Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 74
- SuraName
- تفسیر سورۂ مدثر
- SegmentID
- 1667
- SegmentHeader
- AyatText
- {11 ـ 30} هذه الآيات نزلت في الوليد بن المغيرة ، المعاند للحقِّ، المبارز لله ولرسوله بالمحاربة والمشاقَّة، فذمَّه الله ذمًّا لم يذمَّ به غيره، وهذا جزاءُ كلِّ مَنْ عانَد الحقَّ ونابذه؛ أنَّ له الخزيَ في الدُّنيا ولَعذاب الآخرة أخزى، فقال: {ذَرْني ومَن خلقتُ وحيداً}؛ أي: خلقته منفرداً بلا مال ولا أهل ولا غيره، فلم أزل أربِّيه وأعطيه، فجعلت {له مالاً ممدوداً}؛ أي: كثيراً، {و} جعلتُ له {بنينَ}؛ أي: ذكوراً، {شهوداً}؛ أي: حاضرين عنده على الدَّوام، يتمتَّع بهم ويقضي بهم حوائِجَه ويستنصِرُ بهم، {ومهَّدْتُ له تمهيداً}؛ أي: مكَّنته من الدُّنيا وأسبابها حتى انقادَتْ له مطالِبُه وحصل له ما يشتهي ويريدُ. {ثم}: مع هذه النعم والإمدادات {يَطْمَعُ أن أزيدَ}؛ أي: يطمع أن ينال نعيم الآخرة كما نال نعيم الدنيا، {كلاَّ}؛ أي: ليس الأمر كما طمع، بل هو بخلاف مقصوده ومطلوبه، وذلك {إنَّه كان لآياتنا عنيداً}: عرفها ثم أنكرها، ودعتْه إلى الحقِّ فلم يَنْقَدْ لها، ولم يكفِهِ أنَّه أعرض عنها وتولَّى ، بل جعل يحاربُها ويسعى في إبطالها، ولهذا قال عنه: {إنَّه فَكَّر}؛ أي: في نفسه. {وقدَّر}: ما فكَّر فيه؛ ليقولَ قولاً يبطِلُ به القرآن، {فقُتِلَ كيف قدَّر. ثم قُتِلَ كيف قدَّر}؛ لأنَّه قدَّر أمراً ليس في طوره، وتسوَّر على ما لا ينالُه هو ولا أمثاله، {ثم نَظَرَ}: ما يقول، {ثم عَبَسَ وبَسَرَ}: في وجهه وظاهره نفرةً عن الحقِّ وبُغضاً له، {ثم أدبر}؛ أي: تولَّى، {واستكبر}: نتيجة سعيه الفكريِّ والعمليِّ والقوليِّ، {فقال إنْ هذا إلاَّ سحرٌ يُؤْثَرُ. إنْ هذا إلاَّ قولُ البشرِ}؛ أي: ما هذا كلام الله، بل كلام البشر، وليس أيضاً كلام البشر الأخيار، بل كلام الأشرار منهم والفجَّار من كل كاذبٍ سحَّارٍ، فتبًّا له! ما أبعده من الصواب! وأحراه بالخسارة والتَّباب! كيف يدور في الأذهان أو يتصوَّره ضميرُ أيِّ إنسان أن يكون أعلى الكلام وأعظمه كلام الربِّ الكريم الماجد العظيم يشبِهُ كلام المخلوقين الفقراء الناقصين؟! أم كيف يتجرَّأ هذا الكاذب العنيد على وصفه بهذا الوصف لكلام الله تعالى ؛ فما حقُّه إلاَّ العذاب الشديد [والنكال]، ولهذا قال تعالى: {سأُصْليه سَقَرَ. وما أدراك ما سَقَرُ. لا تُبْقي ولا تَذَرُ}؛ أي: لا تبقي من الشدَّة ولا على المعذَّب شيئاً إلا وبَلَغَتْه. {لوَّاحةٌ للبشر}؛ أي: تلوحهم وتُصليهم في عذابها وتقلقهم بشدَّة حرِّها وقَرِّها. {عليها تسعةَ عشرَ}: من الملائكة، خزنة لها، غلاظٌ شدادٌ لا يعصون الله ما أمرهم ويفعلون ما يُؤمرون.
- AyatMeaning
- [30-11] یہ آیات کریمہ معاند حق اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول e کے خلاف کھلی جنگ کرنے والے، ولید بن مغیرہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی ایسی مذمت کی ہے کہ ایسی مذمت کسی کی نہیں کی، یہ ہر اس شخص کی جزا ہے جو حق کے ساتھ عناد اور دشمنی رکھتا ہے، اس کے لیے دنیا کے اندر رسوائی ہے اور آخرت کا عذاب زیادہ رسوا کن ہے۔ فرمایا: ﴿ ذَرْنِیْ وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِیْدًا﴾ ’’مجھے اوراس شخص کو چھوڑدو جسے میں نے اکیلا پیدا کیا۔‘‘ یعنی میں نے اسے اکیلا کسی مال اور اہل و عیال وغیرہ کے بغیر پیدا کیا، پس اس کی پرورش کرتا اور اسے عطا کرتا رہا۔ ﴿ وَّجَعَلْتُ لَهٗ مَالًا مَّمْدُوْدًا﴾ اور میں نے اسے بہت زیادہ مال دیا ﴿وَّ﴾ ’’اور‘‘ اسے عطا کیے ﴿ بَنِیْنَ﴾ ’’بیٹے‘‘ ﴿ شُ٘هُوْدًا﴾ جو ہمیشہ اس کے پاس موجود رہتے ہیں، وہ ان سے متمتع ہوتا ہے، ان کے ذریعے سے اپنی ضرورتیں پوری کرتا ہے اور (دشمنوں کے خلاف) ان سے مدد لیتا ہے ﴿ وَّمَهَّدْتُّ لَهٗ تَمْهِیْدًا﴾ میں نے دنیا اور اس کے اسباب پر اسے اختیار دیا، یہاں تک کہ اس کے تمام مطالب آسان ہو گئے اور اس نے ہر وہ چیز حاصل کر لی جو وہ چاہتا تھا اور جس کی اسے خواہش تھی ﴿ ثُمَّ﴾پھر ان نعمتوں اور بھلائیوں کے باوجود ﴿یَطْمَعُ اَنْ اَزِیْدَ﴾ ’’خواہش رکھتا ہے کہ میں اورزیادہ دوں۔‘‘ یعنی وہ چاہتا ہے کہ اسے آخرت کی نعمتیں بھی اسی طرح حاصل ہوں جس طرح اسے دنیا کی نعمتیں حاصل ہوئی ہیں۔ ﴿ كَلَّا﴾ یعنی معاملہ ایسا نہیں جیسا کہ وہ چاہتا ہے بلکہ وہ اس کے مطلوب و مقصود کے برعکس ہو گا۔اس کا سبب یہ ہے کہ﴿ اِنَّهٗ كَانَ لِاٰیٰتِنَا عَنِیْدًا﴾ وہ ہماری آیتوں سے عناد رکھتا ہے، اس نے ان آیات کو پہچان کر ان کا انکار کر دیا، ان آیات نے اسے حق کی طرف دعوت دی مگر اس نے ان کی اطاعت نہ کی۔ اس نے صرف ان سے روگردانی کرنے اور منہ موڑنے پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ ان کے خلاف جنگ کی اور ان کے ابطال کے لیے بھاگ دوڑ کی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں فرمایا: ﴿ اِنَّهٗ فَؔكَّـرَ ﴾ یعنی اس نے اپنے دل میں غور کیا ﴿ وَقَدَّرَ﴾ جس کے بارے میں غور کیا، اس کو تجویز کیا تاکہ وہ ایسی بات کہے جس کے ذریعے سے وہ قرآن کا ابطال کر سکے۔ ﴿ فَقُتِلَ كَیْفَ قَدَّرَۙ۰۰ثُمَّ قُ٘تِلَ كَیْفَ قَدَّرَ﴾ ’’پس وہ مارا جائے اس نے کیسی تجویز کی، پھروہ مارا جائے اس نے کیسی تجویز کی۔‘‘ کیونکہ اس نے ایسی تجویز سوچی جو اس کی حدود میں نہیں، اس نے ایسے معاملے میں ہاتھ ڈالا جو اس کی اور اس جیسے دوسرے لوگوں کی پہنچ میں نہیں۔ ﴿ ثُمَّ نَظَرَ﴾ پھر اس نے جو کچھ کہا اس میں غور کیا ﴿ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ﴾ ، پھر اس نے تیوری چڑھائی اور اپنے منہ کو بگاڑا اور حق سے نفرت اوربغض ظاہر کیا ﴿ ثُمَّ اَدْبَرَ﴾ ، پھر پیٹھ پھیر کر چل دیا ﴿ وَاسْتَكْبَرَ﴾ اپنی فکری، عملی اور قولی کوشش کے نتیجے میں تکبر کیا اور کہا: ﴿ فَقَالَ اِنْ هٰؔذَاۤ اِلَّا سِحْرٌ یُّؤْثَرُۙ۰۰ اِنْ هٰؔذَاۤ اِلَّا قَوْلُ الْ٘بَشَرِ﴾ یعنی یہ اللہ تعالیٰ کا کلام نہیں بلکہ انسان کا کلام ہے، نیز یہ کسی نیک انسان کا کلام نہیں بلکہ انسانوں میں سے اشرار، فجار، جھوٹے اور جادوگر کا کلام ہے۔ ہلاکت ہو اس کے لیے، راہ صواب سے کتنا دور، خسارے اور نقصان کا کتنا مستحق ہے! یہ بات ذہنوں میں کیسے گھومتی ہے یا کسی انسان کا ضمیر یہ کیسے تصور کر سکتا ہے کہ سب سے اعلیٰ اور عظیم ترین کلام، رب کریم، صاحب مجد و عظمت کا کلام، ناقص اور محتاج مخلوق کے کلام سے مشابہت رکھتا ہے؟ یا یہ عناد پسند جھوٹا شخص، اللہ تعالیٰ کے کلام کو اس وصف سے موصوف کرنے کی کیوں کر جرأت کرتا ہے؟ پس یہ سخت عذاب کے سوا کسی چیز کا مستحق نہیں، بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿سَاُصْلِیْهِ سَقَرَ۰۰ وَمَاۤ اَدْرٰىكَ مَا سَقَرُ ۰۰لَا تُبْقِیْ وَ لَا تَذَرُ﴾ ’’ہم عنقریب اس کو ’’سقر‘‘ میں داخل کریں گےاورتمہیں کیا معلوم کہ سقر کیا ہے؟ (وہ آگ ہے) کہ باقی رکھے گی نہ چھوڑے گی‘‘ یعنی جہنم کوئی ایسی سختی نہیں چھوڑے گی جو عذاب دیے جانے والے کو نہ پہنچے ﴿لَوَّ٘احَةٌ لِّ٘لْ٘بَشَرِ﴾ ’’چمڑی جھلسا دینے والی ہے‘‘ یعنی جہنم ان کو اپنے عذاب میں جھلس ڈالے گی اور اپنی شدید گرمی اور شدید سردی سے انھیں بے چین کر دے گی۔ ﴿عَلَیْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ﴾ ، یعنی جہنم پر انیس فرشتے داروغوں کے طور پر متعین ہیں جو نہایت سخت اور درشت خو ہیں، اللہ تعالیٰ ان کو جو حکم دیتا ہے وہ نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو ان کو حکم دیا جاتا ہے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [30-
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF