Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
9
SuraName
تفسیر سورۂ توبہ
SegmentID
571
SegmentHeader
AyatText
{99} وليس الأعراب كلُّهم مذمومين، بل منهم {مَن يؤمنُ بالله واليوم الآخر}: فيسلم بذلك من الكفر والنفاق، ويعمل بمقتضى الإيمان، {ويتَّخِذُ ما ينفِقُ قُرُباتٍ عند الله}؛ أي: يحتسب نفقته ويقصد بها وجهَ الله تعالى والقربَ منه، {و} يجعَلُها وسيلةً لِصَلَواتِ {الرسول}؛ أي: دعائه لهم وتبريكه عليهم. قال تعالى مبيِّناً لنفع صلوات الرسول: {ألا إنَّها قُربةٌ لهم}: تقرِّبهم إلى الله، وتُنمي أموالهم، وتُحِلُّ فيها البركة. {سيدخِلُهم الله في رحمته}: في جملة عباده الصالحين. إنَّه {غفورٌ رحيمٌ}: فيغفر السيئاتِ العظيمةَ لمن تاب إليه، ويَعُمُّ عباده برحمتِهِ التي وسعت كلَّ شيء، ويخصُّ عباده المؤمنين برحمةٍ يوفِّقهم فيها إلى الخيرات، ويحميهم فيها من المخالفات، ويجزِلُ لهم فيها أنواع المثوبات. وفي هذه الآية دليلٌ على أنَّ الأعراب كأهل الحاضرة؛ منهم الممدوح ومنهم المذموم، فلم يذمُّهم الله على مجرَّد تعرُّبهم وباديتهم، إنَّما ذمَّهم على ترك أوامر الله، وأنهم في مظنة ذلك. ومنها: أنَّ الكفر والنفاق يزيد وينقص ويغلُظُ، ويخِفُّ بحسب الأحوال. ومنها: فضيلة العلم، وأنَّ فاقِدَه أقرب إلى الشرِّ ممَّن يعرفه؛ لأنَّ الله ذمَّ الأعراب، وأخبر أنهم أشدُّ كفراً ونفاقاً، وذكر السبب الموجب لذلك، وأنَّهم أجدر أن لا يعلموا حدود ما أنزل الله على رسوله. ومنها: أن العلم النافع الذي هو أنفع العلوم معرفة حدود ما أنزل الله على رسوله من أصول الدين وفروعه؛ كمعرفة حدود الإيمان والإسلام والإحسان والتقوى والفلاح والطاعة والبرِّ والصِّلة والإحسان والكفر والنفاق والفسوق والعصيان والزنا والخمر والربا ونحو ذلك؛ فإن في معرفتها يُتَمَكَّن من فعلها إن كانت مأموراً بها أو تركها إن كانت محظورة، ومن الأمر بها أو النهي عنها. ومنها: أنه ينبغي للمؤمن أن يؤدي ما عليه من الحقوق، منشرح الصدر، مطمئن النفس، ويحرص أن تكون مغنماً ولا تكون مغرماً.
AyatMeaning
[99] تمام اعراب قابل مذمت نہیں ہیں بلکہ ان میں سے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں ﴿مَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ ﴾ ’’جو اللہ اور آخرت کے دن پر یقین رکھتے ہیں ‘‘ بنا بریں وہ کفر و نفاق سے بچے ہوئے ہیں اور ایمان کے تقاضوں کے مطابق عمل کرتے ہیں ۔ ﴿ وَیَتَّؔخِذُ مَا یُنْفِقُ قُ٘رُبٰتٍ عِنْدَ اللّٰهِ ﴾ ’’اور جو وہ خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے نزدیک ہونے میں شمار کرتے ہیں ‘‘ یعنی وہ اپنے صدقے پر ثواب کی امید رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول اور اس کے قرب کے قصد سے صدقہ دیتے ہیں ۔ ﴿ وَصَلَوٰتِ الرَّسُوْلِ﴾ ’’اور رسول کی دعائیں لینے میں ‘‘ اور وہ اس صدقہ کو اپنے لیے رسولe کی دعاؤں اور برکت کا وسیلہ بناتے ہیں ۔ اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے رسولe کی دعاؤں کے فائدہ مند ہونے کا ذکر کرتے ہوئے فرماتا ہے: ﴿ اَلَاۤ اِنَّهَا قُ٘رْبَةٌ لَّهُمْ﴾ ’’سنو وہ بے شک ان کے لیے (موجب) قربت ہے۔‘‘ یعنی یہ صدقات اللہ تعالیٰ کے تقرب کا ذریعہ ہیں ۔ صدقات سے ان کا مال بڑھتا ہے اور اس میں برکت نازل ہوتی ہے ﴿ سَیُدْخِلُهُمُ اللّٰهُ فِیْ رَحْمَتِهٖ﴾ ’’اللہ ان کو عنقریب اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔‘‘ وہ ان کو اپنے جملہ نیک بندوں میں شامل کرے گا۔ ﴿ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ ’’بے شک وہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘ جو کوئی توبہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے بڑے بڑے گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ وہ اپنی رحمت کو اپنے تمام بندوں پر عام کرتا ہے، اس کی بے پایاں رحمت ہر چیز پر سایہ کناں ہے۔ وہ اپنے مومن بندوں کو ایسی رحمت کے لیے مخصوص کرتا ہے جس کے تحت وہ ان کو نیکیوں کی توفیق عطا کرتا ہے اور انھیں اپنے احکام کی خلاف ورزی سے محفوظ رکھتا ہے اور انھیں مختلف انواع کے ثواب عطا کرتا ہے۔ (۱) اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ بدوی لوگ بھی شہروں میں رہنے والے لوگوں کی مانند ہیں ان میں قابل ستائش لوگ بھی ہیں اور قابل مذمت بھی۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے بدویوں کی محض اس بنا پر مذمت نہیں فرمائی کہ وہ صحراؤں میں رہنے والے ہیں بلکہ ان کی مذمت اس سبب کی بنا پر کی ہے کہ انھوں نے اللہ تعالیٰ کے اوامر کو ترک کر دیا اور اوامر و منہیات کی عدم تعمیل کی ان سے زیادہ توقع ہوتی ہے۔ (۲) کفر اور نفاق کم یا زیادہ اور حسب احوال سخت یا نرم ہوتا رہتا ہے۔ (۳) یہ آیات کریمہ دلالت کرتی ہیں کہ علم کو فضیلت حاصل ہے۔ علم سے محروم شخص، اس شخص کی نسبت شر کے زیادہ قریب ہے جو علم رکھتا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں اعراب کی مذمت کرتے ہوئے آگاہ فرمایا کہ وہ کفر اور نفاق میں بہت سخت ہیں اور اللہ تعالیٰ نے اس سبب کا ذکر بھی کیا ہے جو اس درشتی کا موجب ہے۔ ان سے زیادہ توقع کی جا سکتی ہے کہ وہ ان حدود سے ناواقف ہوں جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولe پر نازل کی ہیں ۔ (۴) علم نافع، جو سب سے زیادہ نفع مند علم ہے، دین کے اصول و فروع کی حدود کی معرفت ہے جو اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول پر نازل فرمائی ہیں ، مثلاً:حدود ایمان، حدود اسلام، حدود احسان، تقویٰ، فلاح، اطاعت، نیکی، صلہ رحمی، بھلائی، کفر، نفاق، فسق و فجور، نافرمانی، زنا، شراب نوشی اور سود خوری وغیرہ کی حدود۔ ان حدود کی معرفت کے بعد ہی عارف ان حدود پر عمل پیرا ہو سکتا ہے جن پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے یا حرام ہونے کی صورت میں ترک کرنے پر قادر ہو سکتا ہے۔ (۵) بندۂ مومن کے لیے یہی مناسب ہے کہ وہ شرح صدر اور اطمینان قلب کے ساتھ ان حقوق کو ادا کرے جو اس کے ذمے عائد کیے گئے ہیں اور ہمیشہ فائدہ حاصل کرنے میں کوشاں رہے اور نقصان سے بچتا رہے۔
Vocabulary
AyatSummary
[99]
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List