Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
7
SuraName
تفسیر سورۂ اعراف
SegmentID
477
SegmentHeader
AyatText
{148} {واتَّخذ قوم موسى مِن بعدِهِ من حُلِيِّهم عجلاً جسداً}: صاغه السامِرِيُّ وألقى عليه قبضةً من أثر الرسول فصار {له خُوارٌ} وصوتٌ، فعبدوه واتَّخذوه إلهاً، وقال: هذا إلهكم وإله موسى، فنسي موسى، وذهب يطلبه، وهذا من سفههم وقلة بصيرتهم؛ كيف اشتبه عليهم ربُّ الأرض والسماوات بعجل من أنقص المخلوقات؟! ولهذا قال مبيناً أنه ليس فيه من الصفات الذاتيَّة ولا الفعليَّة ما يوجِب أن يكون إلهاً: {ألم يَرَوْا أنَّه لا يكلِّمهم}؛ أي: وعدم الكلام نقصٌ عظيمٌ؛ فهم أكمل حالة من هذا الحيوان أو الجماد الذي لا يتكلَّم، {ولا يهديهم سبيلاً}؛ أي: لا يدلُّهم طريقاً دينيًّا ولا يحصِّل لهم مصلحةً دنيويَّةً؛ لأن من المتقرِّر في العقول والفطر أنَّ اتِّخاذَ إلهٍ لا يتكلم ولا ينفع ولا يضرُّ من أبطل الباطل وأسمج السفه، ولهذا قال: {اتَّخذوه وكانوا ظالمينَ}: حيث وضعوا العبادة في غير موضعها، وأشركوا بالله ما لم ينزِّل به سلطاناً. وفيها دليلٌ على أنَّ من أنكر كلام الله؛ فقد أنكر خصائص إلهيَّة الله تعالى؛ لأن الله ذكر أن عدم الكلام دليلٌ على عدم صلاحيَّة الذي لا يتكلَّم للإلهيَّة.
AyatMeaning
[148] ﴿ وَاتَّؔخَذَ قَوْمُ مُوْسٰؔى مِنْۢ بَعْدِهٖ مِنْ حُلِیِّهِمْ عِجْلًا جَسَدًا﴾ ’’اور بنا لیا موسیٰ کی قوم نے اس کے پیچھے اپنے زیور سے بچھڑا، ایک بدن۔‘‘بچھڑے کے اس بت کو سامری نے بنایا تھا۔ اس نے فرشتے کے نشان قدم سے مٹھی بھر مٹی لے کر بچھڑے کے بت پر ڈال دی۔ ﴿ لَّهٗ خُوَارٌ ﴾ ’’اس کی آوازتھی۔‘‘ اس میں سے بچھڑے کی آواز آنے لگی۔ بنی اسرائیل نے اس کو معبود مان لیا اور اس کی عبادت کرنے لگے۔ سامری نے کہا ’’یہ تمھارا اور موسیٰ کا معبود ہے، موسیٰ اسے بھول گیا ہے اور اسے تلاش کرتا پھر رہا ہے‘‘… یہ ان کی سفاہت اور قلت بصیرت کی علامت ہے ان پر زمین اور آسمانوں کے پروردگار اور ایک بچھڑے کے درمیان کیسے اشتباہ واقع ہوگیا۔ بچھڑا تو کمزور ترین مخلوق ہے؟ اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ اس بچھڑے کے اندر ایسی صفات ذاتی یا صفات فعلی موجود نہیں ہیں جو اس کے معبود ہونے کے استحقاق کو ثابت کرتی ہوں ، چنانچہ فرمایا: ﴿ اَلَمْ یَرَوْا اَنَّهٗ لَا یُكَلِّمُهُمْ ﴾ ’’کیا انھوں نے یہ نہیں دیکھا کہ وہ ان سے بات بھی نہیں کرتا‘‘ یعنی کلام کرنے سے محرومی ایک بہت بڑا نقص ہے، وہ خود اس حیوان سے زیادہ کامل حالت کے مالک ہیں جو بولنے کی قدرت نہیں رکھتا۔ ﴿ وَلَا یَهْدِیْهِمْ سَبِیْلًا﴾ ’’اور نہیں بتلاتا ان کو راستہ‘‘ یعنی وہ کسی دینی طریقے کی طرف ان کی راہنمائی نہیں کر سکتا اور نہ انھیں کوئی دنیاوی فائدہ عطا کر سکتا ہے۔ انسانی عقل و فطرت میں یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ کسی ایسی ہستی کو خدا بنانا جو کلام نہیں کر سکتی جو کسی کو نفع و نقصان نہیں دے سکتی، سب سے بڑا باطل اور سب سے بڑی بے وقوفی ہے۔ بنابریں فرمایا: ﴿اِتَّؔخَذُوْهُ وَؔكَانُوْا ظٰلِمِیْنَ ﴾ ’’انھوں نے اس کو معبود بنا لیا اور وہ ظالم تھے‘‘ کیونکہ انھوں نے ایسی ہستی کی عبادت کی جو عبادت کی مستحق نہ تھی، انھوں نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک کیا جس پر اللہ تعالیٰ نے کوئی دلیل نازل نہیں فرمائی۔ یہ آیت کریمہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ جو کوئی اللہ تعالیٰ کے کلام کا انکار کرتا ہے تو وہ تمام خصائص الہیہ کا منکر ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ کلام نہ کرنا اس ہستی کے الہ ہونے کی عدم صلاحیت پر دلیل ہے جو کلام نہیں کر سکتی۔
Vocabulary
AyatSummary
[148
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List