Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 90
- SuraName
- تفسیر سورۂ بلد
- SegmentID
- 1717
- SegmentHeader
- AyatText
- {4 ـ 7} والمقسَم عليه قولُه: {لقد خَلَقْنا الإنسانَ في كَبَدٍ}: يُحتمل أنَّ المراد بذلك ما يكابده ويقاسيه من الشَّدائد في الدُّنيا وفي البرزخ ويوم يقوم الأشهاد، وأنَّه ينبغي له أن يسعى في عملٍ يُريحُهُ من هذه الشَّدائد ويوجب له الفرح والسرور الدَّائم، وإن لم يفعلْ؛ فإنَّه لا يزال يكابد العذاب الشديد أبد الآباد، ويحتمل أن المعنى لقد خلقنا الإنسان في أحسن تقويم وأقوم خِلْقة يقدر على التصرف والأعمال الشديدة ومع ذلك فإنه لم يشكر الله على هذه النِّعمة العظيمة، بل بطر بالعافية، وتجبَّر على خالقه، فَحَسِبَ بجهله وظلمه أنَّ هذه الحال ستدوم له، وأنَّ سلطان تصرُّفه لا ينعزل، ولهذا قال [تعالى]: {أيحسبُ أن لن يقدِر عليه أحدٌ}: ويطغى ويفتخر بما أنفق من الأموال على شهوات نفسه؛ فيقول {أهلكتُ مالاً لُبَداً}؛ أي: كثيراً بعضه فوق بعض. وسمى الله [تعالى] الإنفاق في الشَّهوات والمعاصي إهلاكاً؛ لأنَّه لا ينتفع المنفق بما أنفق، ولا يعود إليه من إنفاقه إلاَّ النَّدم والخسار والتَّعب والقلَّة، لا كمن أنفق في مرضاة الله في سبيل الخير؛ فإنَّ هذا قد تاجر مع الله وربح أضعاف أضعاف ما أنفق، قال الله متوعِّداً هذا الذي افتخر بما أنفق في الشهوات: {أيحسبُ أن لم يَرَهُ أحدٌ}؛ أي: أيظنُّ في فعله هذا أنَّ الله لا يراه ويحاسبه على الصغير والكبير؟! بل قد رآه الله وحفظ عليه أعماله ووكل به الكرام الكاتبين لكل ما عمله من خيرٍ وشرٍّ.
- AyatMeaning
- [7-4] اور جس چیز پر قسم کھائی گئی ہے، وہ اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے: ﴿لَقَدْ خَلَقْنَا الْاِنْسَانَ فِیْؔ كَبَدٍ﴾ ’’بے شک ہم نے انسان کو تکلیف میں پیدا کیا ہے۔‘‘ اس میں یہ احتمال ہے کہ اس سے مراد وہ سختیاں اور مشقتیں ہیں جو انسان دنیا کے اندر برداشت کرتا ہے اور جو وہ برزخ میں اور قیامت کے دن برداشت کرے گا۔ انسان کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ ایسے اعمال کے لیے کوشاں رہے جو اسے ان شدائد سے (نجات دلا کر) راحت ، اس کے لیے دائمی فرحت اور سرور کا موجب بنیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کرے گا تو ابدالآباد تک سخت عذاب کی مشقت برداشت کرتا رہے گا۔ اس میں یہ احتمال بھی ہو سکتا ہے کہ اس کے یہ معنی ہوں کہ ہم نے انسان کو بہترین صورت اور خوب درست تخلیق کے ساتھ پیدا کیا جو سخت اعمال پر تصرف کی قدرت رکھتا ہے۔ بایں ہمہ اس نے اس عظیم نعمت پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا نہیں کیا بلکہ وہ عافیت پر (جو اللہ تعالیٰ نے اس کو عطا کی) اتراتا رہا، اپنے خالق کے سامنے تکبر کا اظہار کرتا رہا اور اپنی جہالت اور ظلم کی بنا پر یہ سمجھتا رہا کہ اس کا یہ حال ہمیشہ باقی رہے گا اور اس کے تصرف کی طاقت کبھی ختم نہیں ہو گی، اس لیے فرمایا: ﴿اَیَحْسَبُ اَنْ لَّ٘نْ یَّقْدِرَ عَلَیْهِ اَحَدٌ﴾ ’’کیا وہ خیال کرتا ہے کہ اس پر کوئی قابو نہیں پائے گا؟‘‘ وہ سرکشی کرتا ہے اور اس نے شہوات پر جو مال خرچ کیا، اس پر فخر کرتا ہے، ﴿یَقُوْلُ اَهْلَكْتُ مَالًا لُّبَدًا﴾ ’’کہتا ہے میں نے بہت سا مال برباد کیا ہے۔‘‘ یعنی بہت زیادہ مال، ایک دوسرے کے اوپر چڑھا ہوا۔ اللہ تعالیٰ نے شہوات اور معاصی میں مال خرچ کرنے کو ’’ہلاک کرنے‘‘ سے موسوم کیا ہے کیونکہ اس راستے میں مال خرچ کرنے والا اپنے خرچ کیے ہوئے مال سے فائدہ نہیں اٹھائے گا اور اس کو اپنے مال خرچ کرنے سے ندامت، خسارے، تکان اور قلت کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتا، یہ اس شخص کے مانند نہیں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے، بھلائی کے راستے میں خرچ کرتا ہے، کیونکہ اس شخص نے اللہ تعالیٰ کے ساتھ تجارت کی اور جو کچھ اس نے خرچ کیا اس سے کئی گنا نفع اٹھایا۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس شخص کو جو اپنی شہوات میں مال خرچ کر کے فخر کرتا ہے، وعید سناتے ہوئے فرمایا ہے: ﴿اَیَحْسَبُ اَنْ لَّمْ یَرَهٗۤ اَحَدٌ﴾ یعنی وہ اپنے اس فعل کے بارے میں سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کو دیکھتا ہے نہ وہ چھوٹے بڑے اعمال کا اس سے حساب لے گا، بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے اعمال کو دیکھا، ان کو اس کے لیے محفوظ کر لیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کے ہر اچھے برے عمل پر کراماً کاتبین مقرر کر دیے ہیں۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [7-4
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF