Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 4
- SuraName
- تفسیر سورۂ نساء
- SegmentID
- 260
- SegmentHeader
- AyatText
- {43} ينهى تعالى عباده المؤمنين أن يَقْرَبوا الصلاة وهم سُكارى حتى يعلَموا ما يقولونَ، وهذا شاملٌ لِقُرْبانِ مواضع الصلاة؛ كالمسجد؛ فإنه لا يمكَّنُ السكرانُ من دخولِهِ، وشاملٌ لنفس الصلاة؛ فإنه لا يجوز للسكران صلاةٌ ولا عبادةٌ لاختلاط عقلِهِ وعدم علمِهِ بما يقول، ولهذا حدَّد تعالى ذلك وغيَّاه إلى وجود العلم بما يقول السكران. وهذه الآية الكريمة منسوخةٌ بتحريم الخمر مطلقاً؛ فإنَّ الخمر في أول الأمر كان غير محرَّم، ثم إنَّ الله تعالى عَرَّضَ لعبادِهِ بتحريمِهِ بقوله: {يَسألونَكَ عن الخمرِ والمَيْسِرِ قُلْ فيهما إثمٌ كبيرٌ ومَنافعُ للنَّاسِ وإثْمُهُما أكبرُ مِنْ نَفعِهِما}، ثم إنَّه تعالى نهاهم عن الخمر عند حضورِ الصلاة كما في هذه الآية، ثم إنه تعالى حرَّمه على الإطلاق في جميع الأوقات في قوله: {يا أيُّها الذينَ آمنوا إنَّما الخمرُ والمَيْسِرُ والأنصابُ والأزلام رِجسٌ مِن عملِ الشيطانِ فاجتنبوهُ} الآية. ومع هذا؛ فإنه يشتدُّ تحريمه وقتَ حضور الصلاة؛ لتضمُّنه هذه المفسدة العظيمة بعدم حصول مقصود الصلاة الذي هو روحها ولبُّها، وهو الخشوع وحضور القلب؛ فإنَّ الخمر يُسْكِرُ القلبَ، ويصدُّ عن ذِكْرِ الله وعن الصلاة. ويؤخَذُ من المعنى منعُ الدُّخول في الصلاة في حال النُّعاس المفرط الذي لا يشعُرُ صاحبه بما يقولُ ويفعل، بل لعلَّ فيه إشارة إلى أنه ينبغي لمن أراد الصلاة أن يقطعَ عنه كلَّ شاغل يَشْغَلُ فكره؛ كمدافعةِ الأخبثين والتَّوْق لطعام ونحوِهِ؛ كما ورد في ذلك الحديث الصحيح. ثم قال: {ولا جُنُباً إلا عابري سبيل}؛ أي: لا تقربوا الصلاة حالة كونِ أحدِكم جُنباً إلاَّ في هذه الحال، وهو عابرُ السبيل؛ أي: تمرُّون في المسجد ولا تمكُثون فيه. {حتَّى تغتَسِلوا}؛ أي: فإذا اغتسلتم؛ فهو غاية المنع من قربانِ الصلاة للجُنُبِ، فيحلُّ للجُنُبِ المرورُ في المسجد فقط. {وإن كنتُم مرضى أو على سفرٍ أو جاء أحدٌ منكم من الغائط أو لامستُمُ النساءَ فلم تجِدوا ماءً فتيمَّموا}: فأباح التيمُّم للمريض مطلقاً مع وجود الماء وعدمِهِ، والعلَّة المرضُ الذي يشقُّ مع استعمال الماء، وكذلك السفر؛ فإنه مَظِنَّة فقد الماء؛ فإذا فقده المسافر، أو وجد ما يتعلَّق بحاجته من شرب ونحوه؛ جاز له التيمُّم، وكذلك إذا أحدث الإنسان ببول أو غائطٍ أو ملامسة النساء؛ فإنه يُباح له التيمُّم إذا لم يجد الماء حضراً وسفراً؛ كما يدلُّ على ذلك عموم الآية. والحاصل أنَّ الله تعالى أباح التيمُّم في حالتين: حال عدم الماء، وهذا مطلقاً في الحضر والسفر. وحال المشقة باستعماله بمرض ونحوه. واختلف المفسِّرون في معنى قوله: {أو لامستُمُ النساءَ}: هل المرادُ بذلك الجِماع؟ فتكونُ الآية نصًّا في جواز التيمُّم للجُنُب كما تكاثرت بذلك الأحاديث الصحيحة ، أو المراد بذلك مجردُ اللمس باليد، ويقيَّد ذلك بما إذا كان مَظِنَّة خروج المذي، وهو المس الذي يكون لشهوةٍ، فتكون الآيةُ دالةً على نقض الوضوء بذلك. واستدلَّ الفقهاء بقوله: {فلم تجدوا ماء}: بوجوب طَلَبِ الماء عند دخول الوقت؛ قالوا: لأنه لا يُقال: لم يجد لِمَنْ لم يطلب، بل لا يكون ذلك إلا بعد الطلب. واستدلَّ بذلك أيضاً على أن الماء المتغيِّرَ بشيء من الطاهرات يجوز ـ بل يتعيَّن ـ التطهُّر به لدخولِهِ في قوله: {فلم تجدوا ماءً}، وهذا ماء. ونوزع في ذلك بأنَّه ماء غير مطلق، وفي ذلك نظر. وفي هذه [الآية] الكريمة: مشروعيَّة هذا الحكم العظيم الذي امتنَّ به الله على هذه الأمة، وهو مشروعية التيمُّم، وقد أجمع على ذلك العلماء، ولله الحمد. وأنَّ التيمُّم يكون بالصَّعيد الطيب، وهو كل ما تصاعد على وجه الأرض، سواء كان له غبار أم لا، ويُحتمل أن يختصَّ ذلك بذي الغبار؛ لأن الله قال: {فامْسَحوا بوجوهِكم وأيديكم} منه، وما لا غبار له لا يُمْسَحُ به. وقوله: {فامسحوا بوجوهِكم وأيديكم} منه: هذا محل المسح في التيمُّم: الوجه جميعه واليدين إلى الكوعين؛ كما دلَّت على ذلك الأحاديث الصحيحة، ويستحبُّ أن يكون ذلك بضربةٍ واحدةٍ؛ كما دلَّ على ذلك حديث عمار ، وفيه أنَّ تيمُّم الجُنُب كتيمُّم غيره بالوجه واليدين. فائدة: اعلم أن قواعد الطبِّ تدور على ثلاث قواعدَ: حفظ الصحة عن المؤذيات، والاستفراغ منها، والحميةُ عنها. وقد نبَّه تعالى عليها في كتابه العزيز: أمَّا حفظ الصحة والحمية عن المؤذي؛ فقد أمر بالأكل والشرب وعدم الإسراف في ذلك، وأباح للمسافر والمريض الفطر حفظاً لصحَّتهما باستعمال ما يُصْلِحُ البدن على وجه العدل، وحماية للمريض عما يضرُّه. وأما استفراغُ المؤذي؛ فقد أباح تعالى للمحرم المتأذِّي برأسه أن يحلِقَهُ لإزالة الأبخرة المحتقنة فيه؛ ففيه تنبيهٌ على استفراغ ما هو أولى منها من البول والغائط والقيء والمنيِّ والدم وغير ذلك. نبه على ذلك ابن القيم رحمه الله تعالى. وفي الآية وجوبُ تعميم مسح الوجه واليدين، وأنَّه يجوز التيمُّم، ولو لم يضق الوقت، وأنه لا يخاطَب بطلب الماء إلا بعد وجود سبب الوجوب. والله أعلم. ثمَّ ختم الآية بقوله: {إنَّ اللهَ كانَ عفُوًّا غَفوراً}؛ أي: كثير العفو والمغفرة لعباده المؤمنين بتيسير ما أمرهم به وتسهيلِهِ غايةَ التسهيل بحيثُ لا يَشُقُّ على العبد امتثالُه فيحرج بذلك، ومن عفوه ومغفرته أنْ رَحِمَ هذه الأمة بشرع طهارة التُّراب بدل الماء عند تعذُّر استعماله، ومن عفوِهِ ومغفرتِهِ أن فتح للمذنبين باب التوبة والإنابة ودعاهُم إليه ووعدهم بمغفرة ذنوبهم، ومن عفوه ومغفرته أنَّ المؤمن لو أتاه بقُراب الأرض خطايا ثم لَقِيَهُ لا يشرك به شيئاً؛ لأتاه بقرابها مغفرةً.
- AyatMeaning
- [43] اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو نشے کی حالت میں نماز پڑھنے سے روک دیا ہے جب تک کہ انھیں معلوم نہ ہو جائے کہ وہ کیا کہہ رہے ہیں۔ اس ممانعت میں یہ بات بھی شامل ہے کہ وہ نشے کی حالت میں نماز کی جگہوں یعنی مساجد وغیرہ کے بھی قریب نہ جائیں کیونکہ نشے کی حالت میں مسجد میں داخل ہونا ممکن نہیں۔ اس ممانعت میں نفس نماز بھی شامل ہے نشے والے شخص کی عقل کے مختل ہونے اور یہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اس کی نماز اور دیگر عبادات جائز نہیں۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے نماز پڑھنے کے لیے اس چیز کو شرط بنایا کہ نشے والا شخص جو کچھ کہہ رہا ہو اسے اس کا علم ہو۔ یہ آیت کریمہ تحریم خمر والی آیت کے ذریعے سے منسوخ ہو گئی۔ اسلام کے ابتدائی ایام میں شراب حرام نہ تھی پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس فرمان میں شراب کی حرمت کی طرف اشارہ فرمایا: ﴿ یَسْـَٔلُوْنَكَ عَنِ الْ٘خَمْرِ وَالْ٘مَیْسِرِ١ؕ قُ٘لْ فِیْهِمَاۤ اِثْمٌ كَبِیْرٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ١ٞ وَاِثْمُهُمَاۤ اَكْبَرُ مِنْ نَّفْعِهِمَا ﴾ (البقرۃ : 2؍219) ’تم سے شراب اور جوئے کے بارے میں پوچھتے ہیں کہہ دو کہ ان میں بہت بڑا گناہ ہے اور ان میں لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں البتہ ان کا گناہ ان کے فائدے سے بڑھ کر ہے۔‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے نماز کے اوقات میں شراب پینے سے منع کر دیا۔ جیسا کہ اس آیت میں مذکور ہے۔ اس کے بعد (تیسرے مرحلے میں) اللہ تبارک و تعالیٰ نے تمام اوقات میں شراب کو علی الاطلاق حرام قرار دیا۔ فرمایا: ﴿ اِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْ٘مَیْسِرُ وَالْاَنْصَابُ وَالْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّ٘یْطٰ٘نِ فَاجْتَنِبُوْهُ لَعَلَّـكُمْ تُفْلِحُوْنَ ﴾ (المائدہ : 5؍90) ’’بے شک شراب، جوا، بت اور پانسے سب شیطان کے ناپاک کام ہیں اس لیے ان سے بچو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘ نماز کے اوقات میں تو شراب کی حرمت اور بڑھ جاتی ہے کیونکہ ان اوقات میں نماز کے مقصد کے حصول کے بعد، جو کہ نماز کی روح اور لب لباب ہے اور وہ ہے خشوع اور حضور قلب، شراب بڑے مفاسد کو متضمن ہے۔ شراب قلب کو بھی مدہوش کر دیتی ہے اور اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نماز سے روکتی ہے۔ آیت کریمہ کے معنیٰ سے یہ بات بھی اخذ کی جاتی ہے کہ سخت اونگھ کی حالت میں جب انسان کو یہ عقل و شعور نہ رہے کہ وہ کیا پڑھ رہا ہے اور کیا کر رہا ہے نماز پڑھنا ممنوع ہے۔ بلکہ اس آیت کریمہ میں اس امر کی طرف بھی اشارہ ہے کہ جب کوئی شخص نماز پڑھنے کا ارادہ کرے تو اسے چاہیے کہ وہ ہر اس شغل کو منقطع کر دے جو نماز کے اندر اس کی توجہ کو مشغول رکھتا ہو مثلاً بول و براز کی سخت حاجت، اور کھانے کی سخت خواہش وغیرہ۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں وارد ہے۔ ﴿ وَلَا جُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ ﴾ ’’اور جنابت کی حالت میں بھی (نماز کے قریب نہ جاؤ) ہاں اگر عبور کرنے والے ہو راستے کو۔‘‘ یعنی اگر تم جنابت کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ سوائے اس حالت میں کہ تم مسجد میں سے گزر رہے ہو اور تم بغیر رکے گزر جاؤ ﴿ حَتّٰى تَغْتَسِلُوْا ﴾ ’’حتی کہ تم غسل کر لو۔‘‘ یہ جنبی کے لیے نماز کے قریب جانے سے ممانعت کی حد اور انتہا ہے۔ پس جنبی کے لیے مسجد میں سے صرف گزرنا جائز ہے۔ ﴿ وَاِنْ كُنْتُمْ مَّرْضٰۤى اَوْ عَلٰى سَفَرٍ اَوْ جَآءَؔ اَحَدٌ مِّؔنْكُمْ مِّنَ الْغَآىِٕطِ اَوْ لٰ٘ـمَسْتُمُ النِّسَآءَؔ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءًؔ فَتَیَمَّمُوْا ﴾ ’’اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم میں سے کوئی قضائے حاجت سے آیا ہو یا تم نے عورتوں سے مباشرت کی ہو اور تمھیں پانی نہ ملے تو تیمم کرلو‘‘ پس اللہ تبارک و تعالیٰ نے مریض کے لیے تیمم کو پانی کی موجودگی اور عدم موجودگی، دونوں حالتوں میں علی الاطلاق جائز قرار دیا ہے اور اس اباحت کی علت ایسا مرض ہے جس میں پانی کا استعمال سخت تکلیف دہ ہو۔ اسی طرح سفر میں بھی تیمم کو مباح قرار دیا کیونکہ سفر میں پانی کے عدم وجود کا امکان ہو سکتا ہے۔ اس لیے جب مسافر کے پاس پینے اور دیگر ضروریات سے زائد پانی نہ ہو تو اس کے لیے تیمم جائز ہے۔ اسی طرح جب کوئی شخص بول و براز یا عورتوں کے لمس کی وجہ سے وضو توڑ بیٹھے خواہ وہ سفر میں ہو یا حضر میں، اگر پانی موجود نہ ہو تو اس کے لیے تیمم جائز ہے۔ جیسا کہ آیت کریمہ کا عموم دلالت کرتا ہے۔ حاصل بحث یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے دو حالتوں میں تیمم مباح فرمایا ہے۔ (۱) سفر و حضر میں علی الاطلاق پانی کی عدم موجودگی کی صورت میں (۲) کسی مرض میں پانی کے استعمال میں مشقت کی صورت میں مفسرین میں اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ اَوْ لٰ٘ـمَسْتُمُ النِّسَآءَؔ ﴾ کا معنیٰ بیان کرنے میں اختلاف ہے کہ آیا لمس سے مراد جماع ہے۔ تب یہ آیت کریمہ جنبی کے لیے تیمم کے جواز میں نص ہے۔ جیسا کہ اس بارے میں بہت سی احادیث وارد ہوئی ہیں۔یا اس سے مراد صرف ہاتھوں سے چھونا ہے؟ البتہ یہ چھونا اس قید سے مقید ہے کہ جب چھونے سے مذی کے خارج ہونے کا امکان ہو۔ یہ چھونا شہوت کے ساتھ ہو گا اور تب یہ آیت لمس سے وضو کے ٹوٹنے پر نص ہے۔ فقہاء ﴿ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءًؔ ﴾ سے استدلال کرتے ہیں کہ نماز کا وقت داخل ہونے پر پانی کی تلاش فرض ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ اس شخص کے لیے (لَمْ یَجِدْ) ’’اس نے نہ پایا‘‘ کا لفظ استعمال نہیں کیا جاتا جس نے تلاش نہ کیا ہو۔ بلکہ یہ لفظ استعمال ہی تلاش کے بعد کیا جاتا ہے۔ اس آیت کریمہ سے فقہاء نے یہ استدلال بھی کیا ہے کہ اگر پانی کسی پاک چیز کے اختلاط سے متغیر ہو جائے تو اس سے وضو وغیرہ جائز ہے بلکہ اس کے ذریعہ سے طہارت حاصل کرنا متعین ہے کیونکہ یہ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآءًؔ ﴾ میں داخل ہے۔ اور متغیر پانی بھی تو پانی ہی ہے۔اور اس میں یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ یہ غیر مطلق پانی ہے اور یہ محل نظر ہے۔اس آیت کریمہ میں اس عظیم حکم کی مشروعیت ثابت ہوتی ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے اس امت کو نوازا ہے۔ اور وہ ہے تیمم کی مشروعیت۔ تیمم کی مشروعیت پر تمام اہل علم کا اجماع ہے۔ وللہ الحمد! تیمم پاک مٹی سے کیا جاتا ہے ﴿ صَعِیْدًا ﴾ سطح زمین کی پاک مٹی کو کہتے ہیں خواہ اس میں غبار ہو یا نہ ہو۔ اس میں اس معنیٰ کا احتمال بھی ہے کہ ’’صعید‘‘ ہر غبار والی چیز کو کہا جائے کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے سورۂ مائدہ میں وضو والی آیت میں فرمایا ہے ﴿ فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَاَیْدِیْكُمْ مِّؔنْهُ ﴾ (المائدہ : 5؍6) ’’پس اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں کا مسح کر لو۔‘‘ اور جس کا غبار نہ ہو تو اس سے مسح نہیں کیا جاتا۔ فرمایا ﴿ فَامْسَحُوْا بِوُجُوْهِكُمْ وَاَیْدِیْكُمْ ﴾ ’’اس (مٹی) سے اپنے چہرے اور ہاتھوں کا مسح کر لو۔‘‘ جیسا کہ سورۂ مائدہ میں زیادہ واضح ہے۔ آیت کریمہ میں بیان کیا گیا ہے کہ تیمم کے اندر مسح کا محل یہ ہے، تمام چہرہ اور دونوں ہاتھ کلائی تک جیسا کہ اس پر احادیث صحیحہ دلالت کرتی ہیں اور اس میں مستحب یہ ہے کہ صرف ایک ہی ضرب سے تیمم کیا جائے۔ جیسا کہ حضرت عمار بن یاسرwکی حدیث سے ظاہر ہوتا ہے۔ جنبی کے تیمم میں بھی صرف چہرے اور ہاتھوں پر مسح کیا جائے گا، جیسے کسی دیگر شخص کے تیمم میں ہے۔ فائدہ : معلوم ہونا چاہیے کہ طب کا دارو مدار تین قواعد پر ہے۔ (۱) موذی امراض وغیرہ سے حفظان صحت۔ (۲)موذی مرض سے نجات حاصل کرنا۔(۳) ان امراض سے بچاؤ۔ رہا مرض سے بچاؤ اور حفظان صحت تو اللہ تعالیٰ نے ہمیں کھانے پینے اور عدم اسراف کا حکم دیا ہے۔ مسافر اور مریض کی صحت کی حفاظت کی خاطر رمضان میں روزہ چھوڑنا اور اس مقصد کے لیے ایسی چیزیں اعتدال کے ساتھ استعمال کرنا مباح ہے جو بدن کی صحت کے لیے درست اور مریض کو ضرر سے بچانے کے لیے ضروری ہیں۔ رہا بیماری کی تکلیف سے نجات حاصل کرنا تو اللہ تعالیٰ نے سر میں تکلیف محسوس کرنے والے مُحْرِم شخص کے لیے سر منڈوانا مباح قرار دیا ہے تاکہ وہ سر میں جمع شدہ میل کچیل اور گندگی سے نجات حاصل کر سکے۔ یہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان چیزوں مثلاً بول و براز، قے، منی اور خون وغیرہ سے فارغ ہونا زیادہ اولیٰ ہے۔ ان مذکورہ امور کی طرف علامہ ابن القیم رحمہ اللہ نے توجہ دلائی ہے۔ آیت کریمہ چہرے اور ہاتھوں کے مسح کے وجوب کے عموم پر دلالت کرتی ہے نیز یہ آیت اس طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ خواہ وقت تنگ نہ ہو تیمم کرنا جائز ہے نیز یہ آیت کریمہ اس طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ وجوب کے سبب کے موجود ہونے کے بعد ہی پانی کی تلاش کے لیے کہا جائے گا۔ واللہ اعلم۔ پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد پر آیت کریمہ کا اختتام کیا ہے ﴿ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُوْرًؔا ﴾ ’’بے شک اللہ تعالیٰ بہت معاف کرنے والا نہایت بخشنے والا ہے‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے احکامات میں انتہائی آسانیاں پیدا فرما کر اپنے مومن بندوں کے ساتھ بہت زیادہ عفو اور مغفرت کا معاملہ کرتا ہے۔ تاکہ بندے پر اس کے احکام کی تعمیل شاق نہ گزرے اور اسے ان کی تعمیل میں کوئی حرج محسوس نہ ہو۔ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا عفو اور اس کی مغفرت ہے کہ اس نے پانی کے عدم استعمال کے عذر کے موقع پر، مٹی کے ذریعے سے طہارت کو مشروع فرما کر اس امت پر رحم فرمایا اور یہ بھی اس کا عفو اور اس کی مغفرت ہے کہ اس نے گناہ گاروں کے لیے توبہ اور انابت کا دروازہ کھولا اور انھیں اس دروازے کی طرف بلایا اور ان کے گناہ بخش دینے کا وعدہ فرمایا نیز یہ بھی اللہ تعالیٰ کی مغفرت اور اس کا عفو ہے کہ اگر بندۂ مومن زمین بھر گناہوں کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے دربار میں حاضر ہو اور اس نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہ کیا ہو، تو اللہ تعالیٰ بھی اسے زمین بھر مغفرت سے نوازے گا۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [43]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF