Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
6
SuraName
تفسیر سورۂ انعام
SegmentID
424
SegmentHeader
AyatText
{113} ولهذا قال تعالى: {ولِتَصْغَى إليه}؛ أي: ولتميلَ إلى ذلك الكلام المزخرف {أفئدةُ الذين لا يؤمنون بالآخرة}: لأن عدم إيمانهم باليوم الآخر وعدم عقولهم النافعة يحمِلُهم على ذلك، {ولِيَرْضَوْه}: بعد أن يَصْغَوا إليه، فيصغَوْن إليه أولاً، فإذا مالوا إليه ورأوا تلك العبارات المستحسنة؛ رضوه وزُيِّن في قلوبهم وصار عقيدةً راسخةً وصفة لازمة، ثم ينتجُ من ذلك أن يقترفوا من الأعمال والأقوال ما هم مقترفون؛ أي: يأتون من الكذب بالقول والفعل ما هو من لوازم تلك العقائد القبيحة؛ فهذه حال المفترين شياطين الإنس والجن المستجيبين لدعوتهم، وأما أهل الإيمان بالآخرة وأولو العقول الوافية والألباب الرزينة؛ فإنهم لا يغترُّون بتلك العبارات، ولا تخلبهم تلك التمويهات، بل همَّتهم مصروفةٌ إلى معرفة الحقائق، فينظرون إلى المعاني التي يدعو إليها الدعاة؛ فإن كانت حقًّا؛ قبلوها وانقادوا لها، ولو كُسِيَتْ عباراتٍ رديةً وألفاظاً غير وافية، وإن كانت باطلاً؛ ردُّوها على من قالها، كائناً مَن كان، ولو ألبست من العبارات المستحسنة ما هو أرقُّ من الحرير. ومن حكمةِ اللهِ تعالى في جعله للأنبياء أعداءً وللباطل أنصاراً قائمين بالدعوة إليه: أن يحصُلَ لعبادِهِ الابتلاءُ والامتحانُ؛ ليتميَّز الصادقُ من الكاذب، والعاقل من الجاهل، والبصير من الأعمى. ومن حكمتِهِ: أنَّ في ذلك بياناً للحقِّ وتوضيحاً له؛ فإنَّ الحقَّ يستنير ويتَّضح إذا قام الباطل يصارعه ويقاومه؛ فإنه حينئذ يتبيَّن من أدلة الحقِّ وشواهده الدالة على صدقه وحقيقته ومن فساد الباطل وبطلانه ما هو من أكبر المطالب التي يتنافس فيها المتنافسون.
AyatMeaning
[113] بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے فرمایا ﴿ وَلِتَصْغٰۤى اِلَیْهِ ﴾ ’’تاکہ اس کی طرف مائل ہوں ۔‘‘ یعنی اس مزین کلام کو سننے کی طرف مائل ہوں ﴿ اَفْــِٕدَةُ الَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَةِ ﴾ ’’ان لوگوں کے دل جو آخرت پر یقین نہیں رکھتے‘‘ کیونکہ یوم آخرت پر ان کا ایمان نہ رکھنا اور عقل نافع سے ان کا محروم ہونا، ان کو اس بات پر آمادہ کرتا ہے ﴿ وَلِیَ٘رْضَوْهُ ﴾ ’’اور تاکہ وہ اس کو پسند بھی کر لیں ‘‘ یعنی اس کی طرف مائل ہونے کے بعد۔ پس ان کے دل پہلے اس کی طرف مائل ہوتے ہیں پھر ان خوبصورت اور مزین عبارت کو جب دیکھتے ہیں تو ان کو پسند کرنے لگتے ہیں یہ عبارات ان کے دل میں سج جاتی ہیں اور ایک راسخ عقیدہ اور لازم وصف بن جاتی ہیں ، پھر اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ان سے اس قسم کے اعمال سرزد ہوتے ہیں یعنی وہ اپنے قول و فعل میں جھوٹ کا ارتکاب کرتے ہیں جو ان عقائد قبیحہ کا لازمہ ہیں پس یہ حال ان شیاطین جن و انس کا ہے جو ان کی دعوت پر لبیک کہتے ہیں ۔ رہے آخرت پر ایمان رکھنے والے عقل مند اور سنجیدہ لوگ تو وہ ان عبارات سے دھوکہ کھاتے ہیں نہ ان ملمع سازیوں کا شکار ہوتے ہیں ۔ بلکہ ان کی ہمت اور ان کے ارادے حقائق کی معرفت حاصل کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔ وہ ان معانی پر نظر رکھتے ہیں جن کی طرف دعوت دینے والے دعوت دیتے ہیں ۔ اگر یہ معانی حق ہیں تو انھیں قبول کر لیتے ہیں اور اس پر عمل کرتے ہیں خواہ ان کو کم تر عبارات اور غیر وافی الفاظ میں کیوں نہ بیان کیا گیا ہو اور اگر یہ معانی باطل ہیں تو انھیں ان کے قائل کی طرف لوٹا دیتے ہیں خواہ ان کا قائل کوئی بھی ہو اور خواہ ان الفاظ کو ریشم سے بھی زیادہ خوشنما لبادہ اوڑھا دیا گیا ہو۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی حکمت بالغہ ہے کہ اس نے انبیا کرامo کے دشمن بنا دیے اور باطل کے انصار و اعوان مقرر کر دیے جو باطل کی طرف دعوت دیتے ہیں تاکہ اس کے بندوں کی آزمائش اور امتحان ہو سکے اور سچے، جھوٹے، عقل مند اور جاہل، صاحب بصیرت اور اندھے کے درمیان امتیاز ہو سکے اور یہ بھی اس کی حکمت کا حصہ ہے کہ حق و باطل کی اس کشمکش کے اندر حق کی تبیین اور توضیح ہے کیونکہ جب باطل حق کا مقابلہ کرتا ہے تو حق روشن ہو کر اور نکھر کر سامنے آ جاتا ہے۔ تب اس وقت حق کے وہ دلائل اور شواہد واضح ہو جاتے ہیں جو حق کی صداقت اور حقیقت اور باطل کے فساد اور اس کے بطلان پر دلالت کرتے ہیں جو سب سے بڑا مقصد ہے جس کی طرف ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
Vocabulary
AyatSummary
[113
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List