Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 73
- SuraName
- تفسیر سورۂ مزمل
- SegmentID
- 1664
- SegmentHeader
- AyatText
- {20} ذكر الله في أول هذه السورة أنَّه أمر رسولَه بقيام نصفِ الليل أو ثلثيه أو ثلثه ، والأصلُ أنَّ أمته أسوةٌ له في الأحكام، وذكر في هذا الموضع أنَّه امتثل ذلك هو وطائفةٌ معه من المؤمنين. ولما كان تحرير الوقت المأمور به مشقَّة على الناس؛ أخبر أنَّه سهَّل عليهم في ذلك غاية التسهيل؛ فقال: {والله يقدِّرُ الليلَ والنهارَ}؛ أي: يعلم مقاديرهما وما يمضي ويبقى منهما ، {علم أن لن تُحصوه}؛ أي: لن تعرِفوا مقداره من غير زيادةٍ ولا نقصٍ؛ لكون ذلك يستدعي انتباهاً وعناءً زائداً؛ أي: فخفَّف عنكم وأمركم بما تيسَّر عليكم سواء زاد على المقدَّر أو نَقَصَ، {فاقرؤوا ما تيسَّرَ من القرآن}؛ أي: ممَّا تعرفون ولا يشقُّ عليكم، ولهذا كان المصلِّي بالليل مأموراً بالصلاة ما دام نشيطاً؛ فإذا فَتَرَ أو كسل أو نعس؛ فليسترحْ ليأتيَ الصلاةَ بطمأنينةٍ وراحةٍ. ثم ذكر بعضَ الأسباب المناسبة للتخفيف، فقال: {علم أن سيكونُ منكم مرضى}: يشقُّ عليهم صلاة نصف الليل أو ثلثيه أو ثلثه، فليصلِّ المريض ما يسهُلُ عليه، ولا يكون أيضاً مأموراً بالصَّلاة قائماً عند مشَّقة ذلك، بل لو شقَّت عليه الصلاةُ النافلةُ؛ فله تركُها، وله أجرُ ما كان يعمل صحيحاً. {وآخرون يضرِبون في الأرض يبتغونَ من فضل الله}؛ أي: وعلم أنَّ منكم مسافرين يسافرون للتجارة؛ ليستغنوا عن الخلق، ويتكفَّفوا عنهم ؛ أي: فالمسافر حالُهُ تناسِبُ التخفيف، ولهذا خفَّف عنه في صلاة الفرض، فأبيح له جمعُ الصلاتين في وقتٍ واحدٍ وقصرُ الصَّلاة الرُّباعية. وكذلك {آخرون يقاتِلون في سبيل اللهِ فاقرؤوا ما تيسَّرَ منه}: فذكر تعالى تخفيفين؛ تحفيفاً للصحيح المقيم يراعي فيه نشاطه من غير أن يُكَلَّفَ عليه تحرير الوقت، بل يتحرَّى الصلاة الفاضلة، وهي ثلث الليل بعد نصفه الأول، وتخفيفاً للمريض والمسافر، سواء كان سفرُه للتجارة أو لعبادةٍ من جهادٍ أو حجٍّ أو غيره ؛ فإنَّه [أيضاً] يراعي ما لا يكلِّفه؛ فلله الحمد والثناء؛ حيث لم يجعلْ علينا في الدين من حرج، بل سهَّل شرعه، وراعى أحوال عباده ومصالح دينهم وأبدانهم ودنياهم. ثم أمر العباد بعبادتين هما أمُّ العبادات وعمادُها: إقامة الصلاة التي لا يستقيمُ الدين إلاَّ بها، وإيتاءُ الزَّكاة التي هي برهانُ الإيمان وبها تحصُلُ المواساة للفقراء والمساكين، فقال: {وأقيموا الصلاة}؛ أي: بأركانها وحدودها وشروطها وجميع مكمِّلاتها ، {وأقرِضوا الله قرضاً حسناً}؛ أي: خالصاً لوجه الله بنيَّة صادقةٍ وتثبيتٍ من النفس ومال طيِّبٍ، ويدخُلُ في هذا الصدقة الواجبة والمستحبَّة. ثم حثَّ على عموم الخير وأفعاله، فقال: {وما تقدِّموا لأنفسكم من خيرٍ تجِدوه عند الله هو خيراً وأعظم أجراً}: الحسنة بعشر أمثالها إلى سبعمائةِ ضعفٍ إلى أضعافٍ كثيرة. وليعلمْ أنَّ مثقال ذرَّةٍ في هذه الدار من الخير يقابله أضعافُ أضعافِ الدُّنيا وما عليها في دار النعيم المقيم من اللذَّات والشَّهوات، وأنَّ الخير والبرَّ في هذه الدنيا مادةُ الخير والبرِّ في دار القرار وبذرُه وأصلُه وأساسُه. فوا أسفاه على أوقاتٍ مضت في الغفلات! ووا حسرتاه على أزمانٍ تقضَّت في غير الأعمال الصالحات! ووا غوثاه من قلوبٍ لم يؤثِّرْ فيها وعظُ بارئها ولم ينجَعْ فيها تشويق من هو أرحم بها من نفسها! فلك اللهم الحمدُ وإليك المشتكى وبك المستغاث ولا حول ولا قوَّة إلاَّ بك. {واستغفروا الله إنَّ الله غفورٌ رحيمٌ}: وفي الأمر بالاستغفار بعد الحثِّ على أفعال الطاعة والخير فائدةٌ كبيرةٌ، وذلك أنَّ العبد لا يخلو من التقصير فيما أُمِرَ به: إما أنْ لا يفعلَه أصلاً، أو يفعله على وجهٍ ناقصٍ، فأُمِرَ بترقيع ذلك بالاستغفار؛ فإنَّ العبد يذنِبُ آناء الليل والنهار؛ فمتى لم يتغمَّدْه الله برحمته ومغفرته؛ فإنَّه هالكٌ.
- AyatMeaning
- [20] اس سورۂ مبارکہ کی ابتدا میں اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا ہے کہ اس نے اپنے رسولe کو حکم دیا کہ آپ نصف رات، ایک تہائی رات یا دو تہائی رات قیام کیا کریں اور اصل بات یہ ہے کہ احکام میں آپ اپنی امت کے لیے نمونہ ہیں۔ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس مقام پر ذکر فرمایا کہ آپ نے اور آپ کے ساتھ اہل ایمان کی ایک جماعت نے اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل کی۔ چونکہ مامور بہ وقت کا تعین کرنا لوگوں کے لیے بہت مشکل تھا، اس لیے اللہ تعالیٰ نے آگاہ فرمایا کہ اس نے ان کے لیے اس میں انتہائی آسانی پیدا کر دی ہے، چنانچہ فرمایا: ﴿ وَاللّٰهُ یُقَدِّرُؔ الَّیْلَ وَالنَّهَارَ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ دن اور رات کی مقدار کو جانتا ہے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ کتنا وقت گزر گیا ہے اور کتنا باقی ہے۔﴿ عَلِمَ اَنْ لَّ٘نْ تُحْصُوْهُ﴾ یعنی وہ جانتا ہے کہ کسی کمی بیشی کے بغیر تم اس کی مقدار معلوم نہیں کر سکو گے کیونکہ اس کی مقدار کی معرفت کا حصول، واقفیت اور زائد مشقت کا تقاضا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ نے تمھارے لیے تخفیف کر دی ہے اور تمھیں صرف اسی چیز کا حکم دیا ہے جو تمھارے لیے آسان ہے، خواہ وہ مقدار سے زیادہ ہو یا کم۔ ﴿ فَاقْ٘رَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْ٘قُ٘رْاٰنِ﴾ ’’لہٰذا پڑھو قرآن میں سے جو آسان ہو‘‘ یعنی اس میں سے جس کی تمھیں معرفت حاصل ہے اورجس کی قراء ت تم پر شاق نہیں گزرتی۔ بنابریں قیام لیل کرنے والا نمازی صرف اس وقت نماز پڑھنے پر مامور ہے جب تک اس میں نشاط ہے، جب وہ اکتاہٹ، کسل مندی یا اونگھ وغیرہ کا شکار ہو جائے تو اسے آرام کرنا چاہیے، اسے طمانینت اور راحت کے ساتھ نماز پڑھنی چاہیے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے بعض ایسے اسباب ذکر فرمائے جو تخفیف سے مناسبت رکھتے ہیں ، چنانچہ فرمایا: ﴿ عَلِمَ اَنْ سَیَكُوْنُ مِنْكُمْ مَّرْضٰى﴾ ’’وہ جانتا ہے تم میں سے بیمار بھی ہوں گے۔‘‘ دو تہائی شب ، نصف شب یا ایک تہائی شب کی نماز ان پر شاق گزرے گی، پس مریض اتنی ہی نماز پڑھےجو اس کے لیے آسان ہے، نیز وہ مشقت کی صورت میں کھڑے ہو کر نماز پڑھنے پر بھی مامور نہیں بلکہ اگر نفل نماز پڑھنے میں اس کے لیے مشقت ہے تو وہ اسے چھوڑ دے اور اسے اس نماز کا اجر ملے گا جو وہ صحت مند ہونے کی حالت میں پڑھتا رہا ہے۔ ﴿ وَاٰخَرُوْنَ یَضْرِبُوْنَ فِی الْاَرْضِ یَبْتَغُوْنَ مِنْ فَضْلِ اللّٰهِ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ یہ بھی جانتا ہے کہ تم میں مسافر بھی ہیں جو تجارت کے لیے سفر کرتے ہیں تاکہ وہ مخلوق سے بے نیاز اور ان سے سوال کرنے سے باز رہیں۔ پس مسافر کے احوال سے تخفیف مناسبت رکھتی ہے، اسی لیے اس میں اس کے لیے فرض نماز میں بھی تخفیف کر دی گئی ہے اور اس کے لیے ایک وقت میں دو نمازوں کو جمع کرنا اور چار رکعتوں والی نماز میں قصر کرنا مباح کر دیا گیا ہے۔ ﴿ وَاٰخَرُوْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ١ۖٞ فَاقْ٘رَءُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنْهُ﴾ ’’اور کچھ لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد بھی کرتے ہیں، لہٰذا تم با آسانی جتنا قرآن پڑھ سکو پڑھو۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے دو تخفیفوں کا ذکر فرمایا ہے۔اول وہ تخفیف جو صحت مند اور اپنے گھر میں مقیم شخص کے لیے ہے جو وقت کے تعین کا مکلف ہوئے بغیر اپنی راحت اور نشاط کی رعایت رکھتا ہے بلکہ وہ فضیلت والی نماز کی کوشش کرتا ہے اور یہ رات کے نصف اول کے بعد ایک تہائی رات تک قیام کرنا ہے۔ دوسری تخفیف مسافر کے لیے ہے، خواہ یہ سفر تجارت کے لیے ہو یا عبادت ، یعنی جہاد، اور حج وغیرہ کے لیے ہو، پس وہ اتنی مقدار کی رعایت رکھ سکتا ہے جو اس کو تکلیف نہ دے۔ پس ہر قسم کی حمد و ثنا اللہ کے لیے ہے جس نے امت کے لیے دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی بلکہ اس نے اپنی شریعت کو آسان بنایا اور اس نے اپنے بندوں کے احوال، ان کے دین، ابدان اور دنیا کے مصالح کی رعایت رکھی۔ پھر اللہ تعالیٰ نے دو عبادتوں کا ذکر فرمایا جو ام العبادات اور ان کا ستون ہیں ، یعنی نماز قائم کرنا جس کے بغیر دین درست نہیں رہتا، اور زکاۃ ادا کرنا جو ایمان کی دلیل ہے اور اس سے حاجت مندوں اور مساکین کے لیے ہمدردی حاصل ہوتی ہے، لہٰذا فرمایا: ﴿ وَاَ٘قِیْمُوا الصَّلٰوةَ﴾ یعنی نماز کو اس کے ارکان، اس کی حدود، اس کی شرائط، اور اس کی تکمیل کرنے والے تمام امور کے ساتھ قائم کرو۔﴿ وَاٰتُوا الزَّكٰوةَ وَاَ٘قْ٘رِضُوا اللّٰهَ قَ٘رْضًا حَسَنًا﴾ ’’اور زکاۃ ادا کرتے رہو اور اللہ کو قرض حسنہ دیتے رہو۔‘‘ یعنی سچی نیت اور ثبات نفس سے، خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے پاک مال میں سے خرچ کرنا، اس میں صدقات واجبہ اور صدقات مستحبہ دونوں داخل ہیں، پھر عام بھلائی اور بھلائی کے کاموں کی ترغیب دی۔ فرمایا: ﴿ وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِكُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْهُ عِنْدَ اللّٰهِ هُوَ خَیْرًا وَّاَعْظَمَ اَجْرًا﴾ ’’اور جو نیک عمل تم اپنے لیے آگے بھیجو گے، اس کو اللہ کے ہاں بہتر اور ثواب میں بہت زیادہ پاؤ گے۔‘‘ نیکی کا اجر دس گنا سے لے کر سات سو گنا تک بلکہ بے شمار گنا ملتا ہے۔ معلوم ہونا چاہیے کہ اس دنیا میں کی ہوئی ذرہ بھر بھلائی کے مقابلے میں، ہمیشہ رہنے والی نعمتوں کے گھر میں دنیا کی لذتوں سے کئی گنا زیادہ لذتیں اور شہوات ہیں، اس دنیا میں کی ہوئی بھلائی اور نیکی، آخرت کے دائمی گھر میں بھلائی اور نیکی کی بنیاد، اس کا بیج، اس کی اصل اور اساس ہے۔ ہائے افسوس ! ان اوقات پر جو غفلت میں گزر گئے اور حسرت ہے ان زمانوں پر جو غیر صالح اعمال میں بیت گئے، ہے کوئی مددگار اس دل کا جس پر اس کے پیدا کرنے والے کی کوئی نصیحت اثر نہیں کرتی اور نہ اس ہستی کی ترغیب کوئی فائدہ دیتی ہے جو اس پر اس سے بھی زیادہ رحم کرتی ہے جتنا وہ خود اپنے پر رحم کر سکتا ہے۔ اے اللہ! ہر قسم کی حمد و ثنا صرف تیرے ہی لیے ہے، تیرے ہی پاس شکایت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد طلب کرتے ہیں۔ (وَلَا حَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ إِلَّا بِکَ) ﴿ وَاسْتَغْفِرُوا اللّٰهَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ﴾ بھلائی اور نیکی کے کاموں کی ترغیب دینے کے بعد، استغفار کے حکم دیا جس میں بہت بڑا فائدہ ہے۔ اس کا سبب یہ ہے کہ بندہ ان کاموں میں کوتاہی سے پاک نہیں جن کا اسے حکم دیا گیا ہے۔ یا تو وہ ان کاموں کو سرے سے کرتا ہی نہیں یا انھیں ناقص طریقے سے کرتا ہے۔ پس اسے استغفار کے ذریعے سے اس کی تلافی کرنے کا حکم دیا گیا ہے کیونکہ بندہ دن رات گناہ کرتا ہے، اگر اللہ تعالیٰ اسے اپنی رحمت اور مغفرت سے ڈھانپ نہ لے تو وہ ہلاک ہو جائے گا۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [20]
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF