Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 2
- SuraName
- تفسیر سورۂ بقرۃ
- SegmentID
- 105
- SegmentHeader
- AyatText
- {210} وهذا فيه من الوعيد الشديد والتهديد ما تنخلع له القلوب، يقول تعالى: هل ينتظر الساعون في الفساد في الأرض، المتبعون لخطوات الشيطان، النابذون لأمر الله إلا يوم الجزاء بالأعمال، الذي قد حُشِي من الأهوال والشدائد والفظائع ما يقلقل قلوب الظالمين، ويحق به الجزاء السَّيئ على المفسدين، وذلك أن الله تعالى يطوي السماواتِ والأرضَ، وتنتثر الكواكبُ، وتُكوَّر الشمس والقمر، وتنزل الملائكة الكرام فتحيط بالخلائق، وينزل الباري تبارك وتعالى {في ظلل من الغمام} ليفصل بين عباده بالقضاء العدل، فتوضع الموازين، وتنشر الدواوين، وتبيَّض وجوه أهل السعادة، وتسوَّد وجوه أهل الشقاوة، ويتميز أهل الخير من أهل الشرِّ، وكل يجازى بعمله، فهنالك يعضُّ الظالم على يديه إذا علم حقيقة ما هو عليه. وهذه الآية وما أشبهها دليل لمذهب أهل السنة والجماعة المثبتين للصفات الاختيارية؛ كالاستواء، والنزول، والمجيء، ونحو ذلك من الصفات التي أخبر بها تعالى عن نفسه، أو أخبر بها عنه رسوله - صلى الله عليه وسلم -، فيثبتونها على وجه يليق بجلال الله وعظمته من غير تشبيه ولا تحريف، خلافاً للمعطلة على اختلاف أنواعهم، من الجهمية والمعتزلة والأشعرية ونحوهم، ممن ينفي هذه الصفات، ويتأول لأجلها الآيات بتأويلات ما أنزل الله عليها من سلطان، بل حقيقتها القدح في بيان الله وبيان رسوله، والزعم بأن كلامهم هو الذي تحصل به الهداية في هذا الباب، فهؤلاء ليس معهم دليل نقلي؛ بل ولا دليل عقلي. أما النقلي فقد اعترفوا أن النصوص الواردة في الكتاب والسنة، ظاهرها بل صريحها دال على مذهب أهل السنة والجماعة، وأنها تحتاج لدلالتها على مذهبهم الباطل أن تخرج عن ظاهرها ويزاد فيها وينقص، وهذا كما ترى لا يرتضيه من في قلبه مثقال ذرة من إيمان. وأما العقل فليس في العقل ما يدل على نفي هذه الصفات، بل العقل دل على أن الفاعل أكمل من الذي لا يقدر على الفعل، وأن فعله تعالى المتعلق بنفسه والمتعلق بخلقه هو كمال، فإن زعموا أن إثباتها يدل على التشبيه بخلقه، قيل لهم الكلام على الصفات يتبع الكلام على الذات، فكما أن لله ذاتاً لا تشبهها الذوات فلله صفات لا تشبهها الصفات، فصفاته تبع لذاته وصفات خلقه تبع لذواتهم، فليس في إثباتها ما يقتضي التشبيه بوجه، ويقال أيضاً لمن أثبت بعض الصفات، ونفى بعضاً، أو أثبت الأسماء دون الصفات: إما أن تثبت الجميع كما أثبته الله لنفسه، وأثبته رسوله، وإما أن تنفي الجميع، وتكون منكراً لرب العالمين. وأما إثباتك بعض ذلك ونفيك لبعضه فهذا تناقض، فَفَرِّقْ بين ما أثبته وبين ما نفيته، ولن تجد إلى الفرق سبيلاً. فإن قلت ما أثبته لا يقتضي تشبيهاً، قال لك أهل السنة والإثبات لما نفيته لا يقتضي تشبيهاً، فإن قلت لا أعقل من الذي نفيته إلا التشبيه، قال لك النفاة ونحن لا نعقل من الذي أثبته إلا التشبيه، فما أجبت به النفاة أجابك به أهل السنة لما نفيته. والحاصل أن من نفى شيئاً، وأثبت شيئاً مما دل الكتاب والسنة على إثباته فهو متناقض؛ لا يثبت له دليل شرعي ولا عقلي، بل قد خالف المعقول والمنقول.
- AyatMeaning
- [210] یہ بہت سخت وعید اور تہدید ہے جس سے دل کانپ جاتے ہیں۔ اللہ تبارک وتعالیٰ فرماتا ہے کہ کیا شیطان کے نقش قدم کی پیروی کرنے والے، زمین میں فساد پھیلانے والے اور اللہ تعالیٰ کے حکم کو رد کرنے والے روز جزا کے منتظر ہیں جو ہولناکیوں، سختیوں اور خوفناک مناظر سے بھرپور ہو گا اور بڑے بڑے ظالموں کے دل دہلا دے گا۔ اور جس میں فساد برپا کرنے والوں کو ان کے اعمال کی بری جزا گھیر لے گی۔ یہ سب کچھ یوں ہو گا کہ اللہ تبارک وتعالیٰ زمین و آسمان کو لپیٹ دے گا، ستارے بکھر جائیں گے، سورج اور چاند بے نور ہو جائیں گے۔ مکرم فرشتے نازل ہوں گے اور تمام خلائق کو گھیرے میں لے لیں گے اور اللہ تعالیٰ بادلوں کے سائے میں نزول فرمائے گا، تاکہ وہ اپنے بندوں کے درمیان عدل و انصاف کے ساتھ فیصلے کرے۔ ترازو نصب کر دی جائیں گی، اعمال نامے کھول کر پھیلا دیے جائیں گے، سعادت مند لوگوں کے چہرے سفید اور روشن ہوں گے اور بدبخت گناہ گاروں کے چہرے سیاہ اور تاریک ہوں گے۔ نیک لوگ بدکاروں سے علیحدہ ہو جائیں گے اور ہر ایک کو اس کے عمل کا بدلہ دیا جائے گا۔ پس ظالم وہاں (افسوس کے طور پر) اپنے ہاتھوں کو کاٹے گا، جب اپنی آنکھوں سے روز جزا کی حقیقت کا مشاہدہ کرے گا۔ یہ آیت کریمہ اور اس قسم کی دیگر آیات اہل سنت والجماعت کے مذہب کی حقانیت پر دلالت کرتی ہیں جو اللہ تعالیٰ کی صفات اختیاری، مثلاً استواء علی العرش ’’نزول‘‘ اور ’’آمد‘‘ جیسی صفات کا اثبات کرتی ہیں جن کے بارے میں خود اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولeنے خبر دی ہے۔ اہل سنت بغیر کسی تشبیہ، تعطیل اور تاویل و تحریف کے ان صفات کا ان کے ایسے معانی کے ساتھ اثبات کرتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے جلال اور عظمت کے لائق ہیں۔ اس کے برعکس اہل تعطیل کے مختلف گروہ، مثلاً جہمیہ، معتزلہ اور اشاعرہ وغیرہ ان صفات کی نفی کرتے ہیں اور پھر اپنے مذہب کی تائید کے لیے ان آیات کریمہ کی ایسی ایسی تاویلیں کرتے ہیں جن کی اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ تاویلات اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولeکی تبیین کو ناقص قرار دیتی ہیں۔ وہ اس زعم باطل میں مبتلا ہیں کہ اس بارے میں صرف ان کی تاویلات ہی کے ذریعے سے ہدایت حاصل ہو سکتی ہے۔ پس ان لوگوں کے پاس کوئی نقلی دلیل بلکہ کوئی عقلی دلیل بھی نہیں ہے۔ جہاں تک نقلی دلیل کی بات ہے تو ان لوگوں کو خود اعتراف ہے کہ قرآن اور سنت کے ظاہری الفاظ بلکہ واضح الفاظ اہل سنت کے مذہب پر دلالت کرتے ہیں۔ جب کہ یہ حضرات اپنے باطل مذہب کی تائید اوراس کو ثابت کرنے کے لیے ان نصوص کے ظاہری معنی سے باہر نکلنے اور ان میں کمی بیشی کرنے پر مجبور ہیں۔ اور جیسا کہ آپ جانتے ہیں اس چیز کو کوئی ایسا شخص پسند نہیں کر سکتا جس کے دل میں رتی بھر بھی ایمان ہے۔ رہی عقلی دلیل تو کوئی عقلی دلیل ایسی نہیں جو مذکورہ صفات الٰہی کی نفی پر دلالت کرے بلکہ عقل تو اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ فاعل، فعل پر قدرت نہ رکھنے والے سے زیادہ کامل ہوتا ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ کا فعل، جو اس کی اپنی ذات سے متعلق ہو یا اس کی مخلوق سے متعلق، وہ ایک کمال ہی ہے۔ اگر وہ یہ اعتراض کریں کہ ان صفات کا اثبات، مخلوق کے ساتھ تشبیہ پر دلالت کرتا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ صفات پر بحث، ذات پر بحث کی تابع ہے جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات مخلوق کی ذات سے مشابہت نہیں رکھتی اسی طرح اللہ تعالیٰ کی صفات مخلوق کی صفات سے مشابہت نہیں رکھتیں۔ اللہ تعالیٰ کی صفات اس کی ذات کے تابع ہیں اور مخلوق کی صفات ان کی ذات کے تابع ہیں۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ کی صفات کے اثبات سے، کسی بھی پہلو سے مخلوق کی صفات کے ساتھ مشابہت لازم نہیں آتی۔ نیز اس شخص سے یہ بھی کہا جائے گا جو اللہ تعالیٰ کی بعض صفات کا اقرار کرتا ہے اور اس کی بعض صفات کا منکر ہے یا وہ اللہ تعالیٰ کے اسماء کا اقرار کرتا ہے اور اس کی صفات کی نفی کرتا ہے کہ یا تو آپ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کا اثبات کریں جیسے اللہ تعالیٰ نے خود اپنی ذات کے لیے اور اس کے رسولeنے ان صفات کا اثبات کیا ہے۔ یا ان تمام صفات کی نفی کر کے اللہ رب العالمین کے منکر بن جائیں لیکن آپ کا بعض صفات کا اثبات کرنا اور بعض صفات کی نفی کرنا تو محض تناقض ہے اس لیے آپ ان صفات میں جن کا آپ اثبات کرتے ہیں اور ان صفات میں جن کی آپ نفی کرتے ہیں، فرق ثابت کریں اور اس تفریق پر آپ کے پاس کوئی دلیل نہیں۔ اگر آپ کہیں کہ جن صفات کا میں نے اثبات کیا ہے ان سے تشبیہ لازم نہیں آتی تو صفات الٰہی کا اثبات کرنے والے اہل سنت آپ سے یہ کہتے ہیں کہ جن صفات کی آپ نے نفی کی ہے ان سے بھی تشبیہ لازم نہیں آتی۔ اگر آپ کہتے ہیں کہ جن صفات کی میں نے نفی کی ہے میرے نزدیک تو ان میں تشبیہ ہی لازم آتی ہے۔ تو صفات کی نفی کرنے والے تجھے کہیں گے کہ جن صفات کا آپ اثبات کرتے ہیں، ہمیں تو ان میں بھی تشبیہہ ہی نظر آتی ہے۔ پس جو جواب آپ نفی کرنے والوں کو دیں گے، وہی جواب اہل سنت آپ کو ان صفات کی بابت دیں گے جن کی آپ نفی کرتے ہیں۔ حاصل بحث یہ ہے کہ جو کوئی کسی ایسے امر کی نفی کرتا ہے جس کے اثبات پر قرآن اور سنت دلالت کرتے ہیں، تو وہ تناقض کا شکار ہے۔ اس کے پاس کوئی شرعی دلیل ہے نہ عقلی بلکہ وہ معقول اور منقول دونوں کی مخالفت کا مرتکب ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [210
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF