Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 6
- SuraName
- تفسیر سورۂ انعام
- SegmentID
- 418
- SegmentHeader
- AyatText
- {93} يقول تعالى: لا أحد أعظم ظلماً ولا أكبر جُرماً ممَّن كَذَبَ على الله بأن نسب إلى الله قولاً أو حكماً وهو تعالى بريء منه، وإنما كان هذا أظلم الخلق؛ لأن فيه من الكذب وتغيير الأديان أصولها وفروعها ونسبة ذلك إلى الله ما هو من أكبر المفاسد، ويدخل في ذلك ادِّعاء النبوة، وأنَّ الله يوحي إليه، وهو كاذب في ذلك؛ فإنَّه مع كذبه على الله وجرأته على عظمته وسلطانه يوجب على الخلق أن يتَّبِعوه ويجاهِدَهم على ذلك ويستحلَّ دماء مَن خالفه وأموالهم. ويدخل في هذه الآية كلُّ من ادَّعى النبوة كمسيلمة الكذاب والأسود العنسي والمختار وغيرهم ممن اتصف بهذا الوصف. {ومن قال سأنزِلُ مثلَ ما أنزلَ الله}؛ أي: ومن أظلم ممَّن زعم أنه يقدر على ما يقدر الله عليه ويجاري الله في أحكامه ويشرعُ من الشرائع كما يشرعه الله. ويدخل في هذا كل من يزعم أنه يقدِرُ على معارضة القرآن، وأنَّه في إمكانه أن يأتي بمثله! وأي ظلم أعظمُ من دعوى الفقير العاجز بالذات الناقص من كل وجه، مشاركةَ القوي الغني الذي له الكمال المطلق من جميع الوجوه في ذاته وأسمائه وصفاته؟! ولما ذمَّ الظالمين؛ ذَكَرَ ما أعدَّ لهم من العقوبة في حال الاحتضار ويوم القيامة، فقال: {وَلَوْ تَرى إذ الظالمونَ في غَمَراتِ الموتِ}؛ أي: شدائدِهِ وأهواله الفظيعة وكُرَبه الشنيعة؛ لرأيت أمراً هائلاً وحالةً لا يقدر الواصف أن يصفها. {والملائكة باسطو أيديهم}: إلى أولئك الظالمين المحتضرينَ بالضَّرب والعذاب؛ يقولون لهم عند منازعة أرواحهم وقلقها وتعصِّيها عن الخروج من الأبدان: {أخْرِجوا أنفُسَكُم اليومَ تُجْزَوْنَ عذاب الهُونِ}؛ أي: العذاب الشديد الذي يُهينكم ويُذِلُّكم، والجزاء من جنس العمل؛ فإنَّ هذا العذاب {بما كُنتم تقولونَ على الله غير الحقِّ}: من كذبِكم عليه وردِّكم للحقِّ الذي جاءت به الرسل، {وكنتُم عن آياتِهِ تستكبرونَ}؛ أي: تَرَفَّعُون عن الانقياد لها والاستسلام لأحكامها. وفي هذا دليل على عذاب البرزخ ونعيمه؛ فإنَّ هذا الخطاب والعذاب الموجه إليهم إنما هو عند الاحتضار وقُبيل الموت وبعده. وفيه دليل على أن الرُّوح جسم يدخُلُ، ويخرُجُ، ويخاطَب، ويساكِن الجسد، ويفارقه.
- AyatMeaning
- [93] اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس شخص سے بڑا ظالم اور مجرم کوئی اور نہیں جو اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھتا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف ایسی بات یا حکم منسوب کرتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ بری ہے۔ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے کو سب سے بڑا ظلم اس لیے کہا گیا ہے کیونکہ یہ بہتان پر مبنی ہے، اس میں ادیان، ان کے اصول و فروع میں تغیر و تبدل کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کیا جاتا ہے جو سب سے بڑی برائی ہے، نبوت کا جھوٹا دعویٰ کرنا اور یہ کہنا کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی طرف وحی بھیجی ہے، اسی افترا میں شامل ہے۔ اس لیے کہ یہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ باندھنے اور اس کی عظمت و غلبہ کے سامنے جسارت کا ارتکاب کرنے کے ساتھ، اس بات کو بھی واجب ٹھہراتا ہے کہ وہ اس (جھوٹے نبی) کی پیروی کریں اور اس بات پر لوگوں سے لڑائی کریں اور اپنے مخالفین کے جان و مال کو وہ حلال قرار دیتا ہے۔ اس آیت کریمہ کی وعید میں ہر وہ شخص داخل ہے جس نے نبوت کا دعویٰ کیا جیسے مسیلمہ کذاب، اسود عنسی، مختار ثقفی اور دیگر مدعیان نبوت جو اس وصف سے متصف ہیں ۔ ﴿ وَّمَنْ قَالَ سَاُنْزِلُ مِثْ٘لَ مَاۤ اَنْزَلَ اللّٰهُ ﴾ ’’اور جو کہے کہ میں بھی اتارتا ہوں مثل اس کے جو اتارا اللہ نے‘‘ یعنی اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو یہ زعم رکھتا ہے کہ وہ اس چیز پر قادر ہے جس پر اللہ تعالیٰ قادر ہے، وہ احکام میں اللہ تعالیٰ کا مقابلہ کر سکتا ہے، وہ بھی اسی طرح شریعت بنا سکتا ہے جیسے اللہ تعالیٰ نے بنائی ہے۔ اس وعید میں وہ شخص بھی شامل ہے جو دعویٰ کرتا ہے کہ وہ قرآن کا مقابلہ کر سکتا ہے اور قرآن جیسی کتاب وہ بھی بنا سکتا ہے۔ اس سے بڑا ظلم اور کیا ہو سکتا ہے کہ ایک بالذات محتاج اور عاجز بندہ جو ہر لحاظ سے ناقص ہے، یہ دعویٰ کرے کہ وہ ایک طاقتور اور بے نیاز ہستی کے ساتھ خدائی میں شریک ہے جو ہر پہلو سے اپنی ذات، اسما اور صفات میں کمال مطلق کی مالک ہے۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان ظالموں کی مذمت کی تو ساتھ ہی اس عذاب کا بھی ذکر فرما دیا جو ان کے لیے تیار کیا گیا ہے اور حالت نزع میں ان کو دیا جائے گا۔ ﴿ وَلَوْ تَرٰۤى اِذِ الظّٰلِمُوْنَ فِیْ غَ٘مَرٰتِ الْمَوْتِ ﴾ ’’اور اگر آپ دیکھیں جس وقت کہ ظالم ہوں موت کی سختیوں میں ‘‘ یعنی جب یہ ظالم موت کی شدت، اس کے ہول اور اس کے کرب میں مبتلا ہوں تو آپ ایک نہایت ہولناک حالت اور معاملہ دیکھیں گے کہ کوئی اس کا وصف بیان نہیں کر سکتا ﴿ وَالْمَلٰٓىِٕكَةُ بَ٘اسِطُوْۤا اَیْدِیْهِمْ ﴾ ’’اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہیں ‘‘ جب نزع کی حالت میں فرشتے ان ظالموں کو ماریں گے اور عذاب کے ساتھ ان کی طرف ہاتھ بڑھائیں گے۔ ان کی روحوں کو قبض کرتے اور حرکت دیتے وقت، جبکہ روحیں جسموں سے نکلنے سے انکار کریں گی، کہیں گے ﴿ اَخْرِجُوْۤا اَنْفُسَكُمْ١ؕ اَلْیَوْمَ تُجْزَوْنَ عَذَابَ الْهُوْنِ ﴾ ’’کہ نکالو تم اپنی جانیں ، آج تمھیں رسوائی کا عذاب دیا جائے گا‘‘ یعنی ایسا سخت عذاب جو تمھیں ذلیل و رسوا کر دے گا اور جزا ہمیشہ عمل کی جنس سے ہوتی ہے۔ یہ عذاب اس پاداش میں ہے کہ ﴿ بِمَا كُنْتُمْ تَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ غَیْرَ الْحَقِّ ﴾ ’’اس لیے کہ تم اللہ کے ذمے ناحق باتیں لگاتے تھے۔‘‘ تم جھوٹ بولتے تھے اور حق کو ٹھکراتے تھے جو انبیاء لے کر تمھارے پاس آئے تھے ﴿وَؔكُنْتُمْ عَنْ اٰیٰتِهٖ تَسْتَكْبِرُوْنَ۠ ﴾ ’’اور اس کی آیتوں سے سرکشی کرتے تھے۔‘‘ اور تم اللہ تعالیٰ کی آیات کی اطاعت اور ان کے احکام کو ماننے سے اپنے آپ کو بالاتر سمجھتے تھے۔ یہ آیت کریمہ برزخ کے عذاب اور برزخ کی نعمت پر دلالت کرتی ہے کیونکہ اس خطاب اور عذاب کا رخ ان کی طرف عین نزع کے وقت اور موت سے تھوڑا سا پہلے اور پھر موت کے بعد ہے۔ نیز یہ آیت کریمہ اس امر پر بھی دلالت کرتی ہے کہ روح جسم رکھتی ہے جو داخل ہوتی ہے اور خارج ہوتی ہے جس کو مخاطب کیا جاتا ہے۔ وہ جسد کے ساتھ مل کر رہتی ہے اور اس سے علیحدہ ہو جاتی ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [93]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF