Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
20
SuraName
تفسیر سورۂ طٰہٰ
SegmentID
930
SegmentHeader
AyatText
{108 ـ 110} ولهذا قال: {يومئذٍ يتَّبعونَ الداعيَ}: وذلك حين يبُعثون من قبورهم ويقومون منها؛ يدعوهم الداعي إلى الحضور والاجتماع للموقف، فيتَّبِعونه مهطعينَ إليه، لا يلتفتون عنه، ولا يعرُجون يمنةً ولا يسرةً. وقوله: {لا عِوَجَ له}؛ أي: لا عوج لدعوة الداعي، بل تكون دعوته حقًّا وصدقاً لجميع الخلق، يُسمِعُهم جميعَهم، ويصيح لهم أجمعين، فيحضُرون لموقف القيامة خاشعةً أصواتُهم للرحمن. {فلا تسمعُ إلاَّ همساً}؛ أي: إلا وطء الأقدام أو المخافتة سرًّا بتحريك الشفتين فقط؛ يملكُهم الخشوعُ والسكوتُ والإنصاتُ؛ انتظاراً لحكم الرحمن فيهم، وتعنوا وجوهُهم؛ أي: تذِلُّ وتخضع، فترى في ذلك الموقف العظيم الأغنياء والفقراء والرجال والنساء والأحرار والأرقاء والملوك والسوقة، ساكتين منصتين خاشعةً أبصارُهم خاضعةً رقابُهم جاثين على رُكَبِهِم عانيةً وجوهُهم، لا يدرون ماذا ينفصِلُ كلٌّ منهم به ولا ماذا يفعلُ به، قد اشتغل كلٌّ بنفسِهِ وشأنه عن أبيه وأخيه وصديقه وحبيبه، لكلِّ امرئٍ منهم يومئذٍ شأنٌ يُغنيه، [فحينئذ] يحكم فيه الحاكمُ العدلُ الديَّانُ، ويجازي المحسنَ بإحسانِهِ والمسيءَ بالحرمان. والأمل بالربِّ الكريم الرحمن الرحيم أن يُري الخلائقَ منه من الفضل والإحسان والعَفْو والصَّفْح والغُفْران ما لا تعبِّرُ عنه الألسنةُ ولا تتصوَّره الأفكارُ، ويتطلَّع لرحمتِهِ إذ ذاك جميعُ الخلق؛ لما يشاهدونه، فيختصُّ المؤمنون به وبرسله بالرحمةِ. فإنْ قيل من أين لكم هذا الأمل؟ وإن شئت قلتَ: من أين لكم هذا العلم بما ذُكِرَ؟ قلنا: لما نعلمُهُ من غلبةِ رحمتِهِ لغضبِهِ، ومن سَعَةِ جودِهِ الذي عمَّ جميع البرايا، ومما نشاهده في أنفسنا وفي غيرنا من النعم المتواترة في هذه الدار، وخصوصاً في فضل القيامة؛ فإنَّ قوله: {وخشعتِ الأصواتُ للرحمن} {إلاَّ مَنْ أذِنَ له الرحمنُ}، مع قوله: {الملكُ يومئذٍ الحقُّ للرحمن}، مع قوله - صلى الله عليه وسلم -: «إنَّ لله مائةَ رحمةٍ، أنزل لعباده رحمةً بها يتراحمون ويتعاطفون، حتى إن البهيمةَ ترفعُ حافِرَها عن ولدها خشيةَ أن تطأه»، [أي]: من الرحمة المودَعة في قلبها؛ فإذا كان يومُ القيامةِ؛ ضمَّ هذه الرحمة إلى تسع وتسعين رحمةً، فرحم بها العباد، مع قوله - صلى الله عليه وسلم -: «للهُ أرحمُ بعبادِهِ من الوالدة بولدِها» ؛ فقل ما شئتَ عن رحمتِهِ؛ فإنَّها فوق ما تقولُ، وتصوَّرْ فوق ما شئتَ؛ فإنَّها فوق ذلك؛ فسبحان من رحم في عدله وعقوبته، كما رحم في فضله وإحسانه ومثوبته، وتعالى مَنْ وسعت رحمتُهُ كلَّ شيء، وعمَّ كرمُهُ كلَّ حيٍّ، وجلَّ من غنيٍّ عن عبادِهِ رحيم بهم، وهم مفتقرونَ إليه على الدوام في جميع أحوالهم؛ فلا غنى لهم عنه طرفةَ عين. وقوله: {يومئذٍ لا تنفعُ الشفاعةُ إلاَّ مَن أذِنَ له الرحمن ورضي له قَوْلاً}؛ أي: لا يشفع أحدٌ عنده من الخلق إلاَّ مَنْ أذِنَ له في الشفاعة، ولا يأذنُ إلاَّ لمن رَضِيَ قوله؛ أي: شفاعته؛ من الأنبياء والمرسلين وعباده المقرَّبين فيمن ارتضى قوله وعمله، وهو المؤمن المخلص؛ فإذا اختلَّ واحدٌ من هذه الأمور؛ فلا سبيلَ لأحدٍ إلى شفاعة من أحد.
AyatMeaning
[110-108] اس لیے فرمایا: ﴿ یَوْمَىِٕذٍ یَّتَّبِعُوْنَ الدَّاعِیَ ﴾ ’’اس دن وہ پکارنے والے کے پیچھے لگیں گے۔‘‘ اور یہ اس وقت ہو گا جب وہ دوبارہ زندہ ہو کر قبروں سے کھڑے ہوں گے اور پکارنے والا ان کو اللہ تعالیٰ کے حضور حاضر ہونے اور ایک جگہ جمع ہونے کے لیے پکارے گا تو وہ تیزی سے دوڑتے ہوئے اس کی طرف جائیں گے اور دائیں بائیں وہ اس سے نظر ہٹائیں گے نہ دائیں بائیں التفات کریں گے۔ فرمایا: ﴿ لَا عِوَجَ لَهٗ﴾ یعنی پکارنے والے کی دعوت میں کوئی کجی نہ ہو گی بلکہ اس کی دعوت تمام خلائق کے لیے حق اور صدق پر مبنی ہو گی اور وہ پکار کر تمام خلائق تک اپنی آواز پہنچائے گا۔ تمام لوگ قیامت کے میدان میں حاضر ہوں گے اور رحمٰن کے سامنے ان کی آوازیں پست ہوں گی۔ ﴿ فَلَا تَ٘سْمَعُ اِلَّا هَمْسًا﴾ ’’پس نہیں سنے گا تو سوائے کھسر پھسر کے۔‘‘ یعنی فقط قدموں کی چاپ یا ہونٹوں کی حرکت سے پیدا ہونے والی پست آواز سنائی دے گی اور ان پر خشوع، سکوت اور خاموشی طاری ہو گی اور رب رحمٰن کے فیصلے کے منتظر ہوں گے اور چہرے تذلل اور خضوع سے جھکے ہوئے ہوں گے۔ تم اس عظیم مقام پر دیکھو گے کہ دولت مند اور فقراء، مرد اور عورتیں ، آزاد اور غلام، بادشاہ اور عوام سب نظریں نیچے کیے ساکت اور خاموش گھٹنوں کے بل گرے ہوئے اور گردنوں کو جھکائے ہوئے ہوں گے۔ کسی کو معلوم نہیں ہو گا کہ اس کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ ہر شخص اپنے باپ، بھائی اور دوست یار کو بھول کر صرف اپنے معاملے میں مشغول ہو گا۔ ﴿لِكُ٘لِّ امْرِئٍ مِّؔنْهُمْ یَوْمَىِٕذٍ شَاْنٌ یُّغْنِیْهِ﴾ (عبس:80؍37) ’’اس روز ہر شخص ایک معاملے میں مصروف ہو گا جو اسے دوسروں کے بارے میں بے پروا کر دے گا۔‘‘ حاکم عادل اس بارے میں فیصلہ کرے گا، نیکوکار کو اس کی نیکی کی جزا دے گا اور بدکار کو محروم کرے گا۔ رب کریم اور رحمٰن و رحیم پر امید یہ ہے کہ تمام خلائق اس کے ایسے فضل و احسان، عفو و درگزر اور بخشش کو دیکھے گی، زبان جس کی تعبیر سے قاصر اور فکر اس کے تصور سے بے بس ہے۔ تب تمام خلائق اس کی رحمت کی منتظر ہو گی مگر رحمت ان لوگوں کے لیے مختص ہو گی جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ یہ امید آپ کیسے رکھ سکتے ہیں ؟ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ اس امید مذکور کا آپ کو کیسے علم ہوا؟ تو ہم اس کے جواب میں عرض کریں گے کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے، اس کی عنایات تمام مخلوقات پر عام ہیں ۔ ہم اس دنیاوی زندگی میں مشاہدہ کرتے ہیں کہ ہمیں اور دیگر لوگوں کو لامحدود نعمتیں حاصل ہیں خاص طور پر روز قیامت کے متعلق اللہ کے یہ فرامین ﴿وَخَشَعَتِ الْاَصْوَاتُ لِلرَّحْمٰنِ ﴾، ﴿ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ ﴾ اور ﴿اَلْمُلْكُ یَوْمَىِٕذِ ِ۟ الْحَقُّ لِلرَّحْمٰنِ﴾ (الفرقان:25؍26) اس امر پر دلالت کرتے ہیں اس کے ساتھ ساتھ رسول اللہ e نے فرمایا ’’اللہ کی رحمت کے سو حصے ہیں اس نے ایک حصہ اپنے بندوں کے لیے نازل فرمایا ہے، اس رحمت ہی کی بنا پر وہ ایک دوسرے کے ساتھ رحم اور عاطفت سے پیش آتے ہیں حتیٰ کہ ایک چوپائے کا پاؤں اگر اس کے بچے پر آ جائے تو وہ اپنے پاؤں کو اٹھا لیتا ہے تاکہ وہ اس کو روند نہ ڈالے یہ اس رحم کی وجہ سے ہے جو اس چوپائے کے دل میں ودیعت کیا گیا ہے۔ جب قیامت کا روز ہو گا تو رحمت کا یہ حصہ بھی ننانوے حصے میں شامل ہو جائے گا اور اللہ رحمت کے ان سو حصوں کے ساتھ اپنے بندوں پر رحم فرمائے گا۔‘‘(صحیح البخاري، الادب، باب جعل اللہ الرحمۃفی مائۃ جزء، ح:6000 و صحیح مسلم، التوبۃ، باب فی سعۃ رحمۃ اللہ تعالیٰ…، ح:2752) رسول اللہe نے فرمایا ’’ماں اپنی اولاد کے لیے جس قدر رحیم ہے اللہ اس سے کہیں زیادہ اپنے بندوں کے لیے رحیم ہے۔‘‘(صحیح البخاري، الادب، باب رحمۃ الولد وتقبیلہ و معانقتہ، ح:5999) اللہ تعالیٰ کی رحمت کے بارے میں آپ جو چاہیں کہیں وہ آپ کے اندازوں اور آپ کے تصور سے کہیں زیادہ ہے… پس پاک ہے وہ ذات، جو اپنے عدل و انصاف اور سزا دینے میں اسی طرح رحیم ہے جس طرح وہ اپنے فضل و احسان اور ثواب عطا کرنے میں رحیم ہے۔ بلند و بالا ہے وہ ہستی جس کی رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے اور جس کا فضل و کرم ہر زندہ مخلوق کو شامل ہے، وہ اپنی بے نیازی کے باعث اپنے بندوں سے بالا و برتر اور ان پر نہایت رحم کرنے والا ہے۔ بندے اپنے تمام احوال میں ہمیشہ اس کے محتاج ہیں اور لمحہ بھر کے لیے اللہ تعالیٰ سے بے نیاز نہیں رہ سکتے۔ فرمایا: ﴿ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَرَضِیَ لَهٗ قَوْلًا﴾ یعنی اس کی اجازت کے بغیر کوئی شخص اس کے ہاں سفارش نہیں کر سکے گا اور وہ صرف اس شخص کے لیے سفارش کی اجازت دے گا جس کے لیے وہ راضی ہو گا، یعنی انبیاء و مرسلین اور مقرب بندوں کو صرف ان لوگوں کے لیے سفارش کی اجازت ہو گی جن کی باتوں کو اللہ کی رضا حاصل ہو گی اور وہ صرف مخلص مومن ہیں ۔ اگر ان میں سے ایک شرط بھی معدوم ہو گی تو کسی کے لیے کسی کی سفارش قبول نہ ہو گی۔
Vocabulary
AyatSummary
[110
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List