Tafseer Alssadi Urdu / Arabic

تفسیر سورۂ ضحیٰ تفسير آيت: 1 - 11

{1720}

تفسیر سورۂ ضحیٰ

1720 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ ضحیٰ

{1720} بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

(شروع ) اللہ کے نام سے جو نہایت مہربان رحم کرنے والا ہے۔

1720 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ ضحیٰ تفسير آيت: 1 - 11

{1720} تفسير الآيات: 1 - 11

تفسير آيت: 1 - 11

1720 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ ضحیٰ

{1720} {وَالضُّحَى (1) وَاللَّيْلِ إِذَا سَجَى (2) مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ وَمَا قَلَى (3) وَلَلْآخِرَةُ خَيْرٌ لَكَ مِنَ الْأُولَى (4) وَلَسَوْفَ يُعْطِيكَ رَبُّكَ فَتَرْضَى (5) أَلَمْ يَجِدْكَ يَتِيمًا فَآوَى (6) وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَى (7) وَوَجَدَكَ عَائِلًا فَأَغْنَى (8) فَأَمَّا الْيَتِيمَ فَلَا تَقْهَرْ (9) وَأَمَّا السَّائِلَ فَلَا تَنْهَرْ (10) وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ (11)}.

قسم ہے دن چڑھے کی(1) اور رات کی جب وہ چھا جائے(2)نہیں چھوڑا آپ کو آپ کے رب نے اور نہ وہ (آپ سے) ناراض ہوا(3) اور یقیناً آخرت بہت بہتر ہے آپ کے لیے دنیا سے(4) اور البتہ عنقریب عطا کرے گا آپ کو آپ کا رب کہ آپ راضی ہو جائیں گے(5)کیا نہیں پایا اس نے آپ کو یتیم، پس اس نے جگہ دی (6) اور اس نے پایا آپ کو گم کردہ راہ، پس اس نے ہدایت دی (7) اور اس نے پایا آپ کو تنگ دست، پس اس نے غنی کر دیا (8) پس لیکن یتیم، تو نہ سختی کیجیے اس پر(9) اور لیکن سائل، تو نہ جھڑکیے (اسے) (10) اور لیکن نعمت اپنے رب کی، پس بیان کیجیے (اسے) (11)

1720 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ ضحیٰ

{1720} {1 ـ 3} أقسم تعالى بالنهار إذا انتشر ضياؤه؛ بالضُّحى، وبالليل {إذا سجى} وادلهمَّت ظلمته؛ على اعتناء الله برسوله - صلى الله عليه وسلم -، فقال: {ما ودَّعك ربُّك}؛ أي: ما تركك منذ اعتنى بك، ولا أهملك منذ ربَّاك ورعاك، بل لم يزل يربِّيك أكمل تربيةٍ ويُعليك درجةً بعد درجةٍ، {وما}: قلاكَ الله؛ أي: ما أبغضك منذ أحبَّك؛ فإنَّ نفي الضِّدِّ دليلٌ على ثبوت ضدِّه، والنفي المحض لا يكون مدحاً إلاَّ إذا تضمَّن ثبوت كمال. فهذه حال الرسول - صلى الله عليه وسلم - الماضية والحاضرة، أكمل حال وأتمُّها، محبَّة الله له واستمرارها وترقيته في درجات الكمال ودوام اعتناء اللَّه به.

[3-1] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے رسولe کے لیے اپنی عنایت پر دن کی قسم کھائی ہے جب چاشت کے وقت اس کی روشنی پھیل جائے اور رات کی قسم کھائی ہے جب وہ ٹھہر جائے اور اس کی تاریکی چھا جائے اور فرمایا: ﴿مَا وَدَّعَكَ رَبُّكَ ﴾ یعنی جب سے آپ پر اللہ تعالیٰ کی عنایت ہے، اس نے آپ کو نہیں چھوڑا اور جب سے اس نے آپ کی نشوونماکی اور آپ پر مہربانی کی، اس نے آپ پر توجہ اور عنایت کو ترک نہیں کیا بلکہ وہ آپ کی کامل ترین طریقے سے تربیت کرتا رہتا ہے اور درجہ بدرجہ آپ کو بلندی عطا کرتا رہتا ہے۔ ﴿ وَمَا قَ٘لٰى﴾ ’’اور وہ آپ سے بیزار نہیں ہوا۔‘‘ یعنی جب سے اللہ تعالیٰ نے آپ سے محبت کی ہے وہ آپ سے ناراض نہیں ہوا کیونکہ ضد کی نفی ، اس کی ضد کے ثبوت کی دلیل ہے۔ محض نفی، جب تک کہ وہ ثبوت کمال کی متضمن نہ ہو، مدح نہیں ہوتی۔ یہ رسول اللہe کے ماضی کا حال ہے جبکہ موجودہ حالت اللہ تعالیٰ کی آپ کے ساتھ محبت، اس میں استمرار، کمال کے درجات میں آپ کی ترقی اور آپ پر اللہ تعالیٰ کی دائمی عنایت کے لحاظ سے کامل ترین حال ہے۔

1720 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ ضحیٰ

{1720} {4} وأمَّا حاله المستقبلة؛ فقال: {وللآخرةُ خيرٌ لك من الأولى}؛ أي: كلُّ حالةٍ متأخِّرةٍ من أحوالك؛ فإنَّ لها الفضل على الحالة السابقة، فلم يزل - صلى الله عليه وسلم - يصعد في درجات المعالي، ويمكِّن اللَّه له دينه، وينصره على أعدائِه، ويسدِّده في أحواله، حتَّى مات وقد وصل إلى حال ما وصل إليها الأوَّلون والآخرون؛ من الفضائل والنِّعم وقرَّة العين وسرور القلب.

[4] رہا مستقبل میں آپ کا حال تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَلَلْاٰخِرَةُ خَیْرٌ لَّكَ مِنَ الْاُوْلٰى ﴾ یعنی آپ کے احوال میں سے ہر متاخر حال کو سابقہ احوال پر فضیلت حاصل ہے، چنانچہ رسول اللہe درجات عالیہ پر ترقی کرتے رہے، اللہ تعالیٰ آپ کے دین کو تمکن عطا کرتا رہا، آپ کے دشمنوں کے خلاف فتح و نصرت سے بہرہ مند کرتا رہا اور آپ کے احوال کو درست کرتا رہا یہاں تک کہ آپ نے وفات پائی۔ آپ فضائل، اللہ تعالیٰ کی نعمتوں، آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کے سرور کے ایسے حال پر پہنچ گئے جہاں اولین و آخرین نہیں پہنچ سکے ۔

1720 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ ضحیٰ

{1720} {5} ثمَّ بعد هذا لا تسأل عن حاله في الآخرةِ من تفاصيل الإكرام وأنواع الإنعام، ولهذا قال: {ولَسوف يعطيكَ ربُّك فترضى}: وهذا أمرٌ لا يمكن التعبير عنه إلاَّ بهذه العبارة الجامعة الشاملة.

[5] پھر اس کے بعد آخرت میں آپ کے حال سے متعلق اکرام و تکریم اور انواع و اقسام کے انعامات کی تفصیلات کے بارے میں مت پوچھیے۔ اس لیے فرمایا: ﴿ وَلَسَوْفَ یُعْطِیْكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰى﴾ ’’اور وہ عنقریب آپ کو وہ کچھ عطا کرے گا کہ آپ خوش ہوجائیں گے۔‘‘ اور یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کی اس جامع عبارت کے بغیر تعبیر ممکن ہی نہیں۔

1720 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ ضحیٰ

{1720} {6 ـ 8} ثم امتنَّ عليه بما يعلمه من أحواله الخاصَّة ، فقال: {ألمْ يجدْكَ يتيماً فآوى}؛ أي: وجدك لا أمَّ لك ولا أبَ، بل قد مات أبوه وأمُّه وهو لا يدبِّر نفسه، فآواه الله، وكفَّله جدَّه عبد المطلب، ثم لمَّا مات جدُّه؛ كفَّله الله عمَّه أبا طالب، حتى أيَّده [اللَّه] بنصره وبالمؤمنين، {ووجدك ضالًّا فهدى}؛ أي: وجدك لا تدري ما الكتابُ ولا الإيمانُ، فعلَّمك ما لم تكن تعلمُ، ووفَّقك لأحسن الأعمال والأخلاق. {ووجدك عائلاً}؛ أي: فقيراً، فأغناكَ الله بما فتح عليك من البلدان، التي جُبيت لك أموالها وخراجها، فالذي أزال عنك هذه النقائص سيزيل عنك كلَّ نقصٍ، والذي أوصلك إلى الغنى وآواك ونصرك وهداك، قابلْ نعمته بالشُّكران.

[8-6] پھر اللہ تعالیٰ ان خاص احوال کے ذریعے سے جنھیں وہ جانتا ہے، آپ پر اپنے احسان کا ذکر کرتا ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ اَلَمْ یَجِدْكَ یَتِیْمًا فَاٰوٰى﴾ یعنی آپ کو اس طرح پایا کہ آپ کی ماں تھی نہ باپ بلکہ آپ کے ماں باپ اس وقت وفات پا گئے جبکہ آپ اپنی دیکھ بھال خود نہیں کر سکتے تھے۔ آپ کے دادا عبدالمطلب نے آپ کی کفالت کی ، پھر آپ کے دادا بھی وفات پا گئے تو آپ کے چچا ابوطالب نے آپ کی کفالت کی یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی نصرت اور اہل ایمان کے ذریعے سے آپ کی مدد فرمائی۔ ﴿ وَوَجَدَكَ ضَآلًّا فَهَدٰؔى ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس حال میں پایا کہ آپ نہیں جانتے تھے کہ کتاب کیا ہے اور ایمان کیا ہے۔ پس اس نے آپ کو وہ علم عطاکیا جو آپ نہیں جانتے تھے اور آپ کو بہترین اعمال اور بہترین اخلاق کی توفیق بخشی۔ ﴿ وَوَجَدَكَ عَآىِٕلًا﴾ یعنی آپ کو محتاج پایا ﴿ فَاَغْ٘نٰى﴾ پس اللہ تعالیٰ نے آپ کو شہروں کی فتوحات کے ذریعے سے ، جہاں سے آپ کے لیے مال اور خراج آیا، غنی کر دیا۔ جس ہستی نے آپ کی یہ کمی دور کی ہے وہ عنقریب آپ کی ہر کمی کو دور کر دے گی اور وہ ہستی جس نے آپ کو تونگری تک پہنچایا، آپ کو پناہ دی، آپ کو نصرت عطا کی اور آپ کو راہ راست سے نوازا، اس کی نعمت پر شکر ادا کیجیے۔

1720 || Details || Previous Page | Next Page |
تفسیر سورۂ ضحیٰ

{1720} {9 ـ 11} ولهذا قال: {فأمَّا اليتيمَ فلا تَقْهَرْ}؛ أي: لا تُسِئْ معاملة اليتيم، ولا يَضِقْ صدرُك عليه، ولا تنهره، بل أكرمه، وأعطه ما تيسَّر، واصنع به كما تحبُّ أن يُصْنَعَ بولدك من بعدك، {وأمَّا السائلَ فلا تنهر}؛ أي: لا يصدر منك كلامٌ للسائل يقتضي ردَّه عن مطلوبه بنَهْرٍ وشراسةِ خلقٍ، بل أعطه ما تيسَّر عندك، أو ردَّه بمعروفٍ وإحسانٍ. ويدخل في هذا السائل للمال والسائل للعلم، ولهذا كان المعلِّم مأموراً بحسن الخلق مع المتعلِّم ومباشرته بالإكرام والتحنُّن عليه؛ فإنَّ في ذلك معونةً له على مقصده وإكراماً لمن كان يسعى في نفع العباد والبلاد، {وأمَّا بنعمة ربِّك فَحَدِّثْ}: وهذا يشمل النِّعم الدينيَّة والدنيويَّة ؛ أي: أثْنِ على الله بها، وخُصَّها بالذِّكر إن كان هناك مصلحةٌ، وإلاَّ؛ فحدِّث بنعم الله على الإطلاق؛ فإنَّ التحدُّث بنعمة الله داعٍ لشكرها وموجبٌ لتحبيب القلوب إلى من أنعم بها؛ فإنَّ القلوب مجبولةٌ على محبَّة المحسن.

[11-9] اس لیے فرمایا: ﴿ فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلَا تَ٘قْ٘هَرْ﴾ یعنی یتیم کے ساتھ برا معاملہ نہ کیجیے، آپ اس پر تنگ دل ہوں نہ آپ اسے جھڑکیں، بلکہ اس کا اکرام کریں، جو کچھ میسر ہے آپ اسے عطا کریں اور آپ اس کے ساتھ ایسا سلوک کریں جیسا آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے بعد آپ کی اولاد سے کیا جائے۔ ﴿ و َاَمَّا السَّآىِٕلَ فَلَا تَنْهَرْ﴾ یعنی آپ کی طرف سے سائل کے لیے کوئی ایسی بات ، یعنی ڈانٹ اور تر ش روئی وغیرہ صادر نہ ہو جو سائل کو اس کے مطلوب سے رد کرنے کی مقتضی ہو، بلکہ آپ کے پاس جو کچھ میسر ہے اسے عطا کر دیجیے یا اسے معروف اور بھلے طریقے سے لوٹا دیجیے۔ اس میں مال کا سوال کرنے والا اور علم کا سوال کرنے والا دونوں داخل ہیں، بنابریں معلم ، متعلم کے ساتھ حسن سلوک، اکرام و تکریم اور شفقت و مہربانی سے پیش آنے پر مامور ہے کیونکہ ایسا کرنے میں اس کے مقصد میں اس کی اعانت اور اس شخص کے لیے اکرام و تکریم ہے جو قوم و ملک کو نفع پہنچانے کے لیے کوشاں ہے۔ فرمایا :﴿ وَاَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ ﴾ ’’اور اپنے رب کی نعمتوں کو۔‘‘ اس میں دینی اور دنیاوی دونوں نعمتیں شامل ہیں۔ ﴿فَحَدَّثَ﴾ ’’بیان کرتا رہ۔‘‘ یعنی ان نعمتوں کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا بیان کیجیے اور اگر کوئی مصلحت ہو تو ان کا خاص طور پر ذکر کیجیے، ورنہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا علی الاطلاق ذکر کیجیے کیونکہ اللہ تعالیٰ کی نعمت کا ذکر، اس پر شکر گزاری کا موجب اور دلوں میں اس ہستی کی محبت کا موجب ہے جس نے نعمت عطا کی کیونکہ محسن کے ساتھ محبت کرنا دلوں کی فطرت ہے۔

1720 || Details || Previous Page | Next Page |

Index Page First Page