Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 18
- SuraName
- تفسیر سورۂ کہف
- SegmentID
- 846
- SegmentHeader
- AyatText
- {8} ومع ذلك سيجعلُ الله جميع هذه المذكورات فانيةً مضمحلَّةً وزائلةً منقضيةً، وستعود الأرض {صعيداً جُرزاً}: قد ذهبت لذَّاتها وانقطعتْ أنهارُها واندرستْ آثارُها وزال نعيمُها. هذه حقيقة الدُّنيا، قد جلاَّها الله لنا كأنَّها رأي عين، وحذَّرنا من الاغترار بها، ورغَّبنا في دارٍ يدوم نعيمها ويسعدُ مقيمها، كلُّ ذلك رحمةً بنا، فاغترَّ بزُخْرُفِ الدُّنيا وزينتها مَنْ نَظَرَ إلى ظاهر الدُّنيا دون باطنها، فصحبوا الدُّنيا صحبة البهائم، وتمتَّعوا بها تمتُّع السوائم، لا ينظُرون في حقِّ ربِّهم، ولا يهتمُّون لمعرفته، بل همُّهم تناول الشهوات من أيِّ وجهٍ حصلت وعلى أيِّ حالةٍ اتَّفقت؛ فهؤلاء إذا حضر أحدَهم الموتُ، قلق لخراب ذاتِهِ وفوات لذَّاتِهِ، لا لما قدَّمت يداه من التفريط والسيئات. وأمَّا من نَظَرَ إلى باطن الدُّنيا وعلم المقصود منها ومنه؛ فإنَّه تناول منها ما يستعين به على ما خُلِقَ له، وانتهز الفرصة في عمره الشريف، فجعل الدُّنيا منزل عبورٍ لا محلَّ حبور، وشُقَّة سفرٍ لا منزل إقامةٍ، فبذل جهدَهُ في معرفة ربِّه وتنفيذ أوامره وإحسان العمل؛ فهذا بأحسن المنازل عند الله، وهو حقيقٌ منه بكلِّ كرامة ونعيم وسرورٍ وتكريم، فنظر إلى باطن الدُّنيا حين نظر المغترُّ إلى ظاهرها، وعمل لآخرتِهِ حين عملَ البطَّال لدُنياه، فشتَّان ما بين الفريقين! وما أبعد الفرقَ بين الطائفتين!
- AyatMeaning
- [8] اور اس کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ تمام چیزوں کو مضمحل ہونے والی، فانی اور زائل ہو جانے والی بنایا ہے۔ عنقریب یہ زمین بے آب و گیاہ اور بنجر ہو جائے گی، اس کی تمام لذتیں ناپید ہو جائیں گی، اس کے دریا خشک ہو جائیں گے، اس کے تمام آثار مٹ جائیں گے اور اس کی نعمتیں زائل ہو جائیں گی۔ یہ ہے اس دنیا کی حقیقت، اللہ تعالیٰ نے اس حقیقت کو ہمارے سامنے اس طرح بیان کر دیا ہے گویا کہ ہم اسے اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا سے دھوکہ کھانے سے بچنے کے لیے کہا ہے اور ہمیں اس گھر کے حصول کی ترغیب دی ہے جس کی نعمتیں دائمی اور جہاں کے رہنے والے بہت خوش بخت ہیں ۔ یہ سب کچھ ہم پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہے۔ جن لوگوں کا باطن گناہوں کے میل کچیل سے آلودہ ہے اور وہ دنیا کی ظاہری شکل کی طرف دیکھتے ہیں تو وہ دنیا کی زیب و زینت سے فریب کھا جاتے ہیں تب وہ دنیا میں بہائم کی طرح رہتے ہیں ، مویشیوں کی طرح اس دنیا سے فائدہ اٹھاتے ہیں ، اپنے رب کے حق میں غور کرتے ہیں نہ اس کی معرفت کے حصول کا اہتمام کرتے ہیں بلکہ ان کے ارادے صرف شہوات کے حصول پر مرتکز ہوتے ہیں خواہ وہ کسی بھی طریقے سے اور کسی بھی حالت میں حاصل ہوں ۔ جب ان لوگوں کی موت کا وقت آتا ہے تو انھیں اپنی ذات کے ویران ہونے اور لذتوں کے چھوٹ جانے پر بہت قلق ہوتا ہے۔ اس قلق کا سبب یہ نہیں کہ وہ کوتاہی اور گناہوں کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ اور جو اس دنیا کے باطن پر نظر ڈالتا ہے اور اسے دنیا اور خود اپنے مقاصد کا علم ہوتا ہے وہ اس دنیا سے صرف اتنا سا استفادہ کرتا ہے جس سے وہ اپنے مقاصد کے حصول میں مدد لے سکے جن کے لیے اس کو تخلیق کیا گیا ہے اور اپنی عمر میں فرصت کو غنیمت جانتا ہے وہ دنیا کو راہ گزر سمجھتا ہے، آرام کی منزل نہیں ۔ وہ اسے انتہائی دشوار اور تکلیف دہ سفر سمجھتا ہے، عیش و آرام کا گھر نہیں ۔ پس وہ اپنے رب کی معرفت کے حصول اس کے احکام کے نفاذ اور اپنے اعمال کو مقام احسان پر پہنچانے کے لیے پوری جدوجہد کرتا ہے۔ یہ شخص اللہ تعالیٰ کے ہاں بہترین منازل میں قیام کرے گا وہ ہر قسم کے اکرام و تکریم، نعمتوں اور مسرتوں کا مستحق ہو گا۔ جب فریب خوردہ لوگ دنیا کے ظاہر کو دیکھتے تھے تو اس شخص کی نظر دنیا کے باطن پر تھی، جب لوگ حصول دنیا کے لیے کام کرتے تھے تو یہ اپنی آخرت کے لیے کام کرتا تھا۔ دونوں فریقوں میں بہت بڑا فرق اور دونوں گروہوں کے درمیان بہت بڑا تفاوت ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [8]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF