Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 2
- SuraName
- تفسیر سورۂ بقرۃ
- SegmentID
- 21
- SegmentHeader
- AyatText
- {44} {أتأمرون الناس بالبر}؛ أي: بالإيمان والخير، {وتنسون أنفسكم}؛ أي: تتركونها عن أمرها بذلك والحال، {وأنتم تتلون الكتاب أفلا تعقلون}؛ وسُمِّي العقل عقلاً؛ لأنه يعقل به ما ينفعه من الخير، وينعقل به عما يضره، وذلك أن العقل يحث صاحبه أن يكون أول فاعل لما يأمر به، وأول تارك لما ينهى عنه، فمن أمر غيره بالخير ولم يفعله أو نهاه عن الشر فلم يتركه دل على عدم عقله وجهله، خصوصاً إذا كان عالماً بذلك، قد قامت عليه الحجة، وهذه الآية وإن كانت نزلت في سبب بني إسرائيل، فهي عامة لكل أحد لقوله تعالى: {يا أيها الذين آمنوا لم تقولون ما لا تفعلون كبر مقتاً عند الله أن تقولوا ما لا تفعلون}؛ وليس في الآية أن الإنسان إذا لم يقم بما أُمِر به أنه يترك الأمر بالمعروف، والنهي عن المنكر؛ لأنها دلت على التوبيخ بالنسبة إلى الواجبَيْنِ، وإلا فمن المعلوم أن على الإنسان واجبين: أمر غيره ونهيه، وأمر نفسه ونهيها، فترك أحدهما لا يكون رخصة في ترك الآخر، فإن الكمال أن يقوم الإنسان بالواجبَيْنِ، والنقص الكامل أن يتركهما، وأما قيامه بأحدهما دون الآخر فليس في رتبة الأول وهو دون الأخير، وأيضاً فإن النفوس مجبولة على عدم الانقياد لمن يخالف قولَه فعلُه، فاقتداؤهم بالأفعال أبلغ من اقتدائهم بالأقوال المجردة.
- AyatMeaning
- [44] ﴿ اَتَاْمُرُوْنَؔ النَّاسَ بِالْـبِرِّ﴾ ’’تم لوگوں کو نیکی (یعنی ایمان اور بھلائی) کا حکم دیتے ہو‘‘ ﴿وَتَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ﴾ ’’اور بھول جاتے ہو اپنے آپ کو‘‘ یعنی تم اپنے آپ کو ایمان اور بھلائی کا حکم دینا چھوڑ دیتے ہو۔ ﴿وَاَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ اَفَلاَ تَعْقِلُوْنَ﴾ اور تمھارا حال یہ ہے کہ تم کتاب اللہ کی تلاوت کرتے ہو، کیا تم سمجھتے نہیں؟ عقل کو اس لیے عقل کہا جاتا ہے کیونکہ اس کے ذریعے سے فائدہ مند چیز اور بھلائی کا شعور حاصل کیا جاتا ہے اور اس کے ذریعے سے اس چیز سے بچا جاتا ہے جو ضرر رساں ہے اس لیے کہ عقل انسان کو اس بات پر آمادہ کرتی ہے کہ وہ جس چیز کا حکم دیتا ہے اس پر سب سے پہلے خود عمل کرے اور جس چیز سے روکتا ہے اس کو سب سے پہلے خود ترک کرے۔ پس جو کوئی کسی کو بھلائی کا حکم دیتا ہے اور خود اس پر عمل پیرا نہیں ہوتا یا وہ کسی کو برائی سے روکتا ہے اور خود اسے ترک نہیں کرتا تو یہ چیز اس کی جہالت اور اس کے بے عقل ہونے کی دلیل ہے خاص طور پر جبکہ ایسا شخص اس حقیقت کا علم بھی رکھتا ہو۔ پس اس پر حجت قائم ہوگئی۔ ہر چند کہ یہ آیت کریمہ بنی اسرائیل کے معاملے میں نازل ہوئی ہے تاہم اس کا حکم ہر ایک کے لیے عام ہے۔ اس کی دلیل اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے ﴿ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لَا تَفْعَلُوْنَ۰۰كَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰهِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لَا تَفْعَلُوْنَ﴾ (الصف : 61؍2۔3) ’’اے ایمان والو! تم ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں۔ یہ بات اللہ تعالیٰ کے ہاں بہت بڑی ناراضی کی بات ہے کہ تم ایسی بات کہو جس پر عمل نہ کرو۔‘‘ آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ انسان جس کام کے کرنے کا حکم دیتا ہے اگر خود اس پر عمل نہیں کرتا تو وہ نیکی کا حکم دینے اور برائی سے منع کرنے سے رک جائے کیونکہ یہ آیت دونوں واجبات کی نسبت تو بیخ پر دلالت کرتی ہے۔ ورنہ ہمیں معلوم ہے کہ انسان پر دو امور واجب ہیں۔ (۱)کسی دوسرے کو نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا۔ (۲) خود اپنے آپ کو نیکی پر آمادہ کرنا اور برائی سے رک جانا۔ ان میں سے ایک چیز کو ترک کرنے سے دوسری چیز کو ترک کرنے کی رخصت لازم نہیں آتی۔ کیونکہ کمال یہ ہے کہ انسان دونوں واجبات پر عمل کرے اور نقص یہ ہے کہ وہ دونوں واجبات کو ترک کر دے۔ رہا ان دونوں واجبات میں سے کسی ایک پر عمل کرنا تو یہ رتبہ کمال سے نیچے اور نقص سے اوپر ہے۔ نیز اس کی وجہ یہ ہے کہ نفوس انسانی کی جبلت میں یہ چیز داخل ہے کہ لوگ اس شخص کی اطاعت نہیں کرتے جس کا قول اس کے فعل کے خلاف ہوتا ہے پس وہ عمل سے عاری اقوال کی نسبت افعال کی زیادہ پیروی کرتے ہیں۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [44]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF