Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 30
- SuraName
- تفسیر سورۂ روم
- SegmentID
- 1171
- SegmentHeader
- AyatText
- {38} أي: فأعطِ القريب منك ـ على حسب قربِهِ وحاجتِهِ ـ حقَّه الذي أوجبه الشارع أو حضَّ عليه من النفقةِ الواجبة والصدقةِ والهديَّة والبرِّ والسلام والإكرام والعفوِ عن زلَّته والمسامحة عن هفوتِهِ، وكذلك آتِ المسكين الذي أسْكَنَهُ الفقرُ والحاجةُ ما تُزيل به حاجَتَه وتدفعُ به ضرورتَه من إطعامه وسقيه وكسوتِهِ. {وابنَ السبيل}: الغريب المنقطع به في غير بلدِهِ، الذي في مظنَّة شدَّة الحاجة، وأنَّه لا مال معه ولا كسب قد دَبّر نفسَه به في سفره؛ بخلاف الذي في بلده؛ فإنَّه وإن لم يكن له مالٌ، لكن لا بدَّ في الغالب أن يكونَ في حرفةٍ أو صناعةٍ ونحوها تسدُّ حاجته، ولهذا جعل الله في الزَّكاة حصةً للمسكين وابن السبيل. {ذلك}؛ أي: إيتاء ذي القربى والمسكين وابن السبيل: {خيرٌ للذين يريدون}: بذلك العمل {وَجْهَ الله}؛ أي: خير غزيرٌ وثوابٌ كثيرٌ؛ لأنَّه من أفضل الأعمال الصالحة، والنفعُ المتعدِّي الذي وافق محلَّه المَقْرونُ به الإخلاص؛ فإن لم يُرَدْ به وجهُ الله؛ لم يكن خيراً للمعطي، وإن كان خيراً ونفعاً للمعطى؛ كما قال تعالى: {لا خيرَ في كثير مِن نَجْواهم إلاَّ مَنْ أمر بصدقةٍ أو معروفٍ أو إصلاح بينَ الناس}: مفهومُها أنَّ هذه المستثنيات خيرٌ؛ لنفعها المتعدِّي، ولكن مَنْ يفعلُ ذلك ابتغاء مرضاة الله؛ فسوف نؤتيه أجراً عظيماً، وقوله: {وأولئك}: الذين عملوا هذه الأعمالَ وغيرَها لوجه الله، {هم المفلحون}: الفائزونَ بثواب الله الناجون من عقابه.
- AyatMeaning
- [38] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنے قرابت دار کو اس کی قرابت اور ضرورت کے مطابق اس کا حق ادا کرو جو شارع نے واجب قرار دیا ہے یا اس کی ترغیب دی ہے ، مثلاً: نفقات واجبہ اور صدقات کی ادائیگی کرنا، ہدیہ دینا، نیک سلوک کرنا، سلام کرنا، عزت و تکریم کرنا، دوسرے کی لغزش کو معاف کرنا اور اس کی بدکلامی پر رواداری سے کام لینا۔ اسی طرح مسکین کو، جسے فقر و فاقہ نے لاچار کر دیا ہو، اتنا عطا کرنا جس سے اس کے کھانے پینے اور لباس کی ضرورت پوری ہو جائے۔ ﴿وَابْنَ السَّبِیْلِ ﴾ وہ غریب الوطن مسافر جس کا زادِ راہ ختم ہو گیا ہو، اپنے شہر سے دور ہو جس کے بارے میں شدید گمان ہو کہ وہ انتہائی ضرورت مند ہو گا اس کے پاس مال ہے نہ ہاتھ میں کوئی کسب جس کے ذریعے سے وہ دوران سفر اپنی ضروریات کا انتظام کر سکتا ہو۔ برعکس اس شخص کے جو اپنے شہر میں رہتا ہے اگر اس کے پاس مال نہ ہو تو غالب حالات میں اس کے بارے میں یہ گمان ہوتا ہے کہ وہ کسی صنعت و حرفت کا کام کرتا ہو گا جس سے اس کی ضرورت پوری ہو جاتی ہو گی۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے زکاۃ میں مسکین اور مسافر کا (الگ الگ) حصہ رکھا ہے۔ ﴿ذٰلِكَ ﴾ ’’یہ‘‘ یعنی قرابت داروں، مساکین اور مسافروں کو عطا کرنا ﴿خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ ﴾ ’’ان لوگوں کے لیے بہتر ہے جو چاہتے ہیں‘‘ اس عمل کے ذریعے سے ﴿وَجْهَ اللّٰهِ ﴾ ’’اللہ کا چہرہ‘‘ یعنی بے شمار بھلائی اور ثواب کثیر کیونکہ یہ بہترین اعمال ہیں، ان کا فائدہ دوسروں تک پہنچتا ہے بشرطیکہ موقع و محل کے مطابق اور اخلاص سے مقرون ہوں۔ اگر اس سے اللہ تعالیٰ کی رضا مقصود نہ ہو تو عطا کرنے والے کے لیے کوئی بھلائی نہیں خواہ اس شخص کو اس سے کتنا ہی فائدہ کیوں نہ پہنچا ہو جسے عطا کیا گیا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ﴿لَا خَیْرَ فِیْ كَثِیْرٍ مِّنْ نَّجْوٰىهُمْ اِلَّا مَنْ اَمَرَ بِصَدَقَةٍ اَوْ مَعْرُوْفٍ اَوْ اِصْلَاحٍۭ بَیْنَ النَّاسِ ﴾ (النساء:4؍114) ’’ان لوگوں کے بہت سے مشوروں میں کوئی بھلائی نہیں، سوائے اس کے کہ صدقہ کا حکم دیا ہو یا نیکی کا یا لوگوں کے درمیان صلح کروائی ہو۔‘‘ اس آیت کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ ان کاموں میں بھلائی ہے کیونکہ اس کا فائدہ دوسروں تک پہنچتا ہے، مگر جو کوئی اللہ تعالیٰ کی رضاجوئی کے لیے یہ کام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ عنقریب اسے اجر عظیم عطا کرے گا۔ فرمایا: ﴿وَاُولٰٓىِٕكَ ﴾ یعنی وہ لوگ جو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر یہ اعمال بجا لاتے ہیں ﴿هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ﴾ ’’وہی فلاح پانے والے ہیں۔‘‘ جو اللہ تعالیٰ کے ثواب سے فیض یاب اور اس کے عذاب سے نجات یافتہ ہیں۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [38]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF