Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 3
- SuraName
- تفسیر سورۂ آل عمران
- SegmentID
- 209
- SegmentHeader
- AyatText
- {154} {ثم أنزل عليكم من بعد الغم}، الذي أصابكم، {أمنة نُعاساً يغشى طائفة منكم}، ولا شك أن هذا رحمة بهم وإحسان وتثبيت لقلوبهم وزيادة طمأنينة، لأن الخائف لا يأتيه النعاس، لما في قلبه من الخوف، فإذا زال الخوف عن القلب أمكن أن يأتيه النعاس، وهذه الطائفة التي أنعم الله عليها بالنعاس، هم المؤمنون الذين ليس لهم إلا إقامة دين الله ورضا الله ورسوله ومصلحة إخوانهم المسلمين، وأما الطائفة الأخرى الذين {قد أهمتهم أنفسهم}، فليس لهم هَمٌّ في غيرها لنفاقهم أو ضعف إيمانهم، فلهذا لم يصبهم من النعاس ما أصاب غيرهم، {يقولون هل لنا من الأمر من شيء}، وهذا استفهام إنكاري، أي: ما لنا من الأمر، أي: النصر والظهور شيء، فأساؤوا الظنَّ بربهم وبدينه وبنبيه، وظنوا أن الله لا يتم أمر رسوله، وأن هذه الهزيمة هي الفيصلة والقاضية على دين الله. قال الله في جوابهم: {قل إن الأمر كله لله}، الأمر يشمل الأمر القدري والأمر الشرعي، فجميع الأشياء بقضاء الله وقدره، وعاقبتها النصر والظفر لأوليائه وأهل طاعته وإن جرى عليهم ما جرى، {يخفون} يعني المنافقين {في أنفسهم ما لا يبدون لك}، ثم بيَّن الأمر الذي يخفونه فقال: {يقولون لو كان لنا من الأمر شيء}؛ أي: لو كان لنا في هذه الواقعة رأي ومشورة {ما قتلنا ههنا}، وهذا إنكار منهم، وتكذيب بقدر الله، وتسفيه منهم لرأي رسول الله ورأي أصحابه، وتزكية منهم لأنفسهم، فرد الله عليهم بقوله: {قل لو كنتم في بيوتكم} التي هي أبعد شيء عن مظان القتل {لبرز الذين كتب عليهم القتل إلى مضاجعهم}، فالأسباب وإن عظمت إنما تنفع إذا لم يعارضها القدر والقضاء، فإذا عارضها القدر لم تنفع شيئاً، بل لا بد أن يمضي الله ما كتب في اللوح المحفوظ من الموت والحياة {وليبتلي الله ما في صدوركم}؛ أي: يختبر ما فيها من نفاق وإيمان وضعف إيمان، {وليمحص ما في قلوبكم} من وساوس الشيطان وما تأثر عنها من الصفات غير الحميدة {والله عليم بذات الصدور}؛ أي: بما فيها وما أكنته، فاقتضى علمه وحكمته أن قدر من الأسباب ما به تظهر مخبآت الصدور وسرائر الأمور. ثم قال تعالى:
- AyatMeaning
- [154] ﴿ثُمَّ اَنْزَلَ عَلَیْكُمْ مِّنْۢ بَعْدِ الْغَمِّ ﴾ ’’پھر اتارا اس نے تم پر اس غم کے بعد‘‘ یعنی وہ غم جو تمھیں پہنچا ﴿اَمَنَةً نُّعَاسًا یَّغْشٰى طَآىِٕفَةً مِّنْكُمْ﴾ ’’امن کو جو کہ اونگھ تھی کہ ڈھانک لیا اس نے تمھارے ایک گروہ کو‘‘ اور اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت، احسان، اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان کے دلوں کو ثابت قدم رکھنے اور طمانیت میں اضافہ کا باعث تھا۔ کیونکہ خوف زدہ شخص کو، دل خوف سے لبریز ہونے کی وجہ سے اونگھ اور نیند نہیں آتی۔ جب دل سے خوف زائل ہو جاتا ہے، تب نیند آنے کا امکان ہوتا ہے۔ یہ گروہ جس کو اللہ تعالیٰ نے نیند اور اونگھ سے نوازا ، اہل ایمان ہیں جن کے سامنے اللہ تعالیٰ کے دین کو قائم کرنے، اللہ اور اس کے رسولeکی رضا کے حصول اور مسلمانوں کے مصالح کے سوا کوئی اور مقصد نہیں تھا۔ رہا دوسرا گروہ جس کے بارے میں فرمایا: ﴿قَدْ اَهَمَّؔتْهُمْ اَنْفُسُهُمْ﴾ ’’انھیں فکر میں ڈال دیا تھا ان کی جانوں نے‘‘ تو ان کے نفاق یا ان کے ایمان کی کمزوری کی بنا پر، ان کا اپنی جان بچانے کے سوا کوئی اور ارادہ نہ تھا۔ اس لیے ان کو وہ اونگھ نہ آئی جو دوسروں کو آئی تھی ﴿یَقُوْلُوْنَ هَلْ لَّنَا مِنَ الْاَمْرِ مِنْ شَیْءٍ﴾ ’’وہ کہتے تھے، کچھ بھی کام ہے ہمارے ہاتھ میں؟‘‘ یہ استفہام انکاری ہے یعنی فتح و نصرت میں ہمارا کوئی اختیار نہیں۔ پس انھوں نے اپنے رب، اپنے دین اور اپنے نبی کے بارے میں بدگمانی کی اور انھوں نے سمجھ لیا کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کی دعوت کو پورا نہیں کرے گا۔ انھوں نے یہ بھی سمجھ لیا کہ یہ شکست اللہ تعالیٰ کے دین کے خلاف ایک فیصلہ کن شکست ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جواب میں فرمایا ﴿قُ٘لْ اِنَّ الْاَمْرَ كُلَّهٗ لِلّٰهِ﴾ ’’کہہ دو کہ تمام معاملے کا اختیار اللہ کے قبضہ قدرت میں ہے۔‘‘ (امر) دو امور پر مشتمل ہوتا ہے:(۱) امر قدری اور(۲) امر شرعی۔ پس تمام چیزوں کا ظہور اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر سے ہے اور اللہ تعالیٰ کے اولیاء اور اس کی اطاعت کرنے والوں کے حق میں، ان چیزوں کا انجام فتح وظفر ہی ہوتا ہے خواہ ان پر کچھ بھی گزر جائے۔ ﴿یُخْفُوْنَ﴾ یعنی منافقین چھپاتے ہیں ﴿ فِیْۤ اَنْفُسِهِمْ مَّا لَا یُبْدُوْنَ لَكَ﴾ ’’اپنے دلوں میں جو آپ کے سامنے ظاہر نہیں کرتے‘‘ پھر اللہ تعالیٰ نے اس معاملے کو واضح کر دیا جو وہ چھپاتے تھے، چنانچہ فرمایا ﴿یَقُوْلُوْنَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْاَمْرِ شَیْءٌ﴾ یعنی اگر اس واقعہ میں ہم سے رائے اور مشورہ لیا گیا ہوتا ﴿مَّا قُتِلْنَا هٰهُنَا﴾ ’’تو ہم یہاں مارے نہ جاتے۔‘‘ یہ ان کی طرف سے اللہ تعالیٰ کی قضا و قدر کا انکار اور اس کی تکذیب ہے اور یہ رسول اللہeاور آپ کے اصحاب کرام کی رائے کو بیوقوفی کی طرف منسوب کرنا اور اپنے آپ کو پاک صاف اور صحیح قرار دینا ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے ان کی تردید کرتے ہوئے فرمایا: ﴿قُ٘لْ لَّوْ كُنْتُمْ فِیْ بُیُوْتِكُمْ﴾ ’’کہہ دیں، اگر تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے‘‘ گھر ایسی جگہ ہے جہاں قتل کا گمان بعید ترین چیز ہے۔ فرمایا ﴿لَـبَرَزَ الَّذِیْنَ كُتِبَ عَلَیْهِمُ الْقَتْلُ اِلٰى مَضَاجِعِهِمْ﴾ ’’تب بھی وہ لوگ ضرور اپنے پڑاؤ کی طرف نکلتے جن کا مارا جانا لکھ دیا گیا تھا‘‘ پس معلوم ہوا کہ اسباب خواہ کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہوں، وہ تب ہی فائدہ دیتے ہیں جب قضا و قدر معارض نہ ہو۔ جب قضا و قدر اسباب کے خلاف ہو تو اسباب کوئی فائدہ نہیں دیتے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے موت و حیات کے جو فیصلے لوح محفوظ میں لکھ دیے ہیں وہ نافذ ہو کر رہتے ہیں۔ ﴿وَلِیَبْتَ٘لِیَ اللّٰهُ مَا فِیْ صُدُوْرِكُمْ﴾ ’’تاکہ وہ آزمائے جو تمھارے سینوں میں (نفاق، ایمان اور ضعف ایمان) ہے۔‘‘ ﴿وَلِیُمَحِّ٘صَ مَا فِیْ قُ٘لُوْبِكُمْ﴾ ’’تاکہ وہ تمھارے دلوں کو (شیطانی وسوسوں اور ان سے پیدا ہونے والی مذموم صفات سے) پاک کر دے‘‘ ﴿وَاللّٰهُ عَلِیْمٌۢ بِذَاتِ الصُّدُوْرِ﴾ یعنی اللہ تعالیٰ ان تمام (خیالات اور ارادوں) کو جانتا ہے جو دلوں کے اندر ہیں اور ان میں چھپے ہوئے ہیں۔ پس اس کے علم و حکمت کا تقاضا ہوا کہ وہ ایسے اسباب پیدا کرے جن سے سینوں کے بھید اور معاملات کے اسرار نہاں ظاہر ہوں۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [154
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF