Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 3
- SuraName
- تفسیر سورۂ آل عمران
- SegmentID
- 217
- SegmentHeader
- AyatText
- {166 ـ 167} ثم أخبر أن ما أصابهم يوم التقى الجمعان: جمعُ المسلمين وجمعُ المشركين في أحد من القتل والهزيمة، أنه بإذنه وقضائه وقدره، لا مرد له ولا بد من وقوعه، والأمر القدري إذا نفذ لم يبق إلا التسليم له وأنه قدَّره لحكم عظيمة وفوائد جسيمة، وأنه ليتبين بذلك المؤمن من المنافق الذين لما أمروا بالقتال {وقيل لهم تعالوا قاتلوا في سبيل الله}؛ أي: ذبًّا عن دين الله وحماية له وطلباً لمرضاة الله، {أو ادفعوا} عن محارمكم وبلدكم إن لم يكن لكم نية صالحة، فأبوا ذلك واعتذروا بأن: {قالوا لو نعلم قتالاً لاتبعناكم}؛ أي: لو نعلم أنكم يصير بينكم وبينهم قتال لاتبعناكم، وهم كذبة في هذا، قد علموا وتيقنوا، وعلم كل أحد أن هؤلاء المشركين قد مُلئوا من الحنق والغيظ على المؤمنين بما أصابوا منهم، وأنهم قد بذلوا أموالهم وجمعوا ما يقدرون عليه من الرجال والعدد، وأقبلوا في جيش عظيم قاصدين المؤمنين في بلدهم متحرقين على قتالهم، فمن كانت هذه حالهم كيف يتصور أنه لا يصير بينهم وبين المؤمنين قتال؟ خصوصاً وقد خرج المسلمون من المدينة وبرزوا لهم، هذا من المستحيل، ولكن المنافقين ظنوا أن هذا العذر يروج على المؤمنين، قال تعالى: {هم للكفر يومئذ}؛ أي: في تلك الحال التي تركوا فيها الخروج مع المؤمنين {أقرب منهم للإيمان، يقولون بأفواههم ما ليس في قلوبهم}، وهذه خاصة المنافقين يظهرون بكلامهم وفعالهم ما يبطنون ضده في قلوبهم وسرائرهم، ومنه قولهم: {لو نعلم قتالاً لاتبعناكم}، فإنهم قد علموا وقوع القتال. ويستدل بهذه الآية على قاعدة ارتكاب أخف المفسدتين، لدفع أعلاهما وفعل أدنى المصلحتين للعجز عن أعلاهما، لأن المنافقين أُمروا أن يقاتلوا للدين، فإن لم يفعلوا فللمدافعة عن العيال والأوطان {والله أعلم بما يكتمون}، فيبديه لعباده المؤمنين، ويعاقبهم عليه.
- AyatMeaning
- [167,166] پھر اللہ تعالیٰ آگاہ فرماتا ہے کہ دونوں لشکروں یعنی مسلمانوں کے لشکر اور کفار کے لشکر میں مڈبھیڑ ہونے کے روز، احد میں ان کو ہزیمت اور قتل کی جو مصیبت پہنچی وہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور اس کی قضا و قدر سے پہنچی جس کو کوئی روکنے والا نہیں۔ لہٰذا اس مصیبت کا واقع ہونا ایک لابدی امر تھا اور جب امر قدری نافذ ہو جائے تب اس کے سامنے سرتسلیم خم کیے بغیر کوئی چارہ نہیں اور یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ اس نے اس امر کو عظیم حکمتوں اور بہت بڑے فوائد کے لیے مقدر کیا ہے۔ تاکہ جب مسلمانوں کو جنگ کا حکم دیا جائے تو اس امر قدری کے ذریعے سے مومن اور منافق کے مابین فرق واضح ہو جائے۔ ﴿وَقِیْلَ لَهُمْ تَعَالَوْا قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ ﴾ ’’اور ان سے کہا گیا کہ آؤ! اللہ کی راہ میں لڑو‘‘ یعنی تم دین کی مدافعت اور حمایت اور اللہ تعالیٰ کی رضا جوئی کی خاطر اللہ کے راستے میں جنگ کرو ﴿ اَوِ ادْفَعُوْا ﴾ ’’یا دشمن کو دفع کرو‘‘ یعنی اگر تمھاری نیت صالح نہیں ہے تو پھر تم اپنے حرم اور شہر کے دفاع کی خاطر لڑو۔ مگر انھوں نے انکار کر دیا اور عذر یہ پیش کیا ﴿ قَالُوْا لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّا اتَّبَعْنٰكُمْ ﴾ یعنی اگر ہم یہ جانتے ہوتے کہ تمھارے درمیان اور ان کے درمیان جنگ ہو گی تو ہم ضرور تمھارے ساتھ چلتے، حالانکہ وہ اس میں جھوٹے تھے۔ وہ جانتے تھے اور انھیں یقین تھا بلکہ ہر شخص جانتا تھا کہ مشرکین کو اہل ایمان نے شکست دی ہے اس لیے مشرکین کے دل اہل ایمان کے بارے میں غیظ و غضب سے لبریز ہیں۔ ان سے انتقام لینے کے لیے مشرکین نے مال خرچ کیا۔ اہل ایمان کے خلاف لوگوں اور سامان حرب کو اکٹھا کرنے کے لیے اپنی پوری قوت صرف کر دی ہے اور وہ ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ اہل ایمان پر ان کے شہر میں حملہ آور ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں کے ساتھ لڑائی میں ان میں سخت جوش و خروش پایا جاتا ہے۔ جب حملہ آوروں کی یہ حالت اور کیفیت ہو تو کیسے کہا جا سکتا ہے کہ ان کے اور مسلمانوں کے درمیان جنگ نہیں ہو گی۔ خاص طور پر جبکہ مسلمان کفار کا مقابلہ کرنے کے لیے مدینہ سے باہر نکل آئے تھے؟۔۔۔ یہ محال ہے۔ مگر منافقین کا خیال تھا کہ ان کا یہ عذر مسلمانوں کو مطمئن کر دے گا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿ هُمْ لِلْ٘كُ٘فْرِ یَوْمَىِٕذٍ ﴾ ’’وہ اس دن کفر کے‘‘ یعنی اس حال میں جس میں انھوں نے مسلمانوں کے ساتھ مدینہ منورہ سے باہر نکلنے سے انکار کیا ﴿ اَ٘قْ٘رَبُ مِنْهُمْ لِلْاِیْمَانِ١ۚ یَقُوْلُوْنَ بِاَفْوَاهِهِمْ مَّا لَ٘یْسَ فِیْ قُ٘لُوْبِهِمْ ﴾ ’’زیادہ قریب ہیں، بہ نسبت ایمان کے، اپنے منہ سے وہ باتیں کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہیں‘‘ یہ منافقین کی خاصیت ہے کہ وہ اپنے کلام اور افعال سے وہ کچھ ظاہر کرتے ہیں جو ان کے دلوں میں چھپے ہوئے خیالات اور ارادوں کی ضد ہوتا ہے۔ ان کا یہ کہنا کہ ﴿ لَوْ نَعْلَمُ قِتَالًا لَّا اتَّبَعْنٰكُمْ ﴾ بھی اسی زمرے میں آتا ہے کیونکہ انھیں علم تھا کہ جنگ ضرور ہوگی۔ اس آیت کریمہ میں اس فقہی قاعدہ پر دلیل ملتی ہے ’’کہ بوقت ضرورت بڑی برائی کو روکنے کے لیے چھوٹی برائی کو اختیار کرنا جائز ہے۔ اسی طرح دو مصلحتوں میں سے اگر بڑی مصلحت پر عمل کرنے سے عاجز ہو تو اسے چھوڑ کر کم تر مصلحت پر عمل کرنا جائز ہے۔‘‘ اس لیے کہ منافقین کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ دین کے لیے جنگ کریں۔ اگر وہ دین کے لیے جنگ نہیں کرتے تو اپنے اہل و عیال اور وطن کے دفاع کے لیے ہی جنگ کریں ﴿ وَاللّٰهُ اَعْلَمُ بِمَا یَكْ٘تُمُوْنَ﴾ ’’اور اللہ خوب جانتا ہے جو وہ چھپاتے ہیں‘‘ پس وہ اسے اپنے مومن بندوں کے سامنے ظاہر کرے گا اس پر ان منافقین کو سزا دے گا۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [167
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF