Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 2
- SuraName
- تفسیر سورۂ بقرۃ
- SegmentID
- 108
- SegmentHeader
- AyatText
- {213}؛ [أي: كانوا مجتمعين على الهدى، وذلك عشرة قرون بعد نوح عليه السلام، فلما اختلفوا في الدِّين، فكفر فريقٌ منهم، وبقي الفريقُ الآخرُ على الهدى، وحصل النزاع، بعث اللهُ الرُّسل؛ ليفصلوا بين الخلائق، ويقيموا الحجة عليهم، وقيل: بل كانوا]؛ أي: كان الناس مجتمعين على الكفر والضلال والشقاء ليس لهم نور ولا إيمان، فرحمهم الله تعالى بإرسال الرسل إليهم {مبشرين}؛ من أطاع الله بثمرات الطاعات من الرزق والقوة في البدن والقلب والحياة الطيبة، وأعلى ذلك الفوز برضوان الله والجنة {ومنذرين}؛ من عصى الله بثمرات المعصية من حرمان الرزق والضعف والإهانة والحياة الضيقة، وأشد ذلك سخط الله والنار، وأنزل الكتب عليهم بالحق؛ وهو الإخبارات الصادقة والأوامر العادلة. فكل ما اشتملت عليه الكتب فهو حق يفصل بين المختلفين في الأصول والفروع، وهذا هو الواجب عند الاختلاف والتنازع أن يرد الاختلاف إلى الله وإلى رسوله، ولولا أن في كتابه وسنة رسوله فصلَ النزاع لما أمر بالرد إليهما، ولما ذكر نعمته العظيمة بإنزال الكتب على أهل الكتاب، وكان هذا يقتضي اتفاقهم عليها واجتماعهم فأخبر تعالى أنهم بغى بعضهم على بعض، وحصل النزاع والخصام وكثرة الاختلاف، فاختلفوا في الكتاب الذي ينبغي أن يكونوا أولى الناس بالاجتماع عليه وذلك من بعد ما علموه وتيقنوه بالآيات البينات والأدلة القاطعات، وضلوا بذلك ضلالاً بعيداً، وهدى الله {الذين آمنوا}؛ من هذه الأمة {لما اختلفوا فيه من الحق}؛ فكل ما اختلف فيه أهل الكتاب، وأخطَؤوا فيه الحق والصواب، هدى الله للحق فيه هذه الأمة {بإذنه}؛ تعالى وتيسيره لهم ورحمته. {والله يهدي من يشاء إلى صراط مستقيم}؛ فعم الخلق تعالى بالدعوة إلى الصراط المستقيم عدلاً منه تعالى وإقامة حجة على الخلق؛ لئلا يقولوا ما جاءنا من بشير ولا نذير، وهدى ـ بفضله ورحمته وإعانته ولطفه ـ مَنْ شاء مِنْ عباده، فهذا فضله وإحسانه، وذاك عدله وحكمته تبارك وتعالى.
- AyatMeaning
- [213] یعنی وہ سب ہدایت پر جمع تھے اور یہ سلسلہ آدمuکے بعد دس صدیوں تک جاری رہا۔ پھر جب انھوں نے دین میں اختلاف کیا تو ایک گروہ کافر ہوگیا اوردوسرا گروہ دین پر قائم رہا اور ان کے درمیان اختلاف ہوگیا تو اللہ تعالیٰ نے لوگوں کے درمیان فیصلے اور ان پر حجت قائم کرنے کے لیے رسلoبھیجے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ یہ تمام لوگ کفر، ضلالت اور شقاوت پر مجتمع تھے۔ ان کے سامنے کوئی روشنی اور ایمان کی کوئی کرن نہ تھی۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی طرف انبیاء و رسلoبھیج کر ان پر رحم فرمایا ﴿ مُبَشِّ٘رِیْنَ ﴾ ’’بشارت دینے والے۔‘‘ یعنی یہ رسول لوگوں کو خوشخبری سناتے کہ اللہ کی اطاعت کے ثمرات، رزق، قلب و بدن کی قوت اور پاکیزہ زندگی کی صورت میں ہوں گے… اور ان سب سے بڑھ کر وہ کامیابی ہے جو اللہ کی رضامندی اور جنت کی صورت میں حاصل ہوگی۔ ﴿وَمُنْذِرِیْنَ ﴾ اور اللہ کے نافرمانوں کو معصیت کے نتائج سے ڈراتے ہیں جو دنیا میں رزق سے محرومی، کمزوری، اہانت اور تنگ زندگی کی صورت میں نکلتے ہیں اور آخرت میں ایسے لوگوں کے لیے بدترین عذاب، اللہ تعالیٰ کی ناراضی اور جہنم ہے۔ ﴿ وَاَنْزَلَ مَعَهُمُ الْكِتٰبَ بِالْحَقِّ ﴾ ’’اور ان کے ساتھ کتاب اتاری ساتھ حق کے۔‘‘ اس سے مراد وہ سچی خبریں اور عدل پر مبنی احکام ہیں جنھیں اللہ کے رسول لے کر مبعوث ہوتے رہے ہیں۔ پس وہ تمام اخبار و احکام جن پر کتب الہٰیہ مشتمل ہیں، حق ہیں اور اصول و فروع میں اختلاف کرنے والوں کے مابین فیصلہ کرتے ہیں اور اختلاف اور تنازع واقع ہونے کی صورت میں فرض ہے کہ اختلاف اور تنازع کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولeکی طرف لوٹایا جائے۔ اگر کتاب اللہ اور سنت رسول میں ان اختلاف کرنے والوں کے نزاع کا فیصلہ موجود نہ ہوتا تو اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے جھگڑوں کو ان کی طرف لوٹانے کا حکم نہ دیتا۔ چونکہ اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب پر کتابیں نازل فرما کر اپنی عظیم نعمت کا ذکر کیا ہے۔ اس نعمت کا تقاضا تھا کہ وہ ان کتابوں پر اتفاق کرتے ہوئے اکٹھے ہوتے، لیکن اللہ تعالیٰ نے بتلایا کہ انھوں نے ایک دوسرے پر زیادتی کا ارتکاب کیا جس کے نتیجے میں نزاعات، جھگڑے اور بے شمار اختلافات ظاہر ہوئے، چنانچہ انھوں نے اس کتاب میں اختلاف کیا جس کے بارے میں ان کے لیے مناسب یہ تھا کہ وہ اس کتاب پر لوگوں میں سے سب سے زیادہ اتفاق کرنے والے ہوتے اور ان کا یہ رویہ آیات بینات اور دلائل قاطعہ کو جان لینے اور ان کی صداقت پر یقین ہو جانے کے بعد تھا۔ پس وہ اپنے اس رویے کی وجہ سے دور کی گمراہی میں جا پڑے۔ ﴿ فَهَدَى اللّٰهُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ﴾ ’’پس اللہ نے مومنوں کو راہ دکھا دی۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے اس امت کے اہل ایمان کی راہنمائی فرمائی ﴿ لِمَا اخْتَلَفُوْا فِیْهِ مِنَ الْحَقِّ ﴾ ’’ان چیزوں میں جن میں انھوں نے اختلاف کیا، حق سے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ہر اس معاملے میں اہل ایمان کی راہنمائی فرمائی جس میں اہل کتاب اختلافات کا شکار ہو کر حق و صواب سے دور ہٹ گئے۔ اللہ تعالیٰ نے اس امت کی حق و صواب کی طرف راہنمائی فرمائی ﴿ بِـاِذْنِهٖ ﴾ ’’اپنے حکم سے‘‘ یعنی اپنے اذن اور اپنی رحمت سے حق و صواب کو ان کے لیے آسان کر دیا۔ ﴿ وَاللّٰهُ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ ﴾ ’’اور اللہ جس کو چاہتا ہے سیدھے راستے کی ہدایت دیتا ہے‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے عدل اور مخلوق پر حجت قائم کرنے کے لیے تمام انسانوں کو صراط مستقیم کی طرف عام دعوت دی ہے۔ تاکہ وہ یہ نہ کہہ سکیں ﴿ مَا جَآءَنَا مِنْۢ بَشِیْرٍ وَّلَا نَذِیْرٍ ﴾ ’’ہمارے پاس تو کوئی خوشخبری دینے والا اور کوئی ڈرانے والا ہی نہیں آیا‘‘ (المائدۃ:5؍19)اور اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل و رحمت اور لطف و اعانت سے اپنے بندوں میں سے جس کو چاہا ہدایت سے نوازا۔ پس ہدایت سے نوازنا، یہ اس کا فضل و احسان ہے اور ساری مخلوق کو صراط مستقیم کی طرف دعوت دینا، یہ اس کا عدل اور اس کی حکمت ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [213
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF