Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 2
- SuraName
- تفسیر سورۂ بقرۃ
- SegmentID
- 125
- SegmentHeader
- AyatText
- {233} هذا خبر بمعنى الأمر تنزيلاً له منزلة المتقرر الذي لا يحتاج إلى أمر بأن {يرضعن أولادهن حولين}؛ ولما كان الحول يطلق على الكامل وعلى معظم الحول قال: {كاملين لمن أراد أن يتم الرضاعة}؛ فإذا تم للرضيع حولان فقد تم رضاعه وصار اللبن بعد ذلك بمنزلة سائر الأغذية، فلهذا كان الرضاع بعد الحولين غير معتبر لا يُحَرِّم. ويؤخذ من هذا النص ومن قوله تعالى: {وحمله وفصاله ثلاثون شهراً}؛ أن أقل مدة الحمل ستة أشهر وأنه يمكن وجود الولد بها {وعلى المولود له}؛ أي: الأب، {رزقهن وكسوتهن بالمعروف}؛ وهذا شامل لما إذا كانت في حباله أو مطلقة، فإن على الأب رزقها؛ أي: نفقتها وكسوتها وهي الأجرة للرضاع، ودل هذا على أنها إذا كانت في حباله لا يجب لها أجرة غير النفقة والكسوة وكل بحسب حاله، فلهذا قال: {لا تكلف نفس إلا وسعها}؛ فلا يكلف الفقير أن ينفق نفقة الغني ولا من لم يجد شيئاً بالنفقة حتى يجد {لا تضار والدة بولدها ولا مولود له بولده}؛ أي: لا يحل أن تضار الوالدة بسبب ولدها، إما أن تمنع من إرضاعه أو لا تعطى ما يجب لها من النفقة والكسوة أو الأجرة {ولا مولود له بولده}؛ بأن تمتنع من إرضاعه على وجه المضارة [له] أو تطلب زيادة عن الواجب ونحو ذلك من أنواع الضرر، ودل قوله: {مولود له}؛ أن الولد لأبيه لأنه موهوب له ولأنه من كسبه، فلذلك جاز له الأخذ من ماله رضيَ أو لم يرضَ، بخلاف الأم. وقوله: {وعلى الوارث مثل ذلك}؛ أي: على وارث الطفل إذا عدم الأب، وكان الطفل ليس له مال مثل ما على الأب من النفقة للمرضع والكسوة، فدل على وجوب نفقة الأقارب المعسرين على القريب الوارث الموسر، {فإن أرادا}؛ أي: الأبوان، {فصالاً}؛ أي: فطام الصبي قبل الحولين، {عن تراضٍ منهما}؛ بأن يكونا راضيين، {وتشاور}؛ فيما بينهما هل هو مصلحة للصبي أم لا؟ فإن كان مصلحة ورضيا {فلا جناح عليهما}؛ في فطامه قبل الحولين، فدلت الآية بمفهومها على أنه إن رضي أحدهما دون الآخر أو لم يكن مصلحة للطفل أنه لا يجوز فطامه. وقوله: {وإن أردتم أن تسترضعوا أولادكم}؛ أي: تطلبوا لهم المراضع غير أمهاتهم على غير وجه المضارة، {فلا جناح عليكم إذا سلمتم ما آتيتم بالمعروف}؛ أي: للمرضعات، {والله بما تعملون بصير}؛ فمجازيكم على ذلك بالخير والشر.
- AyatMeaning
- [233] یہ خبر، امر کے معنی میں ہے گویا یہ امر متحقق ہے جو کسی حکم کا محتاج نہیں، وہ یہ کہ مائیں ﴿ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَهُنَّ حَوْلَیْ٘نِ ﴾ ’’اپنی اولاد کو پورے دو سال دودھ پلائیں۔‘‘ چونکہ (حَوْل) کا لفظ سال یا سال کے بڑے حصے کے لیے بولا جاتا ہے اس لیے فرمایا: ﴿ كَامِلَیْ٘نِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَةَ ﴾ ’’پورے دو سال، اس شخص کے لیے جو دودھ پلانے کی مدت پوری کرنی چاہے‘‘ پس جب دودھ پیتے بچے کے دو سال مکمل ہو جائیں تو اس کی رضاعت مکمل ہو جاتی ہے۔ اس کے بعد ماں کا دودھ دیگر غذاؤں کی مانند ہو جاتا ہے۔ اسی لیے دو سال کے بعد کی رضاعت معتبر نہیں اور اس سے حرمت ثابت نہیں ہوتی۔ اس نص اور اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ وَحَمْلُهٗ وَفِصٰلُهٗ ثَلٰ٘ثُوْنَ شَ٘هْرًا ﴾ (الاحقاف:46؍15) ’’اس کو پیٹ میں اٹھائے رکھنا اور اس کا دودھ چھڑانا تیس مہینوں میں ہوتا ہے۔‘‘ کو ملا کر یہ فقہی مسئلہ اخذ کیا گیا ہے کہ حمل کی کم سے کم مدت چھ ماہ ہے۔ اس مدت میں بچے کا پیدا ہوناممکن ہے۔ ﴿ وَعَلَى الْمَوْلُوْدِ لَهٗ ﴾ ’’اور بچے کے باپ پر‘‘ ﴿ رِزْقُ٘هُنَّ وَؔ كِسْوَتُ٘هُنَّ بِالْ٘مَعْرُوْفِ ﴾ ’’ان کا رزق اور ان کا لباس ہے، معروف کے ساتھ‘‘ اور یہ حکم دودھ پلانے والی خواہ اس کے نکاح میں ہو یا مطلقہ، دونوں کو شامل ہے۔ مولود (بچے) کے باپ پر اس عورت کا نان و نفقہ اور لباس واجب ہے اور یہ دودھ پلانے کی اجرت ہے۔ یہ آیت کریمہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ جب تک عورت مرد کے نکاح میں ہے اس وقت تک عورت کو رضاعت کی اجرت دینا واجب نہیں، سوائے نان و نفقہ اور لباس کے۔ نان و نفقہ اور لباس بھی مرد کے حسب حال اور حیثیت کے مطابق ہے۔ بنا بریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ لَا تُكَلَّفُ نَفْ٘سٌ اِلَّا وُسْعَهَا ﴾ ’’کسی جان کو اس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہ دی جائے‘‘ یعنی کسی فقیر شخص کو مال دار شخص جیسے نان و نفقہ دینے کا مکلف نہیں ٹھہرایا جائے گا اور نہ اس شخص کو مجبور کیا جائے گا کہ وہ نان و نفقہ ادا کرے جس کے پاس نان و نفقہ ادا کرنے کے لیے کچھ بھی نہ ہو۔ یہاں تک کہ اس کے پاس طاقت ہو جائے۔ فرمایا: ﴿ لَا تُضَآرَّؔ وَالِدَةٌۢ بِوَلَدِهَا ﴾ ’’ماں کو اس کے بچے کی وجہ سے نقصان نہ پہنچایا جائے۔‘‘ یعنی یہ جائز نہیں کہ ماں کو اپنے بیٹے کے سبب سے نقصان پہنچایا جائے۔ (یعنی ان دو صورتوں میں سے کسی ایک صورت کے ذریعے سے) یا تو اس کو دودھ پلانے سے روک دیا جائے یا نان و نفقہ،لباس اور اجرت وغیرہ جیسے واجبات اس کو ادا نہ کیے جائیں۔ ﴿ وَلَا مَوْلُوْدٌ لَّهٗ بِوَلَدِهٖ ﴾ ’’اور نہ باپ کو بچے کی وجہ سے تکلیف پہنچائی جائے‘‘ یعنی ماں نقصان پہنچانے کے لیے بچے کو دودھ پلانے سے انکار کر دے، یا اس اجرت سے زیادہ کا مطالبہ کرے جو دودھ پلانے پر اس کا حق بنتا ہے اور اس قسم کے دیگر نقصانات۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ﴿ مَوْلُوْدٌ لَّهٗ ﴾ دلالت کرتا ہے کہ بیٹا اپنے باپ کی ملکیت ہوتا ہے کیونکہ وہ اسی کو عطا کیا گیا ہے اور اس لیے کہ بیٹا درحقیقت باپ کا کسب ہے، پس اسی لیے باپ کے لیے جائز ہے کہ وہ اپنے بیٹے کا مال لے لے خواہ وہ راضی ہو یا نہ ہو، اس کے برعکس ماں مال نہیں لے سکتی۔ فرمایا: ﴿ وَعَلَى الْوَارِثِ مِثْ٘لُ ذٰلِكَ ﴾ ’’اور اسی طرح وارث کے ذمے ہے۔‘‘ یعنی جب بچے کا باپ نہ ہو اور بچے کا کوئی مال بھی نہ ہو تو بچے کے وارث پر دودھ پلانے والی کا وہی نان و نفقہ وغیرہ واجب ہے جو باپ پر واجب ہوتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے ثابت ہوتا ہے کہ خوش حال قریبی رشتہ داروں پر واجب ہے کہ وہ اپنے تنگدست اقرباء کے نان نفقہ کا انتظام کریں۔ ﴿ فَاِنْ اَرَادَا ﴾ ’’پس اگر دونوں چاہیں۔‘‘ یعنی اگر والدین (ماں باپ) ﴿ فِصَالًا ﴾ ’’دودھ چھڑانا‘‘ یعنی دو سال سےقبل ہی بچے کا دودھ چھڑانا چاہیں ﴿عَنْ تَرَاضٍ مِّنْهُمَا ﴾ ’’آپس کی رضامندی سے۔‘‘ یعنی دونوں ہی دودھ چھڑانے پر راضی ہوں ﴿ وَتَشَاوُرٍ ﴾ ’’اور مشورے سے‘‘ یعنی دونوں کے باہمی مشورے کے ساتھ کہ آیا بچے کا دودھ چھڑانا اس کے لیے درست ہے یا نہیں۔ اگر بچے کے لیے اس میں کوئی مصلحت ہو اور دونوں اس پر راضی ہوں ﴿فَلَاجُنَاحَ عَلَیْهِمَا ﴾ ’’تو ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں۔‘‘ یعنی تب دو سال سے قبل اس کے دودھ چھڑانے میں کوئی حرج نہیں۔ اس آیت کریمہ کا مفہوم دلالت کرتا ہے کہ اگر دونوں میں سے صرف ایک دودھ چھڑانے پر راضی ہو یا دودھ چھڑانے میں بچے کے لیے کوئی مصلحت نہ ہو تو اس صورت میں بچے کا دودھ چھڑانا جائز نہیں۔ ﴿ وَاِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْۤا۠ اَوْلَادَؔكُمْ ﴾ ’’اور اگر تم اپنی اولاد کو دودھ پلوانا چاہو۔‘‘ یعنی اگر تم ضرر پہنچائے بغیر بچوں کی ماؤں کی بجائے دوسری عورتوں سے دودھ پلوانا چاہو ﴿ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّاۤ اٰتَیْتُمْ بِالْ٘مَعْرُوْفِ ﴾ ’’تو تم پر کچھ گناہ نہیں بشرطیکہ تم دونوں پلانے والیوں کو دستور کے مطابق ان کا حق جو تم نے دینا کیا تھا دے دو۔‘‘ یعنی اگر دودھ پلانے والی دیگر عورتوں کو معروف طریقے سے ان کی اجرت عطا کر دو تو تم پر کوئی گناہ نہیں ﴿ اَنَّ اللّٰهَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ ﴾ ’’بے شک اللہ تمھارے عملوں کو دیکھنے والا ہے‘‘ پس اللہ تعالیٰ تمھیں اس پر اچھی یا بری جزا دے گا۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [233
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF