Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 2
- SuraName
- تفسیر سورۂ بقرۃ
- SegmentID
- 111
- SegmentHeader
- AyatText
- {216} هذه الآية فيها فرض القتال في سبيل الله بعد ما كان المؤمنون مأمورين بتركه لضعفهم وعدم احتمالهم لذلك، فلما هاجر النبي - صلى الله عليه وسلم - إلى المدينة، وكثر المسلمون، وقووا؛ أمرهم الله تعالى بالقتال، وأخبر أنه مكروه للنفوس، لما فيه من التعب والمشقة وحصول أنواع المخاوف والتعرض للمتالف، ومع هذا فهو خير محض لما فيه من الثواب العظيم والتحرز من العقاب الأليم والنصر على الأعداء والظفر بالغنائم، وغير ذلك مما هو مُربٍ على ما فيه من الكراهة {وعسى أن تحبوا شيئاً وهو شر لكم}؛ وذلك مثل القعود عن الجهاد لطلب الراحة فإنه شرٌّ؛ لأنه يعقب الخذلان، وتسلط الأعداء على الإسلام وأهله، وحصول الذلِّ والهوان، وفوات الأجر العظيم، وحصول العقاب. وهذه الآيات عامة مطردة في أن أفعال الخير التي تكرهها النفوس لما فيها من المشقة أنها خير بلا شك، وأن أفعال الشر التي تحبها النفوس لما تتوهمه فيها من الراحة واللذة فهي شرٌّ بلا شك، وأما أحوال الدنيا فليس الأمر مطرداً، ولكن الغالب على العبد المؤمن أنه إذا أحب أمراً من الأمور فقيض الله له من الأسباب ما يصرفه عنه أنه خير له، فالأوفق له في ذلك أن يشكر الله، ويعتقد الخير في الواقع، لأنه يعلم أن الله تعالى أرحم بالعبد من نفسه، وأقدر على مصلحة عبده منه، وأعلم بمصلحته منه كما قال تعالى: {والله يعلم وأنتم لا تعلمون}؛ فاللائق بكم أن تتمشوا مع أقداره سواء سرتكم أو ساءتكم.
- AyatMeaning
- [216] اس آیت کریمہ میں اہل ایمان پر اللہ تعالیٰ کے راستے میں (کافروں کے ساتھ) قتال فرض کیا گیا ہے اس سے قبل وہ ترک قتال پر مامور تھے کیونکہ وہ کمزور تھے اور قتال کے متحمل نہیں تھے۔ جب رسول اللہeہجرت فرما کر مدینہ منورہ آ گئے، مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہو گئی اور وہ طاقتور ہو گئے تو اللہ تعالیٰ نے ان کو قتال کا حکم دے دیا۔ ان کو یہ بھی بتا دیا کہ مشقت، تکان، مختلف قسم کے خوف اور ہلاکت کے خطرے کی وجہ سے نفس کو جہاد اور قتال ناپسند ہے۔ اس کے باوجود قتال خالص نیکی ہے جس میں بہت بڑا ثواب، جہنم کے عذاب سے حفاظت، دشمن پر فتح و نصرت اور مال غنیمت وغیرہ کا حصول ہے۔ یہ تمام چیزیں قتال کے ناپسند ہونے کے باوجود مرغوب ہوتی ہیں۔ ﴿وَعَسٰۤى اَنْ تُحِبُّوْا شَیْـًٔا وَّهُوَ شَرٌّ لَّكُمْ﴾ ’’اور شاید تم کسی چیز کو پسند کرو اور وہ تمھارے لیے بری ہو‘‘ مثلاً: محض راحت اور آرام کی خاطر جہاد چھوڑ کر گھر بیٹھ رہنا۔ یہ بہت بڑی برائی ہے اس کا نتیجہ پسپائی، اسلام اور مسلمانوں پر کفار کے تسلط، ذلت اور رسوائی، بہت بڑے ثواب سے محرومی اور جہنم کے عذاب کے سوا کچھ نہیں۔ یہ آیات کریمہ اس بات کی بابت عام ہیں کہ نیکی کے وہ کام جن کو نفوس ناپسند کرتے ہیں، کیونکہ ان کے نہ کرنے میں راحت اور لذت کا واہمہ ہے، وہ بلاشک بہت برے کام ہیں۔ (اس لیے کہ نیکی کے کام ہر صورت میں کرنے ضروری ہیں، پسند ہوں یا ناپسند) رہے دنیا کے حالات تو یہ اصول عام نہیں۔ لیکن غالب طور پر بندۂ مومن جب کسی معاملے کو پسند کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے سامنے ایسے اسباب پیدا کر دیتا ہے جو اس کے اس خیال کو دور کر دیتے ہیں کہ یہ معاملہ اس کے لیے اچھا ہے۔ پس اس کے لیے زیادہ بہتر یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے اور فی الواقع خیر ہی کا اعتقاد رکھے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے پر اس سے کہیں زیادہ رحم کرتا ہے جتنا بندہ اپنے آپ پر رحم کر سکتا ہے۔ اور اپنے بندے کے مصالح کی اس سے کہیں زیادہ دیکھ بھال کرتا ہے جتنی دیکھ بھال بندہ خود کر سکتا ہے اللہ تعالیٰ بندے سے زیادہ اس کے مصالح کو جانتا ہے۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿وَاللّٰهُ یَعْلَمُ وَاَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ ’’اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے‘‘ لہٰذا تمھارے لیے مناسب یہی ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے احکام کے ساتھ ساتھ چلو، خواہ تمھیں اچھے لگیں یا برے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [216
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF