Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
6
SuraName
تفسیر سورۂ انعام
SegmentID
430
SegmentHeader
AyatText
{124} وإنما ثبتَ أكابر المجرمين على باطلهم، وقاموا بردِّ الحقِّ الذي جاءت به الرسل، حسداً منهم وبغياً، فقالوا: {لن نؤمنَ حتَّى نُؤتى مثلَ ما أوتي رسلُ الله}: من النبوة والرسالة، وفي هذا اعتراض منهم على الله، وعجبٌ بأنفسهم، وتكبُّرٌ على الحقِّ الذي أنزله على أيدي رسله، وتحجُّرٌ على فضل الله وإحسانه، فردَّ الله عليهم اعتراضهم الفاسد، وأخبر أنهم لا يصلحون للخير، ولا فيهم ما يوجِبُ أن يكونوا من عبادِ الله الصالحين، فضلاً أن يكونوا من النبيين والمرسلين، فقال: {الله أعلم حيثُ يجعلُ رسالَتَه}؛ فمَنْ عَلِمَهُ يَصْلُحُ لها ويقوم بأعبائها وهو متَّصفٌ بكلِّ خلق جميل ومتبرئ من كل خلق دنيء، أعطاه الله ما تقتضيه حكمتُه أصلاً وتبعاً، ومَن لم يكن كذلك؛ لم يضع أفضل مواهبه عند من لا يستأهله ولا يزكو عنده. وفي هذه الآية دليل على كمال حكمة الله تعالى: لأنَّه وإن كان تعالى رحيماً واسع الجود كثير الإحسان؛ فإنه حكيمٌ لا يضع جوده إلا عند أهله. ثم توعَّد المجرمين، فقال: {سيصيبُ الذين أجرموا صَغارٌ عند الله}؛ أي: إهانةٌ وذُلٌّ؛ كما تكبَّروا على الحقِّ؛ أذلَّهم الله، {وعذابٌ شديدٌ بما كانوا يمكُرون}؛ أي: بسبب مكرِهم لا ظلماً منه تعالى.
AyatMeaning
[124] بڑے بڑے مجرم صرف حسد اور بغاوت کی بنا پر باطل پر قائم اور حق کو ٹھکرا رہے تھے اور کہتے تھے ﴿ ٘لَنْ نُّؤْمِنَ حَتّٰى نُؤْتٰى مِثْ٘لَ مَاۤ اُوْتِیَ رُسُلُ اللّٰهِ﴾ ’’ہم ہرگز نہ مانیں گے جب تک کہ نہ دیا جائے ہم کو جیسا کچھ دیا گیا ہے اللہ کے رسولوں کو‘‘ یعنی نبوت اور رسالت۔ یہ ان کی طرف سے محض اللہ تبارک و تعالیٰ پر اعتراض، ان کی خود پسندی اور اس حق کے مقابلے میں تکبر کا اظہار تھا جسے اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیا و رسل پر نازل فرمایا تھا، نیز اللہ تعالیٰ کے فضل و احسان پر قدغن لگانی تھی۔ تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کے فاسد اعتراض کو رد کرتے ہوئے آگاہ فرمایا کہ یہ لوگ بھلائی کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ نیز یہ کہ ان لوگوں کا انبیا و مرسلین بننا تو کجا ان میں تو کوئی ایسی چیز بھی نہیں جو ان کو اللہ کے نیک بندوں میں شمار کرنے کی موجب ہو، اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اَللّٰهُ اَعْلَمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَهٗ ﴾ ’’اللہ خوب جانتا ہے اس موقع کو جہاں رکھے وہ اپنی پیغمبری‘‘ یعنی اللہ کے علم میں جو رسول بننے کا اہل ہے، جو رسالت کے بوجھ کو اٹھا سکتا ہے، جو ہر قسم کے خلق جمیل سے متصف اور ہر قسم کے گندے اخلاق سے مبرا ہو، اللہ تعالیٰ اپنی حکمت کے تقاضے کے مطابق اسے رسالت کا منصب عطا کرتا ہے اور جو اس معیار پر پورا نہ اترتا ہو اور اس کی اہلیت نہ رکھتا ہو تو اللہ تعالیٰ اس کو اپنے بہترین مواہب سے ہرگز نہیں نوازتا اور نہ وہ اللہ تعالیٰ کے ہاں پاک گردانا جاتا ہے۔ یہ آیت کریمہ اللہ تعالیٰ کے کمال حکمت پر دلالت کرتی ہے۔ ہر چند کہ اللہ تعالیٰ نہایت رحیم، وسیع جود و کرم اور بہت فضل و احسان کا مالک ہے تاہم وہ حکیم بھی ہے اس لیے وہ اپنی بخشش سے صرف اس کو نوازتا ہے جو اس کا اہل ہوتا ہے، پھر اللہ تعالیٰ نے مجرموں کو وعید سناتے ہوئے فرمایا: ﴿ سَیُصِیْبُ الَّذِیْنَ اَجْرَمُوْا صَغَارٌ عِنْدَ اللّٰهِ ﴾ ’’عنقریب پہنچے گی گناہ گاروں کو ذلت، اللہ کے ہاں ‘‘ یعنی اہانت اور ذلت۔ جیسے وہ حق کے ساتھ تکبر سے پیش آئے، اللہ تعالیٰ نے ان کو ذلیل و رسوا کر دیا۔ ﴿ وَعَذَابٌ شَدِیْدٌۢ بِمَا كَانُوْا یَمْؔكُرُوْنَ﴾ ’’اور سخت عذاب، اس وجہ سے کہ وہ مکر کرتے تھے‘‘ یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان پر ظلم نہیں بلکہ ان کی چالبازیوں کے سبب سے اللہ تعالیٰ انھیں سخت عذاب میں مبتلا کرے گا۔
Vocabulary
AyatSummary
[124
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List