﴾ ’’اور (اللہ نے) نہیں بنایا تمھاری عورتوں کو جن سے تم ظہار کرلیتے ہو‘‘ یعنی تم میں سے کسی شخص کا اپنی بیوی سے یہ کہنا: ’’تو میرے لیے ایسے ہے جیسے میری ماں کی پیٹھ یا، جیسے میری ماں‘‘ تو نہیں بنایا اللہ تعالیٰ نے انھیں ﴿اُمَّهٰؔتِكُمْ ﴾ ’’تمھاری مائیں‘‘ تیری ماں تو وہ ہے جس نے تجھے جنم دیا، جو تیرے لیے تمام عورتوں سے بڑھ کر حرمت و تحریم کی حامل ہے اور تیری بیوی تیرے لیے سب سے زیادہ حلال عورت ہے، تب تو دو متناقض امور کو کیسے ایک دوسرے کے مشابہ قرار دے رہا ہے جبکہ یہ ہرگز جائز نہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿اَلَّذِیْنَ یُظٰهِرُوْنَ مِنْكُمْ مِّنْ نِّسَآىِٕهِمْ مَّا هُنَّ اُمَّهٰتِهِمْ١ؕ اِنْ اُمَّهٰتُهُمْ اِلَّا الّٰٓـِٔيْ وَلَدْنَهُمْ١ؕ وَاِنَّهُمْ لَیَقُوْلُوْنَ مُنْؔكَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُوْرًا ؔ﴾ (المجادلۃ:58؍2) ’’تم میں سے جو لوگ اپنی بیوی کو ماں کہہ دیتے ہیں، وہ اس طرح ان کی مائیں نہیں بن جاتیں ان کی مائیں تو وہی ہیں جنھوں نے ان کو جنم دیا، بلاشبہ وہ ایک جھوٹی اور بری بات کہتے ہیں۔‘‘ ﴿وَمَا جَعَلَ اَدْعِیَآءَكُمْ۠ اَبْنَآءَكُمْ﴾ ’’اور تمھاری لے پالکوں کو تمھارے بیٹے نہیں بنایا۔‘‘ (اَدْعِیَاء) اس لڑکے کو کہتے ہیں جس کے بارے میں کوئی شخص اپنا بیٹا ہونے کا دعویٰ کرے مگر وہ اس کا بیٹا نہ ہو یا اسے متبنیٰ ہونے کی وجہ سے بیٹا کہا جائے۔ جیسا کہ ایام جاہلیت اور اسلام کی ابتدا میں یہ رواج موجود تھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس رواج کو ختم کرنے کا ارادہ فرمایا، چنانچہ اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے اس رواج کی برائی بیان کی اور واضح کیا کہ یہ باطل اور جھوٹ ہے۔ باطل اور جھوٹ کا اللہ تعالیٰ کی شریعت سے کوئی تعلق نہیں اور نہ اللہ تعالیٰ کے بندے اس سے متصف ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس نے تمھارے منہ بولے بیٹوں کو، جن کو تم بیٹا کہتے ہو یا وہ تمھارا بیٹا ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں،تمھارا بیٹا نہیں بنایا۔ حقیقت میں تمھارے بیٹے وہ ہیں جو تم میں سے ہیں اور جن کو تم نے جنم دیا ہے اور رہے دوسرے لوگ جن کے بارے میں تم اپنے بیٹے ہونے کا دعویٰ کرتے ہو وہ تمھارے حقیقی بیٹوں کی مانند نہیں ہیں۔ ﴿ذٰلِكُمْ ﴾ یہ بات جو تم منہ بولے بیٹوں کے بارے میں کہتے ہو کہ یہ فلاں کا بیٹا ہے، اس شخص کے لیے جو اس کے بیٹا ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، یا اس کا باپ فلاں ہے ﴿قَوْلُكُمْ بِاَفْوَاهِكُمْ ﴾ ’’تمھارے منہ کی باتیں ہیں۔‘‘ یعنی یہ ایسی بات ہے کہ جس کی کوئی حقیقت ہے نہ معنی۔ ﴿وَاللّٰهُ یَقُوْلُ الْحَقَّ﴾ ’’اور اللہ حق بات کہتا ہے۔‘‘ یعنی جو صداقت اور یقین پر مبنی ہے اس لیے اس نے تمھیں اس کی اتباع کا حکم دیا ہے۔ اس کا قول حق اور اس کی شریعت حق ہے، تمام باطل اقوال و افعال کسی بھی لحاظ سے اس کی طرف منسوب نہیں کیے جاسکتے اور نہ اس کی ہدایت سے ان کا کوئی تعلق ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ تو صرف صراط مستقیم اور صدق کے طریقوں کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔ اگر یہ اس کی مشیت کے مطابق واقع ہوا ہے تو اس کی مشیت اس کائنات میں جو بھی خیروشر موجود ہے، سب کے لیے عام ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [4]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF