Details
Tbl_TFsadiQuraanSummary
- SuraNo
- 3
- SuraName
- تفسیر سورۂ آل عمران
- SegmentID
- 209
- SegmentHeader
- AyatText
- {153} يذكرهم تعالى حالهم في وقت انهزامهم عن القتال، ويعاتبهم على ذلك فقال: {إذ تُصعدون}؛ أي: تَجِدُّون في الهرب {ولا تلوون على أحد}؛ أي: لا يلوي أحد منكم على أحد ولا ينظر إليه، بل ليس لكم هَمٌّ إلا الفرار والنجاء عن القتال، والحال أنه ليس عليكم خطر كبير، إذ لستم آخر الناس مما يلي الأعداء ويباشر الهيجاء، بل {الرسول يدعوكم في أخراكم}؛ أي: مما يلي القوم يقول: «إليَّ عباد الله» ، فلم تلتفتوا إليه ولا عرجتم عليه، فالفرار نفسه موجب للوم، ودعوة الرسول الموجبة لتقديمه على النفس أعظم لوماً بتخلفكم عنها {فأثابكم}؛ أي: جازاكم على فعلكم {غمًّا بغم}؛ أي: غمًّا يتبعه غمٌّ، غمٌّ بفوات النصر وفوات الغنيمة، وغمٌّ بانهزامكم، وغمٌّ أنساكم كل غمٍّ وهو سماعكم أن محمداً - صلى الله عليه وسلم - قد قتل. ولكن الله بلطفه وحسن نظره لعباده جعل اجتماع هذه الأمور لعباده المؤمنين خيراً لهم فقال: {لكيلا تحزنوا على ما فاتكم}؛ من النصر والظفر، {ولا ما أصابكم}؛ من الهزيمة والقتل والجراح إذا تحققتم أن الرسول - صلى الله عليه وسلم - لم يقتل، هانت عليكم تلك المصيبات، واغتبطتم بوجوده المسلي عن كل مصيبة ومحنة، فلله ما في ضمن البلايا والمحن من الأسرار والحكم، وكل هذا صادر عن علمه وكمال خبرته بأعمالكم وظواهركم وبواطنكم، ولهذا قال: {والله خبير بما تعملون}، ويحتمل أن معنى قوله: {لكيلا تحزنوا على ما فاتكم ولا ما أصابكم}؛ يعني: أنه قدَّر ذلك الغم والمصيبة عليكم، لكي تتوطن نفوسكم وتمَرَّنُوا على الصبر على المصيبات، ويخف عليكم تحمل المشقات.
- AyatMeaning
- [153] اللہ تبارک و تعالیٰ جنگ سے ان کی پسپائی کے وقت ان کا حال بیان کرتے ہوئے ان پر عتاب کرتا ہے۔ چنانچہ فرمایا: ﴿اِذْ تُصْعِدُوْنَ﴾ یعنی جب تم تیزی سے بھاگے جا رہے تھے ﴿وَلَا تَلْوٗنَ عَلٰۤى اَحَدٍ﴾ یعنی تم ایک دوسرے کو پیچھے مڑ کر نہیں دیکھتے تھے بلکہ جنگ سے فرار اور نجات کے سوا تمھارا کوئی ارادہ نہ تھا اور حال یہ تھا کہ تم کسی بڑے خطرے سے بھی دوچار نہ تھے کیونکہ تم سب سے آخر میں تھے اور ان لوگوں میں سے نہ تھے جو دشمن کے قریب تھے جو بلاواسطہ میدان جنگ میں تھے، بلکہ صورت حال یہ تھی ﴿وَّالرَّسُوْلُ یَدْعُوْؔكُمْ فِیْۤ اُخْرٰؔىكُمْ﴾ ’’رسول تمھیں بلا رہے تھے، تمھارے پیچھے سے‘‘ یعنی رسول اللہeان لوگوں کو بلا رہے تھے جو پہاڑوں پر چڑھ رہے تھے ’’اے اللہ کے بندو! میرے پاس آؤ‘‘ مگر تم نے ان کی طرف پلٹ کر دیکھا نہ تم ان کے پاس رکے۔ پس میدان جنگ سے فرار فی نفسہ موجب ملامت ہے اور رسول اللہeکا بلانا، جو اس امر کا موجب تھا کہ اپنی جان پر بھی آپ کی پکار کو مقدم رکھا جائے، سب سے بڑی ملامت کا مقام ہے، کیونکہ تم لوگ بلانے کے باوجود آپ سے پیچھے رہے۔ ﴿فَاَثَابَكُمْ﴾ یعنی اس نے تمھارے اس فعل پر تمھیں جزا دی ﴿غَمًّۢا بِغَمٍّ﴾ یعنی غم کے بعد غم۔ فتح حاصل نہ ہونے کا غم، مال غنیمت سے محروم ہونے کا غم، ہزیمت اٹھانے کا غم اور ایک ایسا غم جس نے تمام غموں کو بھلا دیا اور وہ تھا تمھارا اس افواہ کو سن لینا کہ محمدeکو شہید کر دیا گیا۔ مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے لطف و کرم اور اپنے بندوں پر حسن نظر کی بنا پر ان تمام امور کے اجتماع کو ان کے لیے بھلائی بنا دیا۔ فرمایا: ﴿لِّكَیْلَا تَحْزَنُوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ﴾ یعنی جو فتح و ظفر تمھیں حاصل نہ ہو سکی۔ اس پر غمزدہ نہ ہو ﴿وَلَا مَاۤ اَصَابَكُمْ﴾ ’’اور نہ اس پر جو تمھیں پہنچا‘‘ یعنی تمھیں ہزیمت ، قتل اور زخموں کا جو سامنا کرنا پڑا۔ اور جب تم نے اس بات کی تحقیق کر لی کہ رسول اللہeشہید نہیں ہوئے تو تم پر تمام مصیبتیں آسان ہو گئیں۔ تم رسول اللہeکے زندہ ہونے پر خوش ہو گئے آپ کی زندگی کی خبر نے ہر مصیبت اور سختی کو فراموش کر دیا۔ پس ابتلا اور آزمائش میں اللہ تعالیٰ کی حکمتیں اور اسرار پنہاں ہوتے ہیں اور یہ سب کچھ اس کے علم، تمھارے اعمال اور ظاہر و باطن کے مکمل باخبر ہونے کے ساتھ صادر ہوتا ہے۔ اس لیے فرمایا: ﴿وَاللّٰهُ خَبِیْرٌۢ بِمَا تَعْمَلُوْنَ﴾ ’’اللہ تمھارے اعمال کی خبر رکھتا ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ کے ارشاد ﴿لِّكَیْلَا تَحْزَنُوْا عَلٰى مَا فَاتَكُمْ وَلَا مَاۤ اَصَابَكُمْ﴾ میں اس معنی کا احتمال بھی ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے تم پر یہ غم اور مصیبت اس لیے مقدر کیے ہیں تاکہ تمھارے نفس ان مصائب کا سامنا کرنے پر آمادہ، اور ان پر صبر کرنے کے عادی ہوں اور تمھارے لیے مشقتوں کو برداشت کرنا آسان ہو جائے۔
- Vocabulary
- AyatSummary
- [153
- Conclusions
- LangCode
- ur
- TextType
- UTF