Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 2
- SuraName
- تفسیر سورۂ بقرۃ
- SegmentID
- 89
- SegmentHeader
- AyatText
- {181 ـ 182} {فمن بدله}؛ أي: الإيصاء للمذكورين أو غيرهم {بعدما سمعه}؛ أي: بعد ما عقله وعرف طرقه وتنفيذه {فإنما إثمه على الذين يبدلونه}؛ وإلا فالموصي وقع أجره على الله، وإنما الإثم على المبدل المغير {إن الله سميع}؛ يسمع سائر الأصوات ومنه سماعه لمقالة الموصي ووصيته فينبغي له أن يراقب من يسمعه ويراه وأن لا يجور في وصيته، {عليم}؛ بنيته وعليم بعمل الموصَى إليه، فإذا اجتهد الموصي، وعلم الله من نيته ذلك أثابه ولو أخطأ، وفيه التحذير للموصَى إليه من التبديل، فإن الله عليم به مطلع على [ما] فعله فليحذر من الله، هذا حكم الوصية العادلة وأما الوصية التي فيها حيف وجنف وإثم فينبغي لمن حضر الموصي وقت الوصية بها أن ينصحه بما هو الأحسن والأعدل، وأن ينهاه عن الجور والجنف وهو الميل بها عن خطأ من غير تعمد، والإثم وهو التعمد لذلك، فإن لم يفعل ذلك فينبغي له أن يصلح بين الموصَى إليهم ويتوصل إلى العدل بينهم على وجه التراضي والمصالحة ووعظهم بتبرئة ذمة ميتهم، فهذا قد فعل معروفاً عظيماً، وليس عليه إثم كما على مبدل الوصية الجائزة ولهذا قال: {إن الله غفور}؛ أي: يغفر جميع الزلات ويصفح عن التبعات لمن تاب إليه، ومنه مغفرته لمن غض من نفسه وترك بعض حقه لأخيه لأن من سامح سامحه الله، غفور لميتهم الجائر في وصيته إذا احتسبوا بمسامحة بعضهم بعضاً لأجل براءة ذمته، {رحيم}؛ بعباده حيث شرع لهم كل أمر به يتراحمون ويتعاطفون. فدلت هذه الآيات على الحث على الوصية وعلى بيان من هي له وعلى وعيد المبدل للوصية العادلة والترغيب في الإصلاح في الوصية الجائرة.
- AyatMeaning
- [182-181] ﴿ فَ٘مَنْۢ بَدَّلَهٗ ﴾ ’’پس جو شخص اس (وصیت) کو بدل ڈالے۔‘‘ یعنی جو کوئی اس وصیت کو بدلتا ہے جو ان مذکور لوگوں یا دیگر لوگوں کے حق میں کی گئی ہے ﴿ بَعْدَ مَا سَمِعَهٗ ﴾ ’’اس کو سننے کے بعد‘‘ یعنی اس وصیت کو سمجھ لینے اور اس کے طریقوں اور اس کے نفاذ کو اچھی طرح جان لینے کے بعد جو کوئی اس کو تبدیل کرتا ہے ﴿ فَاِنَّمَاۤ اِثْمُهٗ عَلَى الَّذِیْنَ یُبَدِّلُوْنَهٗ ﴾ ’’تو اس کا گناہ صرف انھی لوگوں پر ہے جو انھیں تبدیل کرتے ہیں۔‘‘ ورنہ وصیت کرنے والا تو اللہ تعالیٰ کے اجر کا مستحق ہوگیا۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ ﴾ ’’بے شک اللہ سنتا ہے۔‘‘ یعنی اللہ تبارک وتعالیٰ تمام آوازوں کو سنتا ہے۔ اسی طرح وہ وصیت کرنے والے کی بات اور وصیت کو بھی سنتا ہے۔ پس وہ اس ہستی کا خوف کھاتے ہوئے جو اسے دیکھ اور سن رہی ہے اپنی وصیت میں ظلم اور زیادتی کا ارتکاب نہ کرے۔ ﴿عَلِیْمٌ﴾ وہ وصیت کرنے والے کی نیت کو جانتا ہے اور اس شخص کے عمل کو بھی جس کو یہ وصیت کی گئی ہے۔ جب وصیت کرنے والا پوری کوشش سے کام لیتا ہے اور اللہ تعالیٰ اس کی نیت کو جانتا ہے تو اسے اپنی نیت کا ثواب ملتا ہے۔ خواہ اس سے خطا ہی کیوں نہ واقع ہو۔ اس آیت کریمہ میں اس شخص کے لیے تنبیہ ہے جس کو وصیت کی گئی ہو کہ وہ اس میں تبدیلی سے باز رہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ اسے خوب جانتا ہے، اس کے فعل سے وہ باخبر ہے۔ پس اسے اللہ تعالیٰ سے ڈرنا چاہیے۔ یہ تو تھا وصیت عادلہ کا حکم، رہی وہ وصیت جو ظلم اور گناہ کی بنیاد پر کی گئی ہو، تو وصیت کے وقت جو کوئی وصیت کرنے والے کے پاس موجود ہو اسے چاہیے کہ وہ اسے اس امر کی نصیحت کرے جو بہتر اور زیادہ قرین عدل ہو اور اسے ظلم کرنے سے روکے۔ (الْجَنَف) سے مراد بغیر کسی ارادے کے غلطی سے وصیت میں ظلم کا ارتکاب کرنا۔ اور (الْاِثْم) سے مراد عمداً ظلم کرناہے۔ اگر اس نے وصیت کے وقت وصیت کرنے والے کو (غلط وصیت کرنے سے) نہیں روکا، تو اس کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ ان لوگوں کے مابین صلح کروا دے جن کو وصیت کی گئی ہے۔ ان کی باہمی رضامندی اور مصالحت کے ذریعے سے ان کے درمیان عدل و انصاف کا اہتمام کرے اور ان کو وعظ و نصیحت کرے کہ وہ اپنے مرنے والے کی ذمہ داری کو پورا کریں۔ باہمی صلح کروانے والے کا یہ فعل بہت بڑی نیکی ہے اور ان پر کوئی گناہ نہیں جیسے اس شخص کو گناہ ہوتا ہے جو جائز وصیت کو تبدیل کرتا ہے۔ بنابریں اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ تمام لغزشوں کو معاف کر دیتا ہے۔ اس شخص کی غلطیوں سے درگزر کرتا ہے جو توبہ کر کے اس کی طرف لوٹتا ہے، وہ اس شخص کو بھی اپنی مغفرت سے نوازے گا جو اپنی ذات سے صرف نظر کر کے اپنا کچھ حق اپنے بھائی کے لیے چھوڑ دیتا ہے، اس لیے کہ جو نرمی اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ بھی اس کے ساتھ نرمی اختیار کرتا ہے۔ اسی طرح وہ اس مرنے والے کو بھی بخش دینے والا ہے جو اپنی وصیت میں ظلم کا ارتکاب کر گیا ہے، بشرطیکہ اس کے ورثا اس کو بریء الذمہ کرنے کی خاطر، اللہ کی رضا کے لیے آپس میں نرمی اور درگزر کا معاملہ اختیار کریں۔ ﴿ رَّحِیْمٌ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں پر نہایت رحم کرنے والا ہے کیونکہ اس نے اپنے بندوں پر ہر معاملہ اس طرح مشروع کیا ہے کہ وہ اس کے ذریعے سے ایک دوسرے کے ساتھ مہربانی اور نرمی سے معاملہ کریں۔ یہ آیات کریمہ وصیت کی ترغیب پر دلالت کرتی ہیں ، نیز اس امر پر بھی دلالت کرتی ہیں کہ جس شخص کے لیے وصیت کی گئی ہے اس کو بیان کیاجائے اور ان میں اس شخص کے لیے سخت وعید ہے جو جائز وصیت میں تغیر و تبدل کا مرتکب ہوتا ہے۔ اور ظلم پر مبنی وصیت میں اصلاح کرنے کی ترغیب ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [182
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF