Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 7
- SuraName
- تفسیر سورۂ اعراف
- SegmentID
- 473
- SegmentHeader
- AyatText
- {89} {قدِ افتَرَيْنا على الله كذباً إن عُدْنا في ملَّتكم بعد إذ نجَّانا الله منها}؛ أي: اشهدوا علينا أننا إن عُدنا [فيها] بعد ما نجَّانا الله منها وأنقذنا من شرِّها أننا كاذبون مفترون على الله الكذب؛ فإننا نعلمُ أنه لا أعظم افتراء ممَّن جعل لله شريكاً وهو الواحد الأحد الفرد الصمد الذي لم يتَّخذ صاحبة ولا ولداً ولا شريكاً في الملك. {وما يكونُ لنا أن نعودَ فيها}؛ أي: يمتنع على مثلنا أن نعودَ فيها؛ فإنَّ هذا من المحال، فآيَسَهم عليه الصلاة والسلام من كونه يوافقهم من وجوهٍ متعددةٍ. من جهة أنهم كارهون لها مبغضون لما هم عليه من الشرك. ومن جهة أنه جعل ما هم عليه كذباً وأشهدهم أنه إنِ اتَّبَعَهم ومن معه فإنَّهم كاذبون. ومنها اعترافُهم بمنَّة الله عليهم إذ أنقذهم الله منها، ومنها أنَّ عودَهم فيها بعدما هداهم الله من المحالات بالنظر إلى حالتهم الراهنة وما في قلوبهم من تعظيم الله تعالى والاعتراف له بالعبوديَّة وأنه الإله وحده الذي لا تنبغي العبادة إلاَّ له وحده لا شريك له، وأنَّ آلهة المشركين أبطل الباطل وأمحل المحال، وحيث إنَّ اللهَ منَّ عليهم بعقول يعرفون بها الحقَّ والباطل والهدى والضلال، وأما من حيث النظر إلى مشيئة الله وإرادته النافذة في خلقه التي لا خروجَ لأحدٍ عنها ولو تواترتِ الأسبابُ وتوافقت القوى؛ فإنَّهم لا يحكمون على أنفسهم أنهم سيفعلون شيئاً أو يتركونه، ولهذا استثنى: {وما يكونُ لنا أن نعودَ فيها إلا أن يشاء اللهُ ربُّنا}؛ أي: فلا يمكننا ولا غيرنا الخروج عن مشيئته التابعة لعلمه وحكمته، وقد {وَسِعَ ربُّنا كلَّ شيءٍ علماً}: فيعلم ما يصلُح للعباد، وما يدبِّرُهم عليه. {على الله توكَّلْنا}؛ أي: اعتمدنا أنه سيثبِّتنا على الصراط المستقيم، وأن يعصِمَنا من جميع طرق الجحيم؛ فإن من توكَّل على الله كفاه ويسَّر له أمر دينه ودنياه. {ربَّنا افتحْ بينَنا وبين قومِنا بالحقِّ}؛ أي: انصر المظلوم وصاحب الحق على الظالم المعاند للحق، {وأنت خيرُ الفاتحين}: وفتحُهُ تعالى لعباده نوعان: فتحُ العلم بتبيين الحقِّ من الباطل والهدى من الضلال ومَنْ هو المستقيمُ على الصراط ممَّن هو منحرفٌ عنه. والنوع الثاني: فتحُهُ بالجزاء وإيقاع العقوبة على الظالمين، والنجاة والإكرام للصالحين. فسألوا الله أن يفتحَ بينَهم وبين قومهم بالحقِّ والعدل، وأن يريَهم من آياتِهِ وعِبَرِهِ ما يكون فاصلاً بين الفريقين.
- AyatMeaning
- [89] ﴿قَدِ افْتَرَیْنَا عَلَى اللّٰهِ كَذِبً٘ا اِنْ عُدْنَا فِیْ مِلَّتِكُمْ بَعْدَ اِذْ نَجّٰؔىنَا اللّٰهُ مِنْهَا﴾ ’’اگر ہم اس کے بعد کہ اللہ ہمیں اس سے نجات بخش چکا ہے، تمھارے مذہب میں لوٹ جائیں تو بے شک ہم نے اللہ پر جھوٹ باندھ دیا۔‘‘ یعنی تم گواہ رہو کہ اگر ہم تمھاری ملت اور دین میں واپس لوٹ آئے اس کے بعد کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس سے نجات دے دی ہے اور اس کے شر سے ہمیں بچا لیا ہے... تو ہم جھوٹے اور اللہ تعالیٰ پر بہتان طرازی کرنے والے ہیں ۔ کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ اس شخص سے بڑھ کر کوئی افتراء پرداز نہیں جو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہراتا ہے حالانکہ وہ ایک، یکتا اور بے نیاز ہے جس کی کوئی بیوی ہے نہ بیٹا اور نہ اقتدار میں کوئی شریک۔ ﴿ وَمَا یَكُوْنُ لَنَاۤ اَنْ نَّعُوْدَ فِیْهَاۤ ﴾ ’’اور ہمیں شایاں نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ۔‘‘ یعنی ہم جیسے لوگوں کے لیے ممکن نہیں کہ ہم اس دین میں پھر لوٹ آئیں کیونکہ یہ بالکل محال ہے۔ جناب شعیبu نے متعدد وجوہ سے کفار کو اس بات سے مایوس کر دیا کہ وہ ان کی موافقت کریں گے۔ (۱) حضرت شعیبu اور ان کے اصحاب ان کے دین کو ناپسند کرتے تھے اور اس سے سخت بغض رکھتے تھے کیونکہ ان کا دین شرک پر مبنی تھا۔ (۲) جناب شعیب نے ان کے دین کو جھوٹ قرار دیا تھا اور ان کو اس بات پر گواہ بنایا تھا کہ اگر انھوں نے اور ان کے اصحاب نے کفار کے دین کی اتباع کی تو وہ جھوٹے ہیں ۔ (۳) انھوں نے علی الاعلان اعتراف کیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو کفار کے دین سے بچا کر ان پر احسان کیا ہے۔ (۴) ان کی استقامت پر مبنی حالت پر غور کریں ، ان کے دلوں میں اللہ تعالیٰ کی جو تعظیم، اس کی عبودیت کا جو اعتراف، نیز اس بات کا اعتراف کہ وہی الٰہ واحد ہے صرف وہی اکیلا عبادت کے لائق ہے، اس کا کوئی شریک نہیں اور اس بات کا اعلان کہ مشرکین کے گھڑے ہوئے معبود سب سے بڑا باطل اور سب سے بڑا فریب ہیں ..... ان امور کو دیکھتے ہوئے یہ بات محال ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ان کو ہدایت سے نوازنے کے بعد وہ ان کے دین میں واپس لوٹیں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایسی عقل سے نوازا ہے جس کے ذریعے سے وہ حق اور باطل، ہدایت اور گمراہی کو پہچانتے ہیں ۔ اور اگر اللہ تعالیٰ کی مشیت اور تمام مخلوقات میں نافذ اس کے ارادے میں غور کیا جائے، جس سے باہر نکلنا کسی کے لیے ممکن نہیں خواہ پے درپے اسباب مہیا ہوں اور قوتیں باہم موافق ہوں ..... تو وہ اپنے بارے میں یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ وہ عنقریب فلاں فعل سر انجام دیں گے یا اس کو چھوڑ دیں گے۔ بنابریں شعیبu نے استثناء کا اسلوب استعمال کرتے ہوئے فرمایا ﴿ وَمَا یَكُوْنُ لَنَاۤ اَنْ نَّعُوْدَ فِیْهَاۤ اِلَّاۤ اَنْ یَّشَآءَ اللّٰهُ رَبُّنَا ﴾ ’’اور ہمیں شایاں نہیں کہ ہم اس میں لوٹ جائیں ، ہاں اللہ جو ہمارا رب ہے وہ چاہے تو۔‘‘ یعنی ہمارے لیے یا کسی اور کیلیے اللہ تعالیٰ کی مشیت سے، جو اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کی حکمت کے تابع ہے، باہر نکلنا ممکن نہیں ۔ ﴿ وَسِعَ رَبُّنَا كُ٘لَّ٘ شَیْءٍ عِلْمًا﴾ ’’گھیرے ہوئے ہے ہمارا پروردگار سب چیزوں کو اپنے علم میں ‘‘ پس وہ جانتا ہے کہ بندوں کے لیے کیا درست ہے اور کس چیز کے ذریعے سے وہ بندوں کی تدبیر کرے ﴿ عَلَى اللّٰهِ تَوَؔكَّلْنَا﴾ ’’ہمارا اللہ ہی پر بھروسا ہے۔‘‘ یعنی ہمیں اللہ تعالیٰ پر اعتماد ہے کہ وہ ہمیں صراط مستقیم پر ثابت قدم رکھے گا اور جہنم کے تمام راستوں سے ہمیں بچائے گا۔ کیونکہ جو کوئی اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کرتا ہے وہ اس کے لیے کافی ہو جاتا ہے اور وہ اس کے دین اور دنیا کے معاملے کو آسان کر دیتا ہے۔ ﴿ رَبَّنَا افْ٘تَحْ بَیْنَنَا وَبَیْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ ﴾ ’’اے ہمارے رب فیصلہ کر ہم میں اور ہماری قوم میں انصاف کے ساتھ‘‘ یعنی ظالم اور حق کے خلاف عناد رکھنے والے کے مقابلے میں مظلوم اور صاحب حق کی مدد فرما۔ ﴿ وَاَنْتَ خَیْرُ الْفٰتِحِیْنَ ﴾ ’’اور تو سب سے بہتر فیصلہ کرنے والا ہے‘‘ اپنے بندوں کے لیے اللہ تعالیٰ کے فیصلے کی دو اقسام ہیں : (۱) اللہ تعالیٰ باطل میں سے حق کو، گمراہی میں سے ہدایت کو بیان کر کے نیز یہ واضح کر کے کہ کون صراط مستقیم پر گامزن ہے اور کون اس سے منحرف ہے .... فیصلہ کرتا ہے یہ اس کا علمی فیصلہ ہے۔ (۲) ظالموں کو سزا دینے اور صالحین کو نجات اور اکرام عطا کرنے کے لیے جو فیصلہ کرتا ہے وہ اس کا جزائی فیصلہ ہے۔ پس اہل ایمان نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ وہ حق اور انصاف کے ساتھ ان کے اور ان کی قوم کے درمیان فیصلہ فرما دے اور وہ انھیں ایسی آیات و علامات دکھا دے جو فریقین کے مابین فیصلہ کن حیثیت رکھتی ہیں ۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [89]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF