Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 7
- SuraName
- تفسیر سورۂ اعراف
- SegmentID
- 467
- SegmentHeader
- AyatText
- {56} {ولا تفسدوا في الأرض}: بعمل المعاصي {بعد إصلاحها}: بالطاعات؛ فإن المعاصي تفسد الأخلاق والأعمال والأرزاق؛ كما قال تعالى: {ظهر الفسادُ في البرِّ والبحر بما كسبتْ أيدي الناس}: كما أنَّ الطاعات تصلُحُ بها الأخلاق والأعمال والأرزاق وأحوال الدُّنيا والآخرة. {وادعوه خوفاً وطمعاً}؛ أي: خوفاً من عقابه، وطمعاً في ثوابه، طمعاً في قبولها وخوفاً من ردِّها، لا دعاء عبد مدلٍّ على ربه، قد أعجبته نفسه، ونزَّل نفسه فوق منزلته، أو دعاء من هو غافل لاهٍ. وحاصل ما ذكر الله من آداب الدعاء: الإخلاصُ فيه لله وحده؛ لأنَّ ذلك يتضمَّنه الخفية، وإخفاءه وإسراره، وأن يكون القلبُ خائفاً طامعاً لا غافلاً ولا آمناً ولا غير مبالٍ بالإجابة، وهذا من إحسان الدعاء؛ فإن الإحسان في كل عبادة بَذْلُ الجهد فيها وأداؤها كاملةً لا نقصَ فيها بوجه من الوجوه. ولهذا قال: {إنَّ رحمةَ الله قريبٌ من المحسنين}: في عبادة الله، المحسنين إلى عباد الله، فكلَّما كان العبد أكثر إحساناً؛ كان أقرب إلى رحمة ربِّه، وكان ربُّه قريباً منه برحمته. وفي هذا من الحثِّ على الإحسان ما لا يخفى.
- AyatMeaning
- [56] ﴿وَلَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ ﴾ ’’اور زمین میں فساد نہ پھیلاؤ۔‘‘ یعنی اپنی نافرمانیوں کے ذریعے سے زمین میں فساد نہ پھیلاؤ ﴿بَعْدَ اِصْلَاحِهَا ﴾ ’’اس کی اصلاح کے بعد‘‘ یعنی اطاعت اور نیکی کے ذریعے سے اس کی اصلاح کر لینے کے بعد۔ کیونکہ معاصی، اخلاق، اعمال اور رزق کو فاسد کر دیتے ہیں جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ﴿ ظَهَرَ الْفَسَادُ فِی الْـبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ اَیْدِی النَّاسِ﴾ (الروم: 30؍41) ’’لوگوں کی بداعمالیوں کے سبب سے بحر و بر میں فساد پھیل گیا۔‘‘ جیسے نیکیوں سے اخلاق، اعمال، رزق اور دنیا و آخرت کے احوال کی اصلاح ہوتی ہے۔ ﴿وَادْعُوْهُ خَوْفًا وَّطَمَعًا ﴾ ’’اور اس (اللہ) سے خوف کرتے ہوئے اور امید رکھ کر دعائیں مانگتے رہو۔‘‘ اس کے عذاب سے ڈرتے ہوئے اور اس کے ثواب کی امید رکھتے ہوئے اسے پکارو۔ نیز یہ امید بھی رکھو کہ اللہ تعالیٰ اس دعا کو قبول فرمائے گا اور اس بات سے بھی ڈرو کہ کہیں اللہ تعالیٰ دعا کو رد نہ کر دے۔ اس بندے کی طرح دعا نہ مانگو جو ناز و ادا کے ذریعے سے اپنے رب کے سامنے جرأت اور گستاخی کا مرتکب ہوتا ہے۔ جو خود پسندی کا شکار ہے اور جس نے اپنے نفس کو اس کی اصل حیثیت سے بڑھ کر حیثیت دی ہے اور نہ اس شخص کی طرح دعا مانگو جو غافل دل کے ساتھ دعا مانگتا ہے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے آداب دعا کے بارے میں جو کچھ ذکر فرمایا ہے اس کا حاصل یہ ہے کہ دعا میں صرف اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص ہو اور دعائے خفی اللہ تعالیٰ کے لیے اخلاص کو متضمن ہے۔ دعا کا چھپانا اور اس کا اخفاء یہ ہے کہ دل اللہ تعالیٰ سے خائف ہو اور اس کے ساتھ ساتھ دعا کی قبولیت کی امید رکھتا ہو، غافل دل کے ساتھ دعا نہ کرے، اپنے آپ کو مامون نہ سمجھے اور نہ قبولیت دعا کے بارے میں بے پروائی کا اظہار کرے اور یہ چیز دعا میں احسان کا درجہ رکھتی ہے۔ کیونکہ ہر عبادت میں احسان یہ ہے کہ بندہ اس عبادت میں اپنی پوری جدوجہد صرف کر دے، اسے نہایت کامل طریقے سے ادا کرے اور کسی طور بھی اس میں نقص واقع نہ ہونے دے۔ اسی لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ﴿اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَ٘رِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ﴾ ’’اللہ کی رحمت احسان کرنے والوں کے قریب ہے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت میں مقام احسان پر پہنچنے والے اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ بھلائی سے پیش آنے والے لوگ۔ پس بندہ جتنا زیادہ احسان کے مقام پر فائز ہوگا اتنی ہی زیادہ اللہ تعالیٰ کی رحمت اس کے قریب ہوگی۔ اس آیت کریمہ میں احسان کی ترغیب ہے، جو مخفی نہیں ۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [56]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF