Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 4
- SuraName
- تفسیر سورۂ نساء
- SegmentID
- 251
- SegmentHeader
- AyatText
- {29} ينهى تعالى عباده المؤمنين أن يأكلوا أموالهم بينهم بالباطل، وهذا يشمل أكلَها بالغصوب والسرقات وأخذَها بالقمار والمكاسب الرديئة، بل لعله يدخل في ذلك أكل مال نفسِك على وجه البطر والإسراف؛ لأن هذا من الباطل، وليس من الحق. ثم إنه لما حرَّم أكلها بالباطل؛ أباح لهم أكلها بالتجارات والمكاسب الخالية من الموانع المشتملة على الشروط من التراضي وغيره. {ولا تقتلوا أنفسكم}؛ أي: لا يقتل بعضكم بعضاً، ولا يقتل الإنسان نفسه، ويدخل في ذلك الإلقاء بالنفس إلى التهلكة وفعل الأخطار المفضية إلى التلف والهلاك {إنَّ الله كان بكم رحيماً}: ومن رحمته أن صان نفوسَكم وأموالكم ونهاكم عن إضاعتها وإتلافها ورتَّب على ذلك ما رتَّبه من الحدود. وتأمل هذا الإيجاز والجمع في قوله {لا تأكلوا أموالكم} {ولا تقتلوا أنفسكم}؛ كيف شمل أموال غيرك ومال نفسك وقتل نفسك وقتل غيرك بعبارة أخصر من قوله: لا يأكل بعضكم مال بعض ولا يقتل بعضكم بعضاً؛ مع قصور هذه العبارة على مال الغير ونفس الغير، مع أن إضافة الأموال والأنفس إلى عموم المؤمنين فيه دلالة على أنَّ المؤمنين في توادِّهم وتراحمهم وتعاطفهم ومصالحهم كالجسد الواحد؛ حيث كان الإيمان يجمعهم على مصالحهم الدينية والدنيوية. ولما نهى عن أكل الأموال بالباطل التي فيها غاية الضرر عليهم، على الآكل ومن أخذ ماله؛ أباح لهم ما فيه مصلحتهم من أنواع المكاسب والتجارات وأنواع الحرف والإجارات، فقال: {إلا أن تكون تجارةً عن تراضٍ منكم}؛ أي: فإنها مباحة لكم. وشَرَطَ التراضي مع كونها تجارةً لدلالة أنه يشترط أن يكون العقد غير عقد رباً، لأنَّ الربا ليس من التجارة، بل مخالفٌ لمقصودها، وأنه لا بدَّ أن يرضى كلٌّ من المتعاقدين ويأتي به اختياراً، ومن تمام الرِّضا أن يكون المعقودُ عليه معلوماً؛ لأنه إذا لم يكن كذلك؛ لا يتصوَّرُ الرِّضا، مقدوراً على تسليمه؛ لأنَّ غير المقدور عليه شبيهٌ ببيع القمار؛ فبيع الغرر بجميع أنواعه خالٍ من الرِّضا فلا ينفذ عقده. وفيها أنه تنعقد العقودُ بما دلَّ عليها من قول أو فعل؛ لأن الله شرط الرِّضا، فبأيِّ طريق حصل الرِّضا؛ انعقد به العقد. ثم ختم الآية بقوله: {إن الله كان بكم رحيماً}: ومن رحمتِهِ أن عصم دماءكم وأموالَكم، وصانَها، ونهاكُم عن انتهاكِها.
- AyatMeaning
- [29] اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو باہم ایک دوسرے کا مال باطل طریقے سے کھانے سے منع کیا ہے اور اس میں غصب کر کے مال کھانا، چوری کے ذریعے سے مال کھانا، جوئے کے ذریعے سے مال ہتھیانا اور دیگر ناجائز اور گھٹیا طریقوں سے مال حاصل کرنا، سب شامل ہے۔ بلکہ شاید اس میں آپ کا اپنا وہ مال کھانا بھی آجاتا ہے جو آپ تکبر اور اسراف سے کھاتے ہیں کیونکہ یہ بھی باطل ہے، طریق حق نہیں ہے۔ پھر چونکہ اس نے باطل طریقے سے مال کھانے سے روک دیا ہے اس لیے اس نے تجارت اور ایسے پیشوں کے ذریعے سے، جس میں کوئی شرعی ممانعت نہ ہو، اور جو باہم رضامندی اور جائز شرائط پر مشتمل ہوں، مال کمانا مباح قرار دے دیا۔ ﴿وَلَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ﴾ ’’اور اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔‘‘ یعنی ایک دوسرے کو قتل نہ کرو اور نہ کوئی شخص اپنے آپ کو قتل کرے۔ اس میں اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا اور ایسے خطرات مول لینا شامل ہیں جن کا نتیجہ ہلاکت اور اتلاف کے سوا کچھ نہیں۔ ﴿اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا﴾ ’’کچھ شک نہیں کہ اللہ تم پر مہربان ہے۔‘‘ یہ اللہ تبارک و تعالیٰ کی رحمت ہے کہ اس نے تمھاری جان اور مال کو محفوظ کیا اور ان کو ضائع کرنے اور تلف کرنے سے منع کیا ہے اور اس کے لیے اسی طرح کی سزا تجویز کی جیسے دیگر جرائم پر حدود ہیں۔ ذرا اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿لَا تَاْكُلُوْۤا اَمْوَالَكُمْ﴾ اور ﴿وَلَا تَقْتُلُوْۤا اَنْفُسَكُمْ﴾ کے اختصار و ایجاز اور اس کی جامعیت پر غور فرمایئے کہ یہ ارشاد دوسروں کے مال اور خود اپنے مال، دوسروں کی جان اور خود اپنی جان کو شامل ہے اور ایسی عبارت کے ذریعے بیان کیا ہے جو (لَا یَاْکُلْ بَعْضُکُمْ مَالَ بَعْضٍ ) اور (لَا یَقْتُلْ بَعْضُکُمْ بَعْضًا) سے زیادہ مختصر ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ مؤخر الذکر عبارت دوسروں کے مال اور دوسروں کے نفس کو شامل کرنے سے قاصر ہے۔ نیز جان اور مال کی عمومیت کے ساتھ تمام اہل ایمان کی طرف اضافت کرنا اس امر کی دلیل ہے کہ تمام اہل ایمان باہم محبت کرنے، باہم رحم کرنے، باہم شفقت و عاطفت سے پیش آنے میں اور اپنے مشترک مصالح میں جسد واحد کی مانند ہیں۔ کیونکہ ان کے ایمان نے ان کو دینی اور دنیاوی مصالح پر جمع کر دیا ہے۔ جب اللہ تبارک و تعالیٰ نے باطل طریقے سے مال کھانے سے روک دیا کیونکہ دوسروں کا مال ہتھیانا اور کھانا ان کے لیے نقصان دہ تھا۔ تب مختلف قسم کے پیشوں کو، جن میں ان کی مصلحت تھی مثلاً تجارت، صنعت و حرفت اور اجارات وغیرہ کو، ان کے لیے مباح کر دیا۔ اس لیے فرمایا: ﴿اِلَّاۤ اَنْ تَكُ٘وْنَ تِجَارَةً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْكُمْ﴾ ’’اگر آپس کی رضامندی سے تجارت کا لین دین ہوجائے تو وہ جائز ہے۔‘‘ یعنی تجارت تمھارے لیے مباح ہے۔ تجارت ہونے کے ساتھ ساتھ باہمی رضامندی کی شرط اس امر کی دلیل ہے کہ یہ تجارتی عقد سود پر مبنی نہ ہو۔ کیونکہ سود تجارت نہیں ہے بلکہ سود تجارت کے مقاصد کے خلاف ہے۔ یہ نہایت ضروری ہے کہ اس تجارتی عقد کے دونوں فریق برضا و رغبت اسے قبول کریں اور کامل رضا و رغبت یہ ہے کہ جس معاملے پر معاہدہ کیا گیا ہے وہ پوری طرح معلوم ہو کیونکہ اگر وہ چیز جس پر معاہدہ کیا گیا ہے پوری طرح معلوم نہ ہو گی۔ تو یہ معاہدہ تسلیم و رضامندی پر مبنی متصور نہ ہو گا کیونکہ جس چیز کا حصول انسان کی طاقت اور اختیار میں نہ ہو، جوا بازی ہے۔ اسی طرح دھوکے کی بیع اپنی تمام انواع سمیت باہمی رضامندی سے خالی ہوتی ہے اس لیے ایسا معاہدہ منعقد نہیں ہوتا۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ معاہدے قول و فعل کے ذریعے سے اظہار رضامندی سے منعقد ہو جاتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے عقد کے انعقاد کے لیے رضامندی کی شرط عائد کی ہے اور رضامندی کا اظہار جس طریقے سے بھی کیا جائے اس سے معاہدہ منعقد ہو جائے گا، پھر اللہ تعالیٰ نے اپنے ارشاد کا اختتام اس جملے پر کیا ہے ﴿اِنَّ اللّٰهَ كَانَ بِكُمْ رَحِیْمًا﴾ ’’کچھ شک نہیں کہ اللہ تم پر مہربان ہے۔‘‘ یہ اس کی رحمت ہی ہے کہ اس نے تمھاری جان اور مال کو محفوظ و مامون کیا اورتمھیں جان و مال کو نقصان پہنچانے سے منع فرمایا۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [29]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF