Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 4
- SuraName
- تفسیر سورۂ نساء
- SegmentID
- 237
- SegmentHeader
- AyatText
- {5} السفهاء: جمع سفيه، وهو من لا يحسن التصرف في المال: إما لعدم عقله كالمجنون والمعتوه ونحوهما، وإما لعدم رشده؛ كالصغير وغير الرشيد، فنهى الله الأولياء أن يؤتوا هؤلاء أموالَهم خشيةَ إفسادها وإتلافها؛ لأنَّ الله جعل الأموال قياماً لعباده في مصالح دينهم ودنياهم، وهؤلاء لا يُحْسِنُون القيام عليها وحفظَها، فأمر الله الولي أن لا يؤتيهم إياها، بل يرزقهم منها ويكسوهم ويبذل منها ما يتعلَّق بضروراتهم وحاجاتهم الدينيَّة والدنيويَّة، وأن يقولوا لهم قولاً معروفاً؛ بأن يعدوهم إذا طلبوها أنهم سيدفعونها لهم بعد رُشْدِهم ونحوِ ذلك، ويلطفوا لهم في الأقوال جبراً لخواطرهم. وفي إضافته تعالى الأموال إلى الأولياء إشارة إلى أنه يجب عليهم أن يعملوا في أموال السفهاء ما يفعلونه في أموالهم من الحفظ والتصرف وعدم التعريض للأخطار. وفي الآية دليل على أن نفقة المجنون والصغير والسفيه في مالهم إذا كان لهم مال، لقوله: {وارزقوهم فيها واكسوهم}. وفيه دليلٌ على أنَّ قول الوليِّ مقبول فيما يدعيه من النفقة الممكنة والكسوة؛ لأن الله جعله مؤتَمَناً على مالهم، فلزم قبول قول الأمين.
- AyatMeaning
- [5] ﴿ السُّفَهَآءَؔ ﴾ (سَفِیہٌ) کی جمع ہے اور (سفیہ) ایسے شخص کو کہا جاتا ہے جو بے عقل ہونے مثلاً پاگل وغیرہ یا عدم بلوغت جیسے چھوٹا بچہ اور بے سمجھ وغیرہ ہونے کی وجہ سے اپنے مال میں تصرف اور دیکھ بھال کی اہلیت سے محروم ہو۔ پس اللہ تعالیٰ نے ایسے بے عقل لوگوں کے سرپرستوں کو اس ڈر سے ان کا مال ان کے حوالے کرنے سے روک دیا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ وہ اس کو خراب یا تلف کر دیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مال کو اپنے بندوں کے دینی اور دنیاوی مفادات و مصالح کی دیکھ بھال کے لیے بنایا ہے اور یہ بے سمجھ لوگ اس مال کی دیکھ بھال اور اس کی حفاظت سے قاصر ہیں۔ بنابریں اللہ تبارک و تعالیٰ نے سرپرست کو حکم دیا ہے کہ وہ مال ان بے سمجھ لوگوں کے حوالے نہ کرے بلکہ وہ اس مال میں سے ان کے کھانے پینے اور کپڑے لتے کا انتظام کرے اور جو ان کی دینی اور دنیاوی ضروریات ہیں ان میں خرچ کرے اور ان سے اچھی بات ہی کہے۔ یعنی جب وہ اپنے مال کا مطالبہ کریں تو وہ ان سے وعدہ کرے کہ وہ ان کے بالغ اور عاقل ہو جانے کے بعد ان کا مال ان کو لوٹا دے گا اور ان کی دل جوئی کی خاطر ان سے نرم مقالی سے پیش آئے۔ اللہ تعالیٰ کا ان اموال کو سرپرستوں کی طرف مضاف کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ان بے سمجھ لوگوں کے مال کا اس طرح انتظام کرنا ان پر فرض ہے جس طرح وہ اپنے مال کا انتظام کرتے ہیں مثلاً مال کی حفاظت، اس میں تصرف اور اس مال کو خطرات سے بچانا وغیرہ۔ اس آیت کریمہ میں اس بات کی دلیل ہے کہ پاگل، نابالغ اور بے عقل جب مال کے مالک ہوں تو ان پر انھی کے مال میں سے اخراجات کیے جائیں۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ﴿ وَّارْزُقُ٘وْهُمْ فِیْهَا وَاكْسُوْهُمْ ﴾ ’’اس مال میں سے ان کو کھلاتے پہناتے رہو۔‘‘ نیز اس میں اس بات کی بھی دلیل ہے کہ کھانے پینے اور لباس وغیرہ کے، ممکن حد تک اخراجات میں سرپرست کا قول اور اس کا دعویٰ قابل قبول ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان کو ان بے سمجھ لوگوں کے مال پر امین مقرر کیا ہے اور امین کا قول قابل قبول ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [5]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF