Details

Tbl_TFsadiQuraanSummary


SuraNo
4
SuraName
تفسیر سورۂ نساء
SegmentID
257
SegmentHeader
AyatText
{36 ـ 37} يأمر تعالى عباده بعبادتِهِ وحدَه لا شريك له، وهو الدخول تحت رقِّ عبوديَّتِهِ والانقياد لأوامره ونواهيه محبةً وذلًّا وإخلاصاً له في جميع العبادات الظاهرة والباطنة، وينهى عن الشرك به شيئاً، لا شركاً أصغر، ولا أكبر، لا مَلَكاً، ولا نبيًّا، ولا وليًّا، ولا غيرهم من المخلوقين الذين لا يملِكون لأنفسهم نفعاً ولا ضرًّا ولا موتاً ولا حياة ولا نشوراً، بل الواجبُ المتعيِّن إخلاصُ العبادة لمن له الكمالُ المطلق من جميع الوجوه، وله التدبير الكامل الذي لا يَشْرَكُه ولا يعينُهُ عليه أحدٌ. ثم بعد ما أمر بعبادتِهِ والقيام بحقِّه أمر بالقيام بحقوق العبادِ الأقرب فالأقرب، فقال: {وبالوالدين إحساناً}؛ أي: أحسنوا إليهم بالقول الكريم والخطاب اللطيف والفعل الجميل، بطاعةِ أمرِهما واجتنابِ نهيِهِما، والإنفاق عليهما، وإكرام من له تعلُّق بهما، وصلة الرحم التي لا رحمَ لك إلاَّ بهما. وللإحسان ضدَّانِ الإساءةُ وعدمُ الإحسان، وكلاهما منهيٌّ عنه. {وبذي القربى} أيضاً إحساناً، ويشمل ذلك جميع الأقارب، قَرُبوا أو بَعُدوا، بأن يُحْسِنَ إليهم بالقول والفعل، وأنْ لا يقطعَ برحمه بقولِهِ أو فعلِهِ. {واليتامى}؛ أي: الذين فُقِدَ آباؤهم وهم صغارٌ، فلهم حقٌّ على المسلمين، سواءٌ كانوا أقارب أو غيرهم، بكفالتهم وبِرِّهم وجبرِ خواطرِهم وتأديبِهم وتربيتهم أحسن تربية في مصالح دينهم ودنياهم. {والمساكين}: وهم الذين أسكنتهم الحاجةُ والفقرُ، فلم يحصُلوا على كفايتهم ولا كفاية من يمونون، فأمر الله تعالى بالإحسان إليهم بسدِّ خلَّتهم وبدفع فاقتهم والحضِّ على ذلك والقيام بما يمكن منه. {والجار ذي القربى}؛ أي: الجار القريب الذي له حقَّان؛ حقُّ الجوار وحقُّ القرابة؛ فله على جارِهِ حقٌّ وإحسانٌ راجعٌ إلى العرف. وكذلك {الجار الجُنُب}؛ أي: الذي ليس له قرابةٌ، وكلَّما كان الجارُ أقربَ باباً؛ كان آكد حقًّا، فينبغي للجار أن يتعاهدَ جارَه بالهدية والصدقة والدعوة واللطافة بالأقوال والأفعال وعدم أذيَّتِهِ بقول أو فعل. {والصاحب بالجنب}: قيل: الرفيقُ في السفر، وقيل: الزوجة، وقيل: الصاحب مطلقاً، ولعله أولى؛ فإنه يَشْمَلُ الصاحبَ في الحضر والسفر ويَشْمَلُ الزوجةَ؛ فعلى الصاحب لصاحبه حقٌّ زائد على مجرَّد إسلامه، من مساعدته على أمور دينه ودنياه، والنصح له، والوفاء معه في اليسر والعسر والمنشط والمكره، وأن يحبَّ له ما يحبُّ لنفسه، ويكره له مايكره لنفسه، وكلَّما زادت الصحبة؛ تأكد الحق وزاد. {وابن السبيل}: وهو الغريب الذي احتاج في بلد الغربة أو لم يحتج؛ فله حقٌّ على المسلمين لشدَّة حاجتِهِ وكونِهِ في غير وطنه بتبليغه إلى مقصوده أو بعض مقصوده وبإكرامه وتأنيسه. {وما ملكت أيمانكم}؛ أي: من الآدميين والبهائم، بالقيام بكفايتهم وعدم تحميلهم ما يشقُّ عليهم، وإعانتُهم على ما تحمَّلوه وتأديبهم لما فيه مصلحتُهم؛ فَمَنْ قام بهذه المأمورات؛ فهو الخاضع لربه، المتواضع لعباد الله، المنقاد لأمر الله وشرعه، الذي يستحقُّ الثواب الجزيل والثناء الجميل، ومن لم يقم بذلك؛ فإنه عبد معرِضٌ عن ربه، غير منقاد لأوامره، ولا متواضع للخلق، بل هو متكبِّر على عباد الله، معجبٌ بنفسه، فخورٌ بقوله. ولهذا قال: {إنَّ الله لا يحبُّ من كان مختالاً}؛ أي: معجَباً بنفسه متكبراً على الخلق، {فخوراً}؛ يثني على نفسه ويمدحُها على وجه الفخر والبطرِ على عباد الله؛ فهؤلاء ما بهم من الاختيال والفخر يمنعُهم من القيام بالحقوق، ولهذا ذمَّهم بقوله: {الذين يبخلون}؛ أي: يمنعون ما عليهم من الحقوق الواجبة، {ويأمرون الناس بالبُخل}: بأقوالهم وأفعالهم، {ويكتُمون ما آتاهمُ الله من فضلِهِ}؛ أي: من العلم الذي يهتدي به الضالون ويسترشِدُ به الجاهلون، فيكتُمونه عنهم، ويُظْهِرون لهم من الباطل ما يَحولُ بينَهم وبين الحقِّ، فجمعوا بين البخل بالمال والبخل بالعلم وبين السعي في خسارة أنفسهم وخسارة غيرهم، وهذه هي صفات الكافرين؛ فلهذا قال تعالى: {وأعتَدْنا للكافرين عذاباً مهيناً}؛ أي: كما تكبَّروا على عباد الله، ومنعوا حقوقه، وتسبَّبوا في منع غيرِهم من البخل وعدم الاهتداء؛ أهانهم بالعذاب الأليم والخزي الدائم؛ فعياذاً بك اللهمَّ من كلِّ سوء.
AyatMeaning
[37,36] اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اس کی عبادت کریں۔ وہ واحد اور لا شریک ہے۔ یہ درحقیقت اس کی عبودیت کے دائرے میں داخل ہونے، محبت، تذلل اور ظاہری اور باطنی تمام عبادات میں اخلاص کے ساتھ اس کے تمام اوامر و نواہی کی تعمیل کا نام ہے۔ اللہ تعالیٰ شرک اصغر اور شرک اکبر ہر قسم کے شرک سے روکتا ہے۔ کسی فرشتہ، کسی نبی، ولی یا دیگر مخلوق کو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرانے سے منع کرتا ہے جو خود اپنی ذات کے لیے بھی کسی نفع و نقصان، موت وحیات اور دوبارہ اٹھانے پر قدرت نہیں رکھتے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اخلاص واجب ہے۔ جو ہر لحاظ سے کمال مطلق کا مالک ہے۔ وہ کائنات کی پوری تدبیر کر رہا ہے جس میں اس کا کوئی شریک ہے نہ معاون اور مددگار۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی عبادت اور اپنے حقوق کے قیام کا حکم دینے کے بعد حقوق العباد کو قائم کرنے کا حکم دیا ہے (حقوق العباد کے مراتب میں اصول یہ قائم فرمایا ہے) جو سب سے زیادہ قریب ہے اس کے سب سے زیادہ حقوق ہیں۔ فرمایا: ﴿ وَّبِالْوَالِدَیْنِ۠ اِحْسَانًا ﴾ ’’ماں باپ کے ساتھ حسن سلوک کرو‘‘ یعنی ان کے ساتھ احسان کرو ان سے اچھی گفتگو، ان کے ساتھ تخاطب میں نرمی اور فعل جمیل کر کے ان کے حکم کی اطاعت اور ان کے ممنوعہ امور سے اجتناب اور ان کی ضروریات پر خرچ کر کے، ان کے دوستوں اور دیگر متعلقین کے ساتھ عزت و تکریم کا معاملہ کر کے اور ان رشتے داریوں کو قائم اور ان کے حقوق ادا کر کے، جن سے صرف والدین کی وجہ سے رشتے داری ہے۔ احسان (یعنی حسن سلوک) کی دو اضداد ہیں، برا سلوک اور عدم احسان (حسن سلوک نہ کرنا) اور ان دونوں سے روکا گیا ہے۔ فرمایا: ﴿ وَّبِذِی الْ٘قُ٘رْبٰى ﴾ ’’او رقرابت والوں کے ساتھ۔‘‘ یعنی دیگر اقرباء کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آؤ۔یہ آیت کریمہ تمام اقارب کو شامل ہے۔ خواہ وہ زیادہ قریبی ہوں یا قدرے دور کے رشتہ دار ہوں۔ ان کے ساتھ قول و فعل کے ذریعے سے حسن سلوک سے پیش آئے اور اپنے قول و فعل سے ان کے ساتھ قطع رحمی نہ کرے۔ ﴿ وَالْ٘یَ٘تٰمٰى ﴾ ’’اور یتیموں کے ساتھ‘‘ یعنی وہ چھوٹے بچے جو اپنے باپ سے محروم ہو گئے ہوں تمام مسلمانوں پر ان کا حق ہے۔۔۔ خواہ وہ ان کے رشتہ دار ہوں یا نہ ہوں۔۔۔ کہ وہ ان کی کفالت کریں ان کے ساتھ نیک سلوک کریں، ان کی دلجوئی کریں، ان کو ادب سکھائیں اور ان کے دینی اور دنیاوی مصالح میں ان کی بہترین تربیت کریں۔ ﴿ وَالْمَسٰكِیْنِ ﴾ یہ وہ لوگ ہیں جن کو فقر و حاجت نے بے حرکت اور عاجز کر دیا ہو ،جنھیں اتنی ضروریات زندگی حاصل نہ ہوں جو ان کو کفایت کر سکیں اور نہ ان کو جن کے یہ کفیل ہوں۔ پس اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ ان کو ضروریات زندگی مہیا کی جائیں ان کا فقر و فاقہ دور کیا جائے اور لوگوں کو بھی اس کی ترغیب دی جائے اور حتی الامکان ان امور کا انتظام کیا جائے۔ ﴿ وَالْجَارِ ذِی الْ٘قُ٘رْبٰى ﴾ ’’اور رشتہ دار ہمسایوں کے ساتھ‘‘ یعنی رشتہ دار پڑوسی، اس کے دو حقوق ہیں۔ پڑوس کا حق اور قرابت کا حق۔ پس وہ اپنے پڑوسی پر حق رکھتا ہے اور اس کے حسن سلوک کا مستحق ہے۔ یہ سب عرف کی طرف راجع ہے۔ اسی طرح ﴿ وَالْجَارِ الْجُنُبِ ﴾ ’’اور اجنبی ہمسایوں کے ساتھ۔‘‘ یعنی وہ پڑوسی جو قریبی نہ ہو۔ پڑوسی کا دروازہ جتنا زیادہ قریب ہو گا اس کا حق اتنا ہی زیادہ مؤکد ہو گا۔ پڑوسی کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ ہدیہ اور صدقہ دیتا رہے، اس کو دعوت پر بلاتا رہے اور اقوال و افعال میں نرمی اور ملاطفت سے پیش آیا کرے اور قول و فعل سے اس کو اذیت دینے سے باز رہے۔ ﴿ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْۢبِ ﴾ ’’پہلو کے ساتھی سے حسن سلوک کرو‘‘ بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد شریک سفر ہے۔ بعض کی رائے ہے کہ اس سے مراد بیوی ہے اور بعض اہل علم اس کا اطلاق مطلق ساتھی پر کرتے ہیں اور یہی زیادہ قرین صحت ہے۔ کیونکہ یہ لفظ اس کو شامل ہے جو سفر و حضر میں ساتھ رہے اور یہ لفظ بیوی کو بھی شامل ہے۔ ساتھی پر ساتھی کا حق ہے جو اس کے مجرد اسلام سے زائد ہے یعنی دینی اور دنیاوی امور میں اس کی مدد کرنا، اس کی خیر خواہی کرنا، آسانی اور تنگی، خوشی اور غمی میں اس کے ساتھ وفا کرنا۔ جو اپنے لیے پسند کرنا اس کے لیے بھی وہی پسند کرنا، اور جو اپنے لیے ناپسند کرنا وہ اس کے لیے بھی ناپسند کرنا، صحبت جتنی زیادہ ہو گی، یہ حق اتنا ہی زیادہ، اور مؤکد ہو گا۔ ﴿ وَابْنِ السَّبِیْلِ ﴾ وہ غریب الوطن شخص جو دور اجنبی شہر میں ہو، وہ خواہ محتاج ہویا نہ ہو، اس کی شدت احتیاج اور وطن سے دور ہونے کی وجہ سے مسلمانوں پر اس کا حق ہے کہ وہ اسے نہایت انس و اکرام کے ساتھ اس کے مقصد تک پہنچائیں۔ ﴿ وَمَا مَلَكَتْ اَیْمَانُكُمْ ﴾ ’’اور جن کے تمھارے دائیں ہاتھ مالک ہوئے‘‘ یعنی آپ کی ملکیت میں آدمی ہوں یا بہائم ان کی ضروریات کا انتظام رکھنا، ان پر ان کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالنا، بوجھ اٹھانے میں ان کی مدد کرنا ان کی مصلحت اور بھلائی کی خاطر ان کی تادیب کرنا ان کا آپ پر حق ہے۔ پس جو ان احکامات کی تعمیل کرتا ہے وہ اپنے رب کے سامنے جھکنے والا اور اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ انکساری سے پیش آنے والا ہے، وہ اللہ تعالیٰ کے اوامر اور اس کی شریعت کی پیروی کرتا ہے۔ یہی شخص ثواب جزیل (بہت زیادہ ثواب) اور ثنائے جمیل کا مستحق ہے اور جو ان احکامات پر عمل نہیں کرتا وہ اپنے رب سے روگردان، اس کے اوامر کا نافرمان اور مخلوق کے لیے غیر متواضع ہے۔ بلکہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ تکبر سے پیش آنے والا ، خود پسند اور بے حد فخر کرنے والا ہے۔ بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ اِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ مَنْ كَانَ مُخْتَالًا ﴾ ’’یقینا اللہ تکبر کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا‘‘ یعنی وہ خود پسند ہے اور اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ تکبر سے پیش آتا ہے ﴿ فَخُوْرَاِۨ ﴾ ’’اپنی بڑائی بیان کرنے والا ہے‘‘ وہ لوگوں کے سامنے فخر اور گھمنڈ کے ساتھ اپنی تعریفیں کرتا ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کا فخر اور تکبر ان حقوق کو ادا کرنے سے مانع رہتا ہے۔ اس لیے اللہ تبارک و تعالیٰ نے ان کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا: ﴿ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ ﴾ ’’جو لوگ بخل کرتے ہیں‘‘ یعنی جو حقوق واجب ہیں ان کو ادا نہیں کرتے ﴿ وَیَ٘اْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ﴾ ’’اور وہ لوگوں کو بخیلی کا حکم دیتے ہیں۔‘‘ یعنی وہ اپنے قول و فعل سے لوگوں کو بخل کرنے کا حکم دیتے ہیں ﴿وَیَكْ٘تُمُوْنَ مَاۤ اٰتٰىهُمُ اللّٰهُ مِنْ فَضْلِهٖ ﴾ ’’اور جو (مال) اللہ نے ان کو اپنے فضل سے عطا فرمایا ہے اسے چھپا چھپا کر رکھتے ہیں۔‘‘ یعنی اللہ تعالیٰ نے ان کو علم عطا کیا جس کے ذریعے سے گمراہ راہ پاتے ہیں اور جاہل رشد و ہدایت سے بہرہ ور ہوتے ہیں۔ یہ لوگ اس علم کو ان لوگوں سے چھپاتے ہیں اور ان کے سامنے باطل کا اظہار کرتے ہیں، اس طرح وہ مخلوق اور حق کے درمیان حائل ہو جاتے ہیں۔ پس انھوں نے مالی بخل اور علمی بخل کو یکجا کر دیا اور اپنے خسارے کے لیے بھاگ دوڑ اور دوسروں کے خسارے کے لیے بھاگ دوڑ کو جمع کر دیا۔ یہ کفار کی صفات ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ وَاَعْتَدْنَا لِلْ٘كٰفِرِیْنَ عَذَابً٘ا مُّهِیْنًا﴾ ’’اور ہم نے کفار کے لیے رسوا کن عذاب تیار کر رکھا ہے‘‘ چونکہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندوں کے ساتھ تکبر کے ساتھ پیش آئے، اللہ تعالیٰ کے حقوق کو ادا کرنے سے انکار کیا اور اپنے بخل اور بے راہ روی کی وجہ سے دوسروں کو محروم کرنے کا باعث بنے اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو دردناک عذاب اور دائمی رسوائی کے ذریعے سے رسوا کیا۔ اے اللہ! ہر برائی سے ہم تیری پناہ کے طلبگار ہیں۔
Vocabulary
AyatSummary
[37,
Conclusions
LangCode
ur
TextType
UTF

Edit | Back to List