Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
29
SuraName
تفسیر سورۂ عنکبوت
SegmentID
1142
SegmentHeader
AyatText
{26} أي: لم يزلْ إبراهيمُ عليه الصلاة والسلام يَدْعو قومَه، وهم مستمرُّون على عنادهم؛ إلاَّ أنَّه آمن له بدعوته لوطٌ الذي نبَّأه الله وأرسله إلى قومِهِ كما سيأتي ذِكْره، {وقال}: إبراهيمُ حين رأى أنَّ دعوةَ قومِهِ لا تفيدُهم شيئاً: {إنِّي مهاجرٌ إلى ربِّي}؛ أي: هاجِرٌ أرضَ السوء، ومهاجِرٌ إلى الأرض المباركة، وهي الشام. {إنَّه هو العزيزُ}؛ أي: الذي له القوَّة، وهو يقدِرُ على هدايتكم، ولكنَّه حكيمٌ، ما اقتضت حكمتُه ذلك. ولمَّا اعتزلهم وفارَقَهم وهم بحالِهِم؛ لم يذكرِ الله عنهم أنَّه أهلكهم بعذابٍ، بل ذَكَرَ اعتزالَه إيَّاهم وهجرتَه من بين أظهُرِهم، فأمَّا ما يُذْكَرُ في الإسرائيلياتِ أنَّ الله تعالى فتح على قومِهِ باب البعوض، فشرب دِماءَهم، وأكل لحومَهم، وأتْلَفَهم عن آخرهم؛ فهذا يتوقَّفُ الجزم به على الدليل الشرعيِّ، ولم يوجدْ؛ فلو كان اللَّه استأصَلَهم بالعذاب؛ لَذَكَرَه كما ذَكَرَ إهلاكَ الأمم المكذِّبة، ولكن هل من أسرار ذلك أن الخليل عليه السلام من أرحم الخلق وأفضلهم وأحلمهم وأجلِّهم؛ فلم يَدْعُ على قومِهِ كما دعا غيرُه، ولم يكن اللهُ لِيَجْزِيَ بسببه عذاباً عامًّا؟ ومما يدلُّ على ذلك أنَّه راجع الملائكة في إهلاك قوم لوط، وجادَلَهم، ودافَعَ عنهم، وهم ليسوا قومَه. والله أعلم بالحال.
AyatMeaning
[26] ابراہیمu اپنی قوم کو دعوت دیتے رہے اور ان کی قوم اپنے عناد پر جمی رہی۔ سوائے لوطu کے جو ابراہیمu کی دعوت پر ایمان لے آئے اللہ تعالیٰ نے لوطu کو نبوت سے سرفراز فرما کر ان کی قوم کی طرف مبعوث فرمایا۔ جس کا ذکر عنقریب آئے گا۔ ﴿ وَقَالَ ﴾ جب ابراہیمu نے دیکھا کہ ان کی دعوت کچھ فائدہ نہیں دے رہی تو کہنے لگے ﴿ اِنِّیْ مُهَاجِرٌ اِلٰى رَبِّیْ ﴾ ’’میں اپنے رب کی طرف ہجرت کرنے والا ہوں ۔‘‘ یعنی وہ برے خطۂ ارض کو چھوڑ کر بابرکت سرزمین کی طرف نکل گئے … اس سے مراد ملک شام ہے۔ ﴿ اِنَّهٗ هُوَ الْ٘عَزِیْزُ ﴾ ’’بے شک وہ بڑا ہی غالب ہے۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ جو قوت کا مالک ہے تمھیں ہدایت دینے پر قادر ہے لیکن وہ حکمت والا ہے‘‘ اور اس کی حکمت ایسا کرنے کی مقتضی نہیں ۔ جب ابراہیمu اپنی قوم کو اسی حال میں چھوڑ کر چلے گئے تو اللہ تعالیٰ نے یہ ذکر نہیں فرمایا کہ اس نے ان کو ہلاک کر دیا تھا بلکہ صرف یہ ذکر فرمایا کہ آپ وہاں سے ہجرت کر گئے ور اپنی قوم کو چھوڑ کر چلے گئے۔ رہا وہ قصہ جو اسرائیلیات میں بیان کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ابراہیمu کی قوم پر مچھروں کا دروازہ کھول دیا۔ وہ ان کا خون پی گئے، گوشت کھا گئے اور ان کے آخری آدمی تک کو ہلاک کر ڈالا اس بارے میں حتمی رائے قائم کرنے کے لیے دلیل پر توقف کرنا چاہیے جو کہ موجود نہیں ہے۔ اگر اللہ تعالیٰ نے عذاب کے ذریعے سے ان کو تہس نہس کیا ہوتا تو ضرور اس کا ذکر فرماتا جیسے دیگر جھٹلانے والی امتوں کی ہلاکت کا ذکر فرمایا ہے۔ مگر کیا اس قصہ کا یہ راز تو نہیں کہ حضرت خلیلu مخلوق میں سب سے زیادہ رحیم و شفیق، سب سے زیادہ افضل، سب سے زیادہ حلیم اور سب سے زیادہ جلیل القدر لوگوں میں سے تھے۔ آپ نے کبھی اپنی قوم کے لیے بددعا نہیں کی جیسے دیگر بعض انبیائے کرام نے بددعا کی اور نہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے سبب آپ کی قوم پر عذاب نازل فرمایا… اس موقف پر یہ واقعہ بھی دلالت کرتا ہے کہ جب فرشتے قوم لوط کو ہلاک کرنے کے لیے آپ کے پاس آئے تو آپ نے قوم لوط کی مدافعت کے لیے ان فرشتوں سے جھگڑا کیا حالانکہ وہ آپ کی قوم نہ تھی۔ اصل صورت حال کو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتا ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[26]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List