Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
23
SuraName
تفسیر سورۂ مومنون
SegmentID
1022
SegmentHeader
AyatText
{90 ـ 92} يقولُ تعالى: بل أتينا هؤلاء المكذِّبين بالحقِّ؛ المتضمِّن للصدق في الأخبار، العدل في الأمر والنهي؛ فما بالُهم لا يعترِفون به، وهو أحقُّ أن يُتَّبَع، وليس عندَهم ما يعوِّضُهم عنه إلاَّ الكذبُ والظلمُ؟! ولهذا قال: {وإنَّهم لَكاذبون. ما اتَّخَذَ الله من ولدٍ وما كان معه من إلهٍ}: كذبٌ يُعْرَفُ بخبرِ الله وخبرِ رسلِهِ، ويُعْرَفُ بالعقل الصحيح، ولهذا نَبَّهَ تعالى على الدليل العقليِّ على امتناع إلهين فقال: {إذاً}؛ أي: لو كان معه آلهةٌ كما يقولون؛ {لَذَهَبَ كلُّ إلهٍ بما خَلَقَ}؛ أي: لانفرد كلُّ واحدٍ من الإلهين بمخلوقاتِهِ واستقلَّ بها، ولحرص على ممانعة الآخر ومغالبته، {ولَعَلا بعضُهم على بعضٍ}؛ فالغالب يكون هو الإله؛ فمع التمانُع لا يمكِنُ وجودُ العالَم ولا يُتَصَوَّرُ أن يَنْتَظِمَ هذا الانتظامَ المدهشَ للعقول، واعتبر ذلك بالشمس والقمر والكواكب الثابتة والسيَّارة؛ فإنَّها منذ خُلِقَتْ وهي تجري على نظام واحدٍ وترتيبٍ واحدٍ، كلُّها مسخرةٌ بالقدرةِ، مدبَّرةٌ بالحكمة لمصالح الخَلْق كلِّهم، ليست مقصورةً على مصلحةِ أحدٍ دون أحدٍ، ولن ترى فيها خللاً ولا تناقضاً ولا معارضةً في أدنى تصرُّف؛ فهل يُتَصَوَّرُ أن يكون ذلك تقدير إلهيْنِ ربَّيْنِ. {سبحان اللهِ عمَّا يصفِون}: قد نطقتْ بلسانِ حالِها، وأفهمتْ ببديع أشكالها: أنَّ المدبِّر لها إلهٌ واحدٌ؛ كامل الأسماء والصفات، قد افتقرتْ إليه جميعُ المخلوقات في ربوبيَّتِهِ لها وفي إلهيَّتِهِ لها؛ فكما لا وجود لها ولا دوام إلاَّ بربوبيَّتِهِ؛ كذلك لا صلاح لها ولا قِوامَ إلاَّ بعبادته وإفراده بالطاعة. ولهذا نبَّه على عظمةِ صفاتِهِ بأنموذج من ذلك، وهو علمُهُ المحيطُ، فقال: {عالم الغيب}؛ أي: الذي غاب عن أبصارِنا وعلمنا من الواجبات والمستحيلات والممكنات {والشهادةِ}: وهو ما نشاهِدُ من ذلك. {فتعالى}؛ أي: ارتفع وعظم {عما يُشْرِكون}: به، ولا علم عندَهم إلاَّ ما علَّمه الله.
AyatMeaning
[92-90] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے بلکہ ہم ان جھٹلانے والوں کے پاس حق لے کر آئے ہیں جو خبر میں صدق اور امرونہی میں عدل کو متضمن ہے۔ ان کو کیا ہوگیا ہے کہ وہ حق کا اعتراف نہیں کرتے حالانکہ حق اس بات کا زیادہ مستحق ہے کہ اس کی اتباع کی جائے؟ ان کے پاس جھوٹ اور ظلم کے سوا کوئی ایسی چیز نہیں جو حق کا بدل بن سکے، اس لیے فرمایا: ﴿ وَاِنَّهُمْ لَكٰذِبُوْنَ ﴾ ’’اور وہ سخت جھوٹے ہیں ۔‘‘ ﴿ مَا اتَّؔخَذَ اللّٰهُ مِنْ وَّلَدٍ وَّمَا كَانَ مَعَهٗ مِنْ اِلٰ٘هٍ﴾ ’’اللہ کی کوئی اولاد ہے نہ اس کے ساتھ کوئی معبود ہے۔‘‘ یعنی یہ سب جھوٹ ہے جس سے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں نے آگاہ فرمایا ہے اور جسے عقل صحیح خوب پہچانتی ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے دو خداؤں کے ممتنع ہونے پر عقلی دلیل کی طرف توجہ دلائی ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ اِذًا ﴾ ’’اس وقت۔‘‘ یعنی اگر ان کے زعم باطل کے مطابق اللہ تعالیٰ کے ساتھ دوسرے معبود بھی ہوں ﴿ لَّذَهَبَ كُ٘لُّ اِلٰهٍۭ بِمَا خَلَقَ ﴾ یعنی دونوں خدا ایک دوسرے کو نیچا دکھانے اور ایک دوسرے پر غالب آنے کے لیے اپنی اپنی مخلوق کو لے کر الگ ہو جاتے۔ ﴿ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ ﴾ ’’اور ایک، دوسرے پر چڑھ دوڑتا۔‘‘ پس جو غالب ہوتا وہی معبود ہوتا ۔ اس قسم کی کھینچا تانی میں وجود کائنات کا باقی رہنا ممکن نہیں تھا اور نہ اس صورت حال میں کائنات کے اس عظیم انتظام کا تصور کیا جا سکتا ہے جسے دیکھ کر عقل حیرت میں گم ہو جاتی ہے۔اس کا اندازہ سورج، چاند، منجمد ستاروں اور سیاروں کے درمیان باہمی نظم کودیکھ کر کرو! جب سے ان کو پیدا کیا گیا ہے یہ ایک خاص ترتیب اور ایک خاص نظام کے مطابق چل رہے ہیں ، اس بے کراں کائنات کے تمام سیارے اللہ تعالیٰ کی قدرت سے مسخر ہیں ، اس کی حکمت تمام مخلوق کی ضروریات و مصالح کے مطابق ان کی تدبیر کرتی ہے، ان میں کوئی ایک دوسرے پر منحصر نہیں ۔ آپ اس نظام کائنات میں ، اس کے کسی ادنیٰ سے تصرف میں بھی کوئی خلل دیکھیں گے نہ تناقض اور تعارض۔ کیا دو معبودوں کے انتظام کے تحت اس قسم کے نظام کا تصور کیا جا سکتا ہے ؟ … ﴿سُبْحٰؔنَ اللّٰهِ عَمَّا یَصِفُوْنَ ﴾ ’’اللہ پاک ہے ان چیزوں سے جو وہ بیان کرتے ہیں ۔‘‘ یہ تمام کائنات اپنی زبان حال سے پکار پکار کر کہہ رہی ہے اور اپنی مختلف اشکال کے ذریعے سے سمجھا رہی ہے کہ اس کی تدبیر کرنے والا، الٰہ ایک ہے جو کامل اسماء و صفات کا مالک ہے تمام مخلوقات، اس کی ربوبیت و الوہیت میں اس کی محتاج ہے۔ جس طرح اس کی ربوبیت کے بغیر مخلوقات کا کوئی وجود ہے نہ اس کو کوئی دوام، اسی طرح صرف اسی کی عبادت اور صرف اسی کی اطاعت کے بغیر مخلوقات کے لیے کوئی صلاح ہے نہ اس کا کوئی قوام۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ایک نمونے کے ذریعے سے اپنی صفات مقدسہ کی عظمت کی طرف توجہ مبذول کروائی ہے اور وہ ہے اس کا علم محیط، چنانچہ فرمایا: ﴿عٰلِمِ الْغَیْبِ ﴾ یعنی وہ تمام واجبات، مستحیلات اور ممکنات کوجاننے والا ہے جو ہماری نظروں اور ہمارے علم سے اوجھل ہیں ﴿ وَالشَّهَادَةِ ﴾ اور وہ ان امور کو بھی جانتا ہے جن کا ہم مشاہدہ کرتے ہیں ۔ ﴿فَ٘تَ٘عٰ٘لٰ٘ى ﴾ وہ بہت بلند اور بہت بڑا ہے ﴿ عَمَّا یُشْ٘رِكُوْنَ ﴾ ’ان ہستیوں سے جن کو وہ اس کا شریک ٹھہراتے ہیں ۔‘‘ کہ جن کے پاس کوئی علم نہیں سوائے اس علم کے جو اللہ تعالیٰ نے عطا کیا ہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[92-
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List